• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کے نامزد وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دینے کو بھارتی ذرائع ابلاغ ایک جرأتمندانہ فیصلہ قرار دے رہے ہیں جبکہ جنوبی ایشیا کے ان دو اہم ممالک پاکستان اور بھارت میں ہونیوالی تبدیلیوں اور خطے میں اہم واقعات پر دلچسپی کی نظر رکھنے والے بڑے ممالک جہاں نریندر مودی کے اس فیصلے کی ستائش کر رہے ہیں وہاں وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے اس دعوت کو قبول کرتے ہوئے حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے فیصلے کو بھی دانشمندانہ قرار دے رہے ہیں کیونکہ اگر ایک طرف بھارتی وزیراعظم نے دعوت دے کر جرأتمندانہ فیصلہ کیا ہے تو دوسری طرف وزیراعظم نواز شریف نے یہ دعوت قبول کر کے ایک مشکل قدم اٹھایا ہے۔ ماضی میں جب من موہن سنگھ نے بھارت کی وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا تو کچھ دنوں بعد انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں اس سوال کے جواب میں کہ وہ کون سے اہم کام ہیں جو وزیراعظم بننے کے بعد وہ کرنا چاہیں گے تو من موہن سنگھ کا جواب تھا کہ ’’اگر میں اپنے دور اقتدار میں پاکستان اور بھارت کے رشتوں کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو گیا تو میں سمجھوں گا کہ میں نے اپنے اقتدار کا مقصد حاصل کر لیا ہے لیکن اپنے دس سالہ اقتدار کے دوران وہ دونوں ملکوں کے درمیان رشتے تو خیر کیا بہتر کرتے اپنی خواہش کے باوجود وہ پاکستان کا دورہ بھی نہ کر سکے اور اس عرصے میں پاکستان میں (چکوال) اپنی جنم بھومی دیکھنے کی حسرت لئے اقتدار سے رخصت ہو گئے۔ کیا نریندر مودی اپنے عرصہ اقتدار میں خواہش کا اظہار کئے بغیر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری اور 6 دہائیوں پر محیط حل طلب تنازعات کے حوالے سے کوئی ایسی پیش رفت یا جراتمندانہ اقدام اٹھائیں گے جس میں ان کے پیش رو ناکام رہے۔ اس حوالے سے اگر من موہن سنگھ اور نریندر مودی کا موازنہ کیا جائے تو من موہن سنگھ اختیارات ہونے کے باوجود ایک بے اختیار وزیراعظم تھے ان کے اقتدار کی باگ ڈور کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی کے پاس تھی وہ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ’’پوچھ پوچھ کر قدم اٹھاتے تھے حتیٰ کہ بعض امور میں انہیں راہول گاندھی کے سامنے بھی جوابدہ ہونا پڑتا تھا۔ پھر طبعاً دھیمے مزاج کے حامل من موہن سنگھ خود بھی اپنے اختیارات کو موثر انداز سے استعمال کرنے کی ہمت اور جراتمندی سے محروم شخص تھے جبکہ ان کے برعکس جارحانہ مزاج رکھنے والے نریندرا مودی کی پارٹی نے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو لوک سبھا میں 325 نشستیں ملی ہیں جبکہ 543 سے ایوان میں حکومت سازی کے لئے 272 نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف بھارتیہ جنتا پارٹی کو ملنے والی نشستوں کی تعداد ہی 283 ہے۔ اس طرح نریندر مودی تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوں گے اور اس بات کا ادراک ان کے اتحادیوں کو بھی ہو گا۔ اس لئے نریندر مودی اپنے فیصلوں میں مجبور نہیں بلکہ پالیسیاں بنانے میں خودمختار ہوں گے۔ انہیں صرف اپنی جماعت کے رفقا کی مشاورت اور حمایت درکار ہو گی۔
بھارتی وزیراعظم کا جراتمندانہ قدم اور وزیراعظم نواز شریف کے مشکل فیصلے کی جہاں بین الاقوامی سطح پر ستائش کی جا رہی ہے۔ وہاں دونوں ملکوں میں داخلی سطح پر تنقید کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن اس تاثر کو بھی یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ جراتمندانہ قدم اور مشکل فیصلے کو بعض عالمی طاقتوں کی چھتری بھی حاصل ہے۔ ان طاقتوں کی جو اس خطے میں امن کے قیام کو اس لئے بھی ضروری سمجھتے ہیں تاکہ انہیں خطے میں اپنے اہداف کے حصول کے لئے آسانیاں حاصل ہو سکیں۔ نریندر مودی نے جو پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف ایک متعصبانہ سوچ کی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے وزیراعظم کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت کیوں دی۔ شاید اس کا یہ جواب مطمئن کر دینے کے لئے کافی نہیں کہ چونکہ یہ دعوت سارک تنظیم میں شامل ممالک کے سربراہان کو دی گئی تھی اور اس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس لئے وزیراعظم نواز شریف کو مدعو کیا گیا۔ امر واقعہ ہے کہ گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے بعض اقدامات کے تناظر میں بالخصوص وہاں ہونے والے مسلم کش فسادات کے حوالے سے نریندر مودی 12سال گزرنے کے باوجود بھی خود کو ان الزامات سے علیحدہ نہیں کر سکے۔ انہی الزامات کے باعث امریکہ نے انہیں اپنے ملک کا ویزہ دینے کی پابندی عائد کر دی تھی (جو ابھی تک اعلانیہ نہیں اٹھائی گئی) بھارتی مسلمانوں کے بارے میں نریندر مودی جن جذبات اور خیالات اور بسا اوقات تو جن عزائم کا اظہار کرتے رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور پھر حال ہی میں اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے پاکستان کے حوالے سے للکارنے کا جو طرز عمل اختیار کیا اس کی بازگشت ابھی فضا میں ہی موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایسے عوامل میں جن کی وجہ سے بھارت کے مسلمانوں، پڑوسی ممالک اور بین الاقوامی سطح پر نریندر مودی کے بارے میں جو امیج بنا ہے وہ کوئی مثبت یا کسی خوشگوار شخصیت کا نہیں ہے لیکن یہ سب کچھ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے تھا۔ اب وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک کے وزیراعظم بننے جا رہے ہیں۔ اب ان کے منصب کے تقاضے قطعی مختلف ہیں اور خود وہ بھی اس بات کا مکمل ادراک رکھتے ہوں گے۔ بھارت کا وزیراعظم بننے کے بعد اب انہیں نہ صرف اپنے متنازعہ سیاسی ماضی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا بلکہ مستقبل کے لئے ایسے اقدامات بھی کرنا ہونگے جو ان کی شخصیت کے بارے میں صرف خطے کے ممالک میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ان کا امیج بہتر کر سکیں اور شاید اسی تقاضے کے پیش نظر انہوں نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو مدعو کرنے کے لئے سارک ممالک کے سربراہان کو بھی اس تقریب میں شریک کیا جہاں تک وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے تقریب میں شرکت کا معاملہ ہے تو یقینا انہوں نے ایک مشکل فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے من موہن سنگھ کو متعدد مواقعوں پر دورئہ پاکستان کی دعوت دی جاتی رہی۔ پیپلزپارٹی کے سابقہ دور میں سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھارت کے دورے پر بھی گئے۔ پھر گذشتہ سال پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کی حیثیت سے وزیراعظم نواز شریف بھارت کے ساتھ تعلقات کا آغاز وہیں سے کرنے کا عندیہ دیا جہاں سے ان کے دور میں منقطع ہوئے تھے اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ ان کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوں لیکن بھارت کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ اس پس منظر میں بھی وزیراعظم پاکستان کا بھارتی وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہونا تنقید کا ایک پنڈورا بکس کھولنے کے مترادف ہے۔ پھر پاکستان میں اس فعال اور موثر حلقے اور طبقے کی اہمیت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جو بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی ہر سطح پر نفرت کی حد تک مخالف ہے گوکہ ان کی تعداد محدود ہے لیکن وہ رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کی طاقت بھی رکھتے ہیں جبکہ بعض سیاسی جماعتیں بھی خاصی حد تک ان کی ہم خیال ہیں اور یہ تاثر بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بھی اس حوالے سے اپنی سوچ اور اپنے تحفظات میں اس سارے پس منظر میں واقعی وزیراعظم کا بھارت جانا ایک مشکل فیصلہ تھا جو انہوں نے کیا۔
نریندر مودی کی جانب سے ملنے والی دعوت کے تین دن بعد حکومت کی جانب سے وزیراعظم کے بھارت جانے کے فیصلے کا اعلان سامنے آیا اس دوران ایسی خبریں بھی سامنے آتی رہیں کہ اعلیٰ سطحی مشورے جاری ہیں۔ وزیراعظم کی نمائندگی کوئی اور شخصیت بھی کر سکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حلف برداری کی تقریب کا دعوت نامہ بھی طے شدہ تھا اور وزیراعظم پاکستان کی تقریب میں شرکت بھی تاہم اس دوران یہ پیش رفت ضرور ہوئی کہ پاکستان کی یہ خواہش تھی کہ وزیراعظم نواز شریف کی تقریب میں شرکت برائے شرکت نہ ہو بلکہ اس کی کچھ اور اہمیت بھی ہونی چاہئے جس کے پیش نظر ان کے بھارت میں قیام میں ایک دن توسیع کی گئی۔ ون آن ون اور وفد کی سطح پر اگلے دن ملاقات اور مذاکرات کا اہتمام کیا گیا۔ اس طرح اب وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات میں نریندر مودی حلف اٹھانے کے بعد بھارت کے منتخب وزیراعظم ہونگے اور یہ ملاقات اور اس میں ہونے والی بات چیت دو وزرائے اعظم کے درمیان ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ دونوں وزرائے اعظم کے درمیان یہ پہلی ملاقات کوئی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ نہ بنے لیکن 27 مئی کو ہونے والی یہ ملاقات مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے آغاز کی بنیاد ضرور بن سکتی ہے۔
تازہ ترین