رپورٹ: فرّخ شہزاد ملک، کوئٹہ
تقریباً90 برس قبل بلوچستان کے دارالحکومت، کوئٹہ میں تاریخ کا خوف ناک زلزلہ آیا، جس میں ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ 30اور31مئی 1935ء کی درمیانی شب آنے والے7.7شدّت کے زلزلے کا دورانیہ 30سیکنڈ اور زیرِ زمین گہرائی فقط30 کلومیٹر تھی۔ اِس زلزلے میں مجموعی طور پر 50ہزار افراد ابدی نیند سو گئے۔
بتایا جاتا ہے کہ اُس زمانے میں15 مئی کے بعد موسم اِس قدر گرم ہو جاتا تھا کہ لوگوں کی اکثریت اپنے گھروں سے باہر یا گھروں میں بھی کھلے حصّوں میں سویا کرتی تھی، لیکن اُس سال نہ صرف موسمِ سرما بہت سرد رہا، بلکہ مئی میں سردی کی شدّت اِتنی زیادہ تھی کہ لوگ گھروں اور کمروں کے اندر ہی سوتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ زلزلے میں گھروں کے منہدم ہونے کے باعث بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوئے۔
اگرچہ زلزلے کی شدّت دنیا کے بہت سے تباہ کُن زلزلوں کی نسبت زیادہ نہیں تھی، لیکن تباہی اِس لیے زیادہ ہوئی کہ اس کا مرکز کوئٹہ شہر سے چند میل کے فاصلے پر تھا۔ایک حیرت انگیز بات یہ بھی ہوئی کہ زلزلے سے کوئٹہ شہر تو پورا تباہ ہو گیا،لیکن کوئٹہ کینٹ محفوظ رہا اور وہاں محض چند مکانات میں دراڑیں پڑیں۔ جب زلزلہ آیا، تو کوئٹہ کینٹ میں بارہ ہزار کے قریب تربیت یافتہ فوج موجود تھی، جس کے پاس اُس وقت کا جدید اسلحہ، بارود اور فوجی اعتبار سے کسی ہنگامی صُورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کئی ہفتوں کا راشن اور ادویہ وغیرہ بھی وجود تھیں۔
کوئٹہ گیریژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ، جنرل کارسلیک تھے، جن کے احکامات پر چند سیکنڈز میں کینٹ میں ایمرجینسی سائرن بجائے گئے اور زلزلے کے صرف بائیس منٹ بعد جنرل کارسلیک کئی فوجی گاڑیوں کے ساتھ جناح روڈ پر کینٹ کو شہر سے ملانے والے پُل پر آگئے۔ اُنہوں نے وہاں موجود افسران اور جوانوں کو نزدیکی علاقوں میں فوراً امدادی کارروائیوں کی ہدایت دی۔ اُنہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ کوئٹہ کی کثیر آبادی زلزے سے شدید طور پر متاثر ہوئی ہے۔ زلزلے سے کوئٹہ کے تقریباً ساٹھ فی صد افراد ہلاک ہوگئے تھے اور جو زندہ تھے، اُن میں سے بھی اکثر زخمی تھے۔
پولیس اور انتظامی شعبے بالکل ختم ہو چُکے تھے۔سمنگلی رائل ایئربیس پر اُس وقت29طیارے اور331برطانوی افسر موجود تھے۔ رن وے اور ہینگرز میں کھڑے طیارے تباہ ہوگئے، جب کہ کئی افسر ہلاک یا زخمی ہوئے۔وہاں موجود ٹیلی گراف کی صرف تین مشینز محفوظ رہیں۔ میجر جنرل کارسلیک نے اسٹاف کالج کے زیرِ تربیت افسران کی سربراہی میں پولیس کے عارضی دستے تشکیل دئیے۔ دہلی اور بمبئی میں متعلقہ حکّام سے رابطے کی کوشش کی۔
