• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگوں کی مار دھاڑ سے ہٹ کر یہ دہائی پنجابی موسیقی کی ہے۔ برصغیر کا فلمی مرکز بولی وڈ ہو یا پاکستانی فلم و موسیقی ،آج کل اُردو کی بجائے پنجابی موسیقی ٹاپ پر ہے۔ مشرقی و مغربی پنجاب، دونوں میں پنجابی موسیقی کا احیانمایاں ہے اس کی وجہ پنجاب میں موسیقیت اور ثقافت کے ساتھ لگائو تو ہے ہی اب نئی چیز پنجابی موسیقی کی معنویت ہے۔ مشرقی اور مغربی پنجاب ،دونوں میں پنجابی شاعری کا معیار بہت بلند ہوا ہے۔غنائیت کے ساتھ ماڈرن جذبات کی ترجمانی اور پنجاب کی روایتی ثقافت کا رچائو پنجابی گلوکاری کو چار چاند لگا رہا ہے۔ مشرقی پنجاب کے ایک گلوکار ستندر سرتاج نے کینیڈا میں ہزاروں کے اجتماعات میں پنجابی گانے سنا کر سماں باندھ دیا۔ ستندر سرتاج کی خوبی یہ ہے کہ وہ گاڑھی پنجابی کی بجائے روز مرہ پنجابی میں اپنا کلام لکھتے ہیں، ان کی پنجابی میں اردو اور فارسی کی آمیزش ہے جس سے ان کے کلام میں مٹھاس بہت زیادہ ہے۔ آج کل ستندر سرتاج کا ایک شعر ہر جگہ گونج رہا ہے؎

پے گئی اتھرے خیالاں نال دوستی

دسو جی ہن کیہ لکھیئے

ذہنی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے کہ سرکش خیالات نے گھیرا کر رکھا ہے اور بہت سے گستاخ سوال کرنا مشکل ہوا جاتا ہے۔ جنگی صورتحال نے ہر ایک کو جذباتی کر رکھا ہے۔ بھارتی میڈیا کے جنگ بازوں اور بڑھک بازوں نے دلیل، منطق اور امن دوستی کے نظریات کو تارتار کر دیاہے ۔ ماضی میںمیڈیا کے کچھ لوگ جوش کے ساتھ ہوش سے بھی جڑےرہنے کی کوشش کرتے رہے مگر بھارت کے تجربہ کار اور مقبول میڈیا نے صحافتی اقدار کو پامال کرکے اپنی ساکھ تباہ کرلی۔ہمارے میڈیا نےبھارت کی نسبت ذمہ داری سے کام لیا اور چھان پھٹک کر خبریں چلائیں۔ کراچی کے قبضے کی طرح دہلی یا ممبئی پر قبضے کا دعویٰ نہیں کر دیا ۔ عام طور پر جنون کا ردعمل اور زیادہ جنون کی شکل میں نکلتا ہے۔ جوش اور حب الوطنی کا مقابلہ اس سے بڑھتے ہوئے جوش اور زیادہ حب الوطنی سے ہوتا ہے۔ چنانچہ سرحد کے دونوں طرف سے یہ ہو رہا ہے جو میرے اتھرے اور سرکش خیال کے مطابق غلط حکمت عملی ہے۔

