ہفتے کی شام ساڑھے چار بجے حمید شاہد کے ناولٹ ’’جنگ میں محبت کی تصویر نہیں بنتی ‘‘ پڑھتے ہوئے ان دو لفظوں پر پہنچی تھی ’’خالی پن گرم جوشی‘‘ کہ ایک دم ٹی وی پر پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیز فائر کی آواز گونجتی ہے ۔ مزاحیہ بات یہ ہے کہ پہلے ٹرمپ اور ٹی وی کے سارے اینکر دونوں ملکوں کے ایک دوسرے پرحملے پر بے تحاشہ داد دے رہے تھے۔ اب ٹرمپ اور وہ اینکر دونوں بے وقوف ملکوں کے ’’تدبر‘‘ اور ذہانت کی داد دے رہے تھے مگر ذہانت خبر دینے والوں کی بہت لطیفہ بن رہی تھی کہ ہر دو کے حملوں کے بعد، بتاتے تھے، ہر دو کا کس قدر نقصان ہوا ہےمالی طور پر ،انسانی المیہ کاذکر دونوں دن غائب رہا۔ البتہ ایک ذکر رہا کہ دونوں ممالک کسی تیسری جگہ پر مذاکرات کرینگے۔
یہ ایسی پوزیشن تھی کہ نہ ناولٹ کو میں درمیان میں چھوڑ سکتی تھی کہ اندھی لڑکی، انگلستان میں جوان ہو کر اور شادی کے بعد کیسے ناولٹ کی ہیروئن بن جاتی ہے۔ کیسے افغان علاقوں میں در پردہ ، این جی اوز کام کرتی بھی ہیں اور یہ پردہ داری، دراصل شعوری سنجیدگی کا استعارہ بن جاتی ہے۔ ہرچند اولین کردار ریمنڈ کو پڑھ کر وہ ریمنڈ ڈیوس یاد آتا ہے، جس نے چند لڑکوں کو اپنی اندھی دلیری میں سڑک کے درمیان کچل دیا تھا۔پھر پاکستان میں خون بہا دینےکی رسم چلی کہ غریب خاندانوں کی جیبیں بھاری ہوئیں اور راتوں رات امریکی جہاز ریمنڈ کو لے کر اپنے وطن چلا گیا۔حمید شاہد کے ناولٹ میں نابینا کا کردار ، اپنی تفاصیل میں جا کر عورت کا روپ دھار لیتا ہے۔وہ عورتیں جوکابل میں شٹل کاک برقعے میں لپٹی، کہیں ڈاکٹر ہیں، کہیں نغمہ سناتی ٹی وی کی اسکرین پر پرجوش گاتی نظر آتی ہیں۔ حمید شاہد، عورتوں کی ساری سطحوں پر موجودگی کو اندھی عورت میں مرتکز کرتا ہے۔ ساتھ ہی اس کے خاندان کی کہانی میں اس کا جوان بھائی غائب ہو جاتا ہے۔ اور جب اندھی لڑکی این جی او چلاتی سیڑھیاں چڑھ رہی ہوتی ہے۔ اس لمحے اس کا گم شدہ بھائی، غیرت کی نقابی پستول تھامے اس پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ سڑک پر چلتی گاڑیوں کے درمیان بہتے ہوئے خون ....یہاں تک میں پہنچی تو مودی صاحب نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا ’’خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے‘‘۔ ٹی وی اسکرین پر موت کی سی پژمردگی پہنے مودی صاحب رٹی رٹائی نفرت کو اگلتے ہوئے، یہ سمجھ رہے تھے کہ اس وقت وہ شخص جس کے حکم پر دونوں ملکوں کو سیز فائر کے آرڈر دیے گئے تھے ۔ ٹرمپ واضح طور پر کہہ رہا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور فرانس کے لوگ، جہاں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، وہ اب 2025ءمیں گزشتہ پندرہ سال سے یورپین یونین میں موجود اور قائم ہیں، بلکہ یوکرین کی طویل جنگ اور غزہ کی حشر سے بڑھ کر بر بادی اور کشت و خوں کو اسی طرح دانشوروں اور سنجیدگی سے ختم کرنے کی تحریک ٹرمپ صاحب لے کر چار دن کے مڈل ایسٹ کے دورے پر پہنچے ہیں۔
حمید شاہد کا ناولٹ، کئی حصوں میں اسی طرح بنتی کہانی ہے کہ ایک جگہ وہ پڑھا لکھا نوجوان ہے جو دہشت گرد ی کی باقاعدہ تربیت لیکر سامنے آتا ہے توایک بلڈنگ کی سیڑھیاں چڑھتی اندھی بہن کے وجود کو گاڑیوں کے نیچے اچھال کر، اپنے خاندان کی غیرت کی تشنگی دور کرتا ہے۔ مجھے یہاں لارڈمائونٹ بیٹن یاد آتا ہے کہ دوسری جنگ کی ہزیمت کی کہانی سن کر جب انڈیا میں واپس آتا ہے تو ہماری ’’سیز فائر‘‘ کی طرح اعلان کرتا ہے کہ15اگست کو انڈیا میں دو ملک بن جائیں گے۔ یہ الگ بات کہ تاریخی طور پر اس کے اعلان کی تصدیق تاریخ کی کتابوں میں نہیں ہے مگر اصغر ندیم سید نے کہیں پڑھی ہے اور ایک مذاکرے میں بیان بھی کیا ہے۔ اصغر نے یہ بھی لکھا ہے کہ لارڈ بیانیہ’’ دراصل ایک پاگل نے دو پاگلوں کے پاگل پن کو ختم کرنے پر راضی کر لیا‘‘۔
گزشتہ 75برس اس پاگل پن کی گواہی ہیں۔ نفرتوں کا زہر اور انڈیا میں ہندو توا نے سارے ماتھوں پر انتقام کی پیلی لکیریں ایسے لگا لیں کہ یہ اندھی جنگ، انڈیا کے 84 ڈرون گرا کر اور چوکیوں کو راکھ میں بدل کر چوبیس گھنٹے بعد رات بھر کے مذاکرات کو ‘‘سیزفائر‘‘کا نام دیا۔
ابھی تو آغاز جنگ بندی ہے، امن کیسے قائم ہو گا ۔ وقت نے بہت کچھ بتانا ہے کہ اس وقت پیوٹن اور زیلنسکی کے جنگ بندی کے مذاکرات کا آغاز، استنبول میں ہونے والا ہے۔ اب جبکہ ڈاگ فائٹ بند ہوئی ہے۔ دونوں ملک اپنے اپنے نقصانات کا اندازہ لگاتے ہوئے یہ منظر سامنے رکھیں کہ بل گیٹس نے اپنی 99فیصد امارت کو عطیہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان سے فائدہ اٹھائیں ۔یہ منظر بھی نہ بھولیں کہ پچھلے ہفتے چین، افغانستان اور پاکستان کی باہمی تجارت کیلئےایک اہم اجلاس ہوا، اس حقیقت کے باوجود کہ ابھی تک کسی بھی ملک نے افغان جہادیوں کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس طرح دونوں ہمسایوں میں ملاقات کسی تیسرے ملک میں مودی صاحب کی لفاظی سن کر ’بھس میں آگ‘ ثابت نہیں ہوگی۔ پاکستان کے نوجوانوں کی پہاڑ گولیوں کو مت چھیڑو ، اجنتا، الورا کو یاد کروگے کہ ہیروشیما اور نا گاساکی کو۔