زلزلے کے تین گھنٹے بعد یہاں سے جنرل کارسلیک نے پہلا پیغام دہلی بھیجا۔ یکم جون کی صبح آٹھ بجے تک سرکاری طور پر بھیجے جانے والے پیغامات کی تعداد چار سو تک پہنچ چُکی تھی، لیکن ان پیغامات میں سے پہلا پیغام تفصیلی اور اہم تھا، جس کے فوراً بعد جنرل کارسلیک نے کوئٹہ میں مارشل لا نافذ کر دیا اور کوئٹہ کی حدود میں داخلے پر پابندی عاید کردی۔ یہ اقدام اِس لیے کیا گیا کہ تباہ شدہ شہر میں امن وامان کا مسئلہ پیدا نہ ہو اور تباہ شدہ مکانات میں لُوٹ مار نہ کی جا سکے۔
اُنہوں نے کوئٹہ کے سابق میڈیکل آفیسر، ڈاکٹر سر ہنرے ہالینڈ کو زخمیوں کی فوری طبّی امداد کی ذمّے داری سونپی۔ اگرچہ وہ بہت ضعیف ہو چُکے تھے، لیکن اُنہوں نے یہ ذمّے داری احسن انداز میں انجام دی۔ ڈاکٹر ہنری نے جائزہ لیا کہ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، جب کہ اُن کے علاج کے لیے اسپتالوں اور عملے کی تعداد بہت کم ہے۔
کوئٹہ اور گرد ونواح کے تمام اسپتال اور ڈسپنسریز تباہ ہوچُکی تھیں۔صرف کوئٹہ کینٹ میں تین بڑے اسپتال تھے، جن میں برٹش ملٹری اسپتال، انڈین ملٹری اسپتال اور کنٹونمنٹ اسپتال شامل تھے۔ اُنہوں نے کوئٹہ اسٹاف کالج کے زیرِ تربیت اُن48 نوجوان افسران کا انتخاب کیا، جو فرسٹ ایڈ کے اصولوں اور طریقۂ کار سے واقف تھے اور پھر ان تین اسپتالوں کے ساتھ شہر میں کئی مقامات پر فرسٹ ایڈ سینٹرز قائم کیے گئے، جہاں زخمیوں کی مرہم پٹی کی جاتی رہی۔
زلزلے سے کوئٹہ سے مچھ تک ریلوے لائنز اور ریلوے اسٹیشنز کی عمارتیں تباہ ہو گئی تھیں۔ ان تمام ریلوے لائنز کو48گھنٹوں کے اندر اندر بحال کیا گیا، جس کے بعد پہلی ٹرین زخمیوں کو لے کر روانہ ہوئی۔ البتہ زلزلے کے دوسرے دن پہلا طیارہ زخمیوں کو لے کر روانہ ہوا اور پھر اہم افراد ہوائی جہازوں سے بھی روانہ کیے جا تے رہے۔ اِس موقعے پر ریلوے کے ملازمین نے فرض شناسی اور انسانی خدمت کی مثال قائم کی۔ جو ملازمین زلزلے میں بچ گئے تھے، اُنہوں نے فوج کے ساتھ مل کر کام کیا اور سب سے پہلے ریلوے ٹریفک بحال کیا اور پھر ہنگامی بنیادوں پر کئی کئی دن بغیر آرام کے کام کرتے رہے۔
1935 ء میں کوئٹہ کے ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ، کیپٹن ایل اے جی کی اعلیٰ حکّام کو ارسال کردہ رپورٹ کے مطابق، زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی ملبے کے ڈھیروں سے تلاش اور لاشوں کو ٹھکانے لگانے کا کام انتہائی مشکل تھا۔ یکم جون1935ء کی صبح سے لاشیں اُٹھانے کا کام شروع کیا گیا اور3 جون تک لگ بھگ پانچ ہزار لاشیں اٹھائی گئیں، جنھیں گاڑیوں کے ذریعے شہر سے منتقل کیا گیا۔ مسلمان میّتوں کی شہر کے جنوب میں واقعے قبرستانوں میں تدفین ہوئی، جب کہ ہندو شہریوں کی میّتوں کے کریا کرم کے لیے شہر کے مختلف حصّوں میں عارضی شمشان گھاٹ بنائے گئے اور میّتوں کو جلانے کے لیے لکڑیوں وغیرہ کا ہنگامی بنیادوں پر بندوبست کیا گیا۔
زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی یادگاریں بھی تعمیر کی گئیں، جن میں سے بعض اب بھی موجود ہیں۔ہلاک ہونے والے مسیحیوں کی یاد میں ایک یادگار حالی روڈ پر ہے، جس پر ہلاک شدگان کے نام کندہ ہیں۔اس زلزلے میں ریلوے کے 154 ملازمین اور ان کے 489 رشتے دار ہلاک، جب کہ 98 ملازمین اور181 رشتے دار زخمی ہوئے تھے۔ ریلوے کے جو ملازمین ہلاک ہوئے تھے، اُن کے نام کوئٹہ ریلوے اسٹیشن کے داخلی راستے پر کندہ ہیں۔ زلزلے کے بعد کوئٹہ شہر کا ملبہ صاف کرنے میں دو سال کا عرصہ لگا، جو آغاز میں حکومت نے اور بعدازاں مارچ1936 ء سے عام افراد نے انجام دیا، جنہیں حکومت نے ملبہ اُٹھانے کے اخراجات کا80 فی صد ادا کیا۔
تعمیرِ نو کے عمل کی نگرانی’’ کوئٹہ تعمیرِ نو کمیٹی‘‘ کے پاس تھی، جس میں فوجی اور سِول حکّام شامل تھے۔ مقامی حکومتی عُہدے داروں نے فوج اور محکمۂ صحت کے حکّام کی مشاورت سے نئے شہر کی ترتیب کے لیے منصوبے بنائے اور پھر اُنہیں مرکزی حکومت کو پیش کیا گیا۔ اِس منصوبے میں وسیع گلیوں، پانی کی فراہمی اور نکاسی کے بہتر اننظامات وغیرہ شامل تھے۔
نئے منصوبے میں اچھی شہری منصوبہ بندی سے متعلق عصری ضروریات کے ساتھ یہ بھی یقینی بنایا گیا کہ چوڑی گلیوں میں مزید زلزلوں کی صُورت میں فرار اور رسائی کے راستے فراہم کیے گئے ہوں۔ یکم فروری1937 ء کو کوئٹہ کے آخری وارڈز کو دوبارہ قبضے کے لیے کھول دیا گیا اور ایک نیا مستقل بلڈنگ کوڈ نافذ ہوا۔
یہ پہلا موقع تھا، جب کسی میونسپلٹی میں لازمی بلڈنگ کوڈ نافذ کیا گیا تھا۔ ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، بلوچستان کی رپورٹ’’ ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ پلان ڈسٹرکٹ کوئٹہ، بلوچستان‘‘ کے مطابق، برطانوی انجینئر، مسٹر ہنری اوڈن ٹیلر کو شہر کی تعمیرِ نو کا کام سونپا گیا۔ اوڈن ٹیلر نے اینٹوں کے کام کے ذریعے عمودی دھاتی سلاخوں کا استعمال کرتے ہوئے عمارت کی تعمیر کے نئے معیارات متعارف کروائے اور یہ تیکنیک کافی کام یاب رہی۔
بعد ازاں، 1941ء میں بھی کوئٹہ شہر میں ایک بڑا زلزلہ آیا، لیکن اس طرح تعمیر ہونے والی عمارتیں کھڑی رہیں۔ زلزلے کے خطرے کے پیشِ نظر کوئٹہ کے لیے سات اقسام کے مکانات اور عمارتیں تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی اور ان ساتوں کے لیے نمونے کے طور پر کچھ مکانات اور عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ یہ سات اقسام کے مکانات اور عمارتیں زلزلے کی زیادہ شدّت براشت کرسکتی تھیں۔
انگریزوں نے سب سے پہلے کوئٹہ کے جنوب مشرق میں ٹین کے کئی مکانات بنائے۔ اور اسی وجہ سے کاسی روڈ کے اُس علاقے کو’’ٹین ٹاؤن‘‘ کہا گیا، جو آج بھی موجود ہے۔ ان مکانات میں لکڑی اور لوہے کے اینگل آئرن سے اسٹرکچر بنا کر دیواریں اور چھتیں ٹین سے بنائی گئیں اور اندر کی طرف موٹا گتّا، یعنی ہارڈ بورڈ لگایا گیا۔ یہ سیون ٹائپ یعنی سات اقسام میں سے مکانات کی تعمیر کی پہلی قسم تھی۔ اِسی طرح کے کچھ مکانات ریلوے کالونی میں ریلوے ملازمین کے لیے بھی بنائے گئے، جو آج بھی موجود ہیں۔