میری ناقص رائے میں ، ہندوتوا کے مقابلے میں ہمیں اپنی اقلیتوں کو ساتھ ملا کر کثیر المذہبی اور کثیر الخیال پاکستان کا امیج دینا چاہئے ،ہمیں پاکستان کی شناخت میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی ، سکھ اور ہندو اقلیت کو شانہ بہ شانہ دکھانا چاہئے ۔ میرے پیشِ نظر قائد اعظم کا یہ فرمان ہے کہ ’’پاکستان اقلیتوں کا مکمل تحفظ کرے گا کیونکہ یہ ملک ایک اقلیت نے بنایا ہے‘‘۔ آج 75سال بعد اگر ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ فرق روا رکھا جا رہا ہے تو ہمیں اس سے متضاد رویہ اپنا کرخود کو بہتر ثابت کرنا ہو گا ۔ بھارتی وزیر اعظم مودی ،اُن کے انتہا پسند حامی اور جنگ ساز میڈیا جس طرح کی ہذیانی گفتگو اور بڑھکیں مار رہے ہیں ہمیں اس سے بالکل متضاد دلیل، منطق اور شائستگی کا رویہ اپنانا چاہئے۔ بھارت، ترکیہ اور آذربائیجان کا بے شک بائیکاٹ کرے ہمیں اس بغض زدہ رویے سے ہٹ کر سوچنا ہے ۔ بھارت پراکسی وار بند نہیں بھی کرتا تو ہمیں بند کر دینی چاہئے اور اس حوالے سے دنیا کو اپنے صاف ہاتھ واضح طور پر دکھانے چاہئیں ۔ دوسری طرف بھارت اگر پراکسی وار جاری رکھے بی ایل اے اور طالبان کی درپردہ حمایت جاری رکھے تو اس کے گناہ آلود ہاتھ دنیا کو دکھائے جائیں۔ بھارت اس خطے میں بالادستی چاہتا ہے ہمیں اس خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کو مزید بہتر کرنا چاہئے ۔اتھرے اور سرکش خیال کے تحت بھارت کی جارحانہ اور بالادست پالیسیوں کاتوڑ اس سے الٹ رویے اپنانےمیں ہے نہ کہ بھارت ہی کے راستے پر چلنے میں ۔

اتھرا خیال تو یہ بھی ہے کہ فتح کے اس لمحے میں ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا سیاسی عدم استحکام ہمارا اہم ترین مسئلہ ہے ،فتح کی سرشاری کا وقفہ چھ یا آٹھ ماہ رہے گا اسکے بعد تلخ سیاسی حقائق پھر سے سر اٹھانا شروع کردیں گے۔ شہباز حکومت کی سیاسی بنیاد بہت کمزور ہے اور وہ اسے مضبوط کرنے کی کوئی کوشش سرے سے کر ہی نہیں رہی ۔جنگ کے حالیہ نتائج سے عمران خان کمزور ضرور ہوئے ہیں لیکن وہ اب بھی ایک سیاسی حقیقت ہیں، ان کو قومی دھارے میں شامل کئے بغیر پائیدار ترقی ممکن نہیں ۔ دوسری طرف کپتان کو بھی انا کی پہاڑی سے نیچے آکر زمینی حقائق سے آشنائی کی ضرورت ہے۔ طاقتور مقتدرہ سے لڑائی نے پہلے ان کی اسٹریٹ پاور چھینی ،اب اُن کا اگلا حملہ ووٹ پاور پر ہو گا۔ کپتان خان موجودہ سسٹم کا پارٹ بنتے ہوئے آئندہ الیکشن کے جلدی ، غیر جانبدارانہ اور شفاف ہونے پر معاہدہ کر لیں تو ملک میں عمومی مصالحت کا ماحول بن جائے گا ۔

اتھرے اور سرکش خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ستندر سرتاج نے یہ بھی لکھا ہے۔

مٹ گئے نے اڑک اڑکے

دسو جی ہن کیہ لکھیئے

اڑک اڑکے کے دور ہونےکے بعد یہ سرکش اور باغی خیال بھی آتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اس خطے کو تجارت کی جو راہ دکھائی ہے اس پر چلنا چاہئے ۔ بیرونی دنیا نے ہمیں جنگجو ریاست کا نام دیکر بدنام کر رکھا ہے ہم انہیں بزنس اور پرفارمنس میں بھی ٹاپ پر جا کر دکھائیں۔ مودی کو جنگ بازی اور بڑھک بازی کرنے دیںہم سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی طرح نیو بزنس اور نیو اکنامکس کی طرف جائیں، خلیج کے یہ تینوں ملک ہمارے قریب ترین دوست ہیں، ان کی اس تجارتی پہل کا ہمیں بھی حصہ بننا چاہئے۔ پاکستان نے امریکہ کو زیرو ٹیرف کی جو پیشکش کی ہے اسے آگے بڑھانا چاہئے۔ یہ صدی ایشیاکی ہے اور اس صدی کا ایجنڈا صرف اور صرف معاشی ہے ہمیں سنگاپور اور تائیوان کی طرح بھارت کے بھاری ٹیرف سے ہٹ کر معیشت دوست پالیسیاں بنانی چاہئیں تاکہ پاکستان اس صدی کی معاشی دوڑ میں واقعی جی 10اور جی 20میں شراکت کار بن جائے۔

تازہ ترین