ریلوے لائن کے درمیان جو پندرہ، سولہ فِٹ لمبے، تقریباً ایک فِٹ چوڑے اور آٹھ سے دس انچ موٹے لکڑی کے سیلپر لگائے جاتے ہیں، اُنہیں دو انچ چوڑی اور ایک انچ موٹی لوہے کی پٹیوں سے جوڑ کر لکڑی کے دو کمروں، صحن، اسٹور اور باتھ روم پر مشتمل مکانات تعمیر کیے گئے، جن کے لیے سیون ٹائپ کی اصطلاح استعمال ہوئی۔
زلزلے کے بعد شہر میں 90فی صد مکانات سیون ٹائپ ہی بنائے گئے تھے۔ ان مکانات کی تعمیر یوں تھی کہ سطحِ زمین سے ایک سے دو فِٹ نیچے بنیاد بنائی گئی، جو کہ دو سے ڈھائی فِٹ گہری اور ایک سے ڈیڑھ فِٹ چوڑی تھی۔ اس بنیاد کی تعمیر میں چونے کے پتھر کے چھوٹے ٹکڑے سیمنٹ کی مدد سے یک جا کیے گئے۔ بنیاد میں 4سے 5فٹ کے فاصلے سے لکڑی کے شہتیر لمبائی کے رُخ زمین سے آسمان کی جانب کھڑے کردیئے گئے۔
بنیاد کے اوپر ریت، بجری اور سیمنٹ کی ایک ہلکی تہہ کے بعد اس کے اوپر 9انچ موٹی، یعنی تین اینٹ دیوار لکڑی کے کھڑے شہتیروں کے درمیان چُن دی جاتی۔ شہتیروں کو دیواروں میں مضبوطی کے ساتھ کھڑا رکھنے کے لیے لکڑی کے شہتیر کے ساتھ لوہے کی موٹی پٹیوں کا ایک سرا ٹھونک کر دوسرے سرے کو دیوار میں اینٹوں کے درمیان چُن دیا جاتا۔ یہ دیواریں بنیاد کے اوپر چار سے پانچ فِٹ تک اونچی ہوتی تھیں۔اس کے بعد دیواروں پر ریت، بجری اور سیمنٹ کے آمیزے کی ایک تہہ بچھادی جاتی۔
بنیاد سے آئے ہوئے کھڑے شہتیروں کا وہ حصّہ، جو دیوار سے اوپر کی جانب ہوتا، اُس ڈھانچے یا کھانچے پر باہر کی جانب ٹین کی چادریں کیلوں سے ٹھونکی جاتیں اور اندر کی طرف لکڑی کی آدھی انچ موٹی اور چھے انچ چوڑی پٹیاں کیلوں سے ٹھونک دی جاتیں اور پھر اندر کی طرف سے اُن پر مٹّی کے گارے کا پلستر کردیا جاتا، جب کہ بعض مکانات میں باہر کی جانب ٹین کی چادروں کی بجائے لوہے کی درمیانے سوراخ کی جالیاں ٹھونک کر اُسے سیمنٹ ملی درمیانے درجے کی موٹی بجری سے بَھر دیا جاتا، جو خشک ہونے پر پختہ ہوجاتیں۔
ان مکانات کی بلندی بارہ فِٹ سے زیادہ نہیں تھی اور سب کی چھتیں ٹین کی موٹی چادروں کی تھیں، جو لکڑی کے شہتیروں پر نٹ بولٹ کی مدد سے کَسی ہوئی تھیں۔شہر میں زلزلے کے خطرات کے پیشِ نظر یہ تعمیراتی اصول 60ء اور70 ء کی دہائی تک اپنائے جاتے رہے، لیکن بعد میں اِنہیں آہستہ آہستہ نظر انداز کردیا گیا، جس کے باعث آج کوئٹہ کنکریٹ کے شہر میں تبدیل ہو چُکا ہے۔
وہ شہر، جو زلزلے کے بعد تقریباً50ہزار افراد کی آبادی کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا، آج24لاکھ سے زائد آبادی کا بوجھ برداشت کر رہا ہے۔ بڑھتی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوئٹہ میں کثیر منزلہ عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ اِن تعمیرات میں اگرچہ معیار کا کسی حد تک خیال رکھا جاتا ہے، لیکن پھر بھی تعمیرات کا عمل ماضی میں آنے والے زلزلوں کے حوالے سے احتیاط کا متقاضی ہے، کیوں کہ کوئٹہ میں زلزلوں کا تاریخی ریکارڈ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ علاقہ انتہائی فعال، زلزلہ زدہ زون میں ہے اور اس وجہ سے درمیانے درجے سے لے کر بڑا زلزلہ کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔
بلوچستان بلڈنگ کنٹرول اینڈ ٹاؤن پلاننگ رولز 2021ء کے مطابق کوئٹہ میں رہائشی عمارتوں کی زیادہ سے زیادہ اونچائی50 فِٹ اور کمرشل عمارتوں کی60 فِٹ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے، لیکن شہر میں آج بھی اکثر عمارتیں ان قوانین کی خلاف ورزی کرتی نظر آتی ہیں۔ اِس تمام صُورتِ حال کے ساتھ، ایک تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ شہر کے نواحی علاقوں میں آبادی کا ایک بڑا حصّہ کچّی آبادیوں پر مشتمل ہے، جو کسی زلزلے کی صُورت میں وسیع پیمانے پر جانی ومالی نقصان کا شکار ہو سکتی ہیں۔
ماہرِ ارضیات اور بلوچستان یونی ورسٹی کے سابق ڈین فیکلٹی آف ارتھ اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز، پروفیسر ڈاکٹر دین محمّد کاکڑ کا کہنا ہے کہ’’شہر میں کسی بھی قسم کی تعمیر سے پہلے اگر زمین کی ساخت کا مکمل جائزہ لے لیا جائے، تو ناگہانی آفت کی صُورت میں نقصان کی شدّت کم کی جاسکتی ہے۔
تعمیرات میں معیار کے پہلو پر کبھی بھی سمجھوتا نہ کیا جائے اور عمارتوں میں ہنگامی اخراج کے لیے ضرور کوئی راستہ رکھا جانا چاہیے۔ نیز، ٹاؤن پلاننگ ایسی ہونی چاہیے، جو کسی ہنگامی صُورتِ حال کے وقت لوگوں کو زیادہ سے زیادہ معاونت فراہم کرے۔ لہٰذا انسانی عقل یہ کہتی ہے کہ تعمیرات ایسی ہوں، جو زلزلے برداشت کرنے کے ساتھ بڑھتی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیتوں کی حامل ہوں۔‘‘
31 مئی1935 ء کو کوئٹہ میں پیش آنے والے سانحے کو فراموش نہیں کیا جا سکتا اور دُعا ہے کہ اِس طرح کی آفت دوبارہ کبھی نہ آئے۔اِس ضمن میں شہر اور اس کے گردونواح میں بلڈنگ کوڈز کا نفاذ سختی سے کرنا ہوگا۔ قدرتی آفات کے نقصانات سے بچاؤ کی تیاری، خطرات میں کمی کا سب سے اہم عُنصر ہے، کیوں کہ ہم زلزلوں کی پیش گوئی کر سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں آنے سے روک سکتے ہیں۔
زنداں میں قید، نام وَر بلوچ دانش ور، سیاسی رہنما بھی زلزلے کا نشانہ بنے
وحید زہیر، کوئٹہ
31مئی1935ء کو کوئٹہ میں آنے والے زلزلے نے ایسی تباہی مچائی کہ جس کے زخم آج تک تازہ ہیں۔یہ وہ زمانہ تھا، جب کوئٹہ انگریزوں کی انتظامی دسترس میں تھا۔ انگریز قابضین کی موجودگی سے لوگ نالاں تھے اور وہ خود بھی حملہ آوروں کے خوف سے کوئٹہ چھاؤنی ہی تک محدود تھے، جس کے ارد گرد خاردار باڑ لگی تھی۔ مقامی آبادی اردگرد پھیلی ہوئی تھی، جو کچّے مکانات اور جھگیوں میں رہائش پذیر تھی۔ جمعے کی رات تھی اور لوگ سردی کے باعث گرم بستروں میں دُبکے گہری نیند سو رہے تھے کہ اچانک اُنھیں زلزلے نے آلیا۔
چند سیکنڈز میں اَن گنت مکانات زمین بوس ہوچُکے تھے، ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ پوسٹ آفس، کوئٹہ کی عمارت پر آویزاں گھڑیال کی سوئیاں تین بج کر تین منٹ پر ساکت ہوگئی تھی۔ ماہرین کے مطابق اس زلزلے کی شدّت7.7تھی۔ یہ شدّت شہر کو دو حصّوں میں تقسیم کرنے والے مین نالے سے ٹکرانے کی وجہ سے کسی حد تک دَم توڑ گئی، جس کی وجہ سے یہ چھاؤنی پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوا۔سائنس کی ترقّی نے جہاں دیگر آفتوں کا سراغ لگایا، وہیں زلزلوں کی وجوہ بھی دریافت کر لیں۔
ترقّی یافتہ ممالک نے اس کے نقصانات کم کرنے پر زیادہ توجّہ دی۔علمِ ارضیات نے زیرِ زمین ٹیکٹونک پلیٹس میں دراڑ پیدا ہونے اور اُن کے ٹکرانے سے پیدا شدہ صُورتِ حال میں انسانوں کو سنبھلنے اور اپنی کمی کوتاہیوں پر غور کا موقع فراہم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ زلزلے کے خطرات سے دوچار علاقوں میں مخصوص منصوبہ بندی کے تحت عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم ابھی تک سائنسی علوم سے فائدہ اُٹھانے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی اجتماعی وانفرادی خود کُشیوں کے سدّباب پر غور وفکر کے لیے آمادہ۔
21ویں صدی میں داخل ہونے کے باوجود پچھلی صدیوں کی جہالت میں جی رہے ہیں۔ کوئٹہ زلزلے کے بعد باقاعدہ بلڈنگ کوڈ کا نفاذ ہوا، مگر اِس ضمن میں بدترین قانون شکنی کا مظاہرہ ہو رہا ہے، رہی سہی کسر افغان مہاجرین کی آمد نے پوری کردی کہ معمولی قیمت پر بِکنے والی زمینوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ چھوٹے چھوٹے پلاٹس پر بڑی بڑی، کئی کئی منزلہ عمارتیں تعمیر ہوئیں، جہاں زمین کی تنگی کی وجہ سے پارکنگ کی ضرورت بھی فراموش کردی گئی۔
زمین بچانے کے لیے آمدورفت کے راستے تنگ کردئیے گئے،اِن عمارتوں میں روشنی کا گزر ہے، نہ ہوا کی آمد، یہاں تک کہ نکاسیٔ آب کا نظام بھی ناپید ہے۔کوئٹہ زلزلوں کے حوالے سے ریڈزون پر واقع ہے، جب کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بلوچستان خطرناک صُورتِ حال سے دوچار ہے۔ ہماری حالت یہ ہے کہ کارخانوں، مارکیٹس، ہوٹلز اور مختلف عمارتوں میں آگ لگنے یا کسی تخریب کاری کی صورت میں بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصانات اُٹھانے کے باوجود بلڈنگ کوڈ کو خاطر میں نہیں لا رہے۔ یوں لگتا ہے، جیسے اچھے تعمیراتی منصوبے ہمارے چھیڑ بن گئے ہوں۔
واضح رہے، کوئٹہ زلزلے میں ممتاز بلوچ سیاسی رہنما، دانش وَر، امیر یوسف عزیز مگسی دورانِ قید جاں بحق ہوئے، جن کی سیاسی جدوجہد اور ترقّی پسندانہ خیالات آج بھی مشعلِ راہ ہیں۔ اِس خطّے کی بدقسمتی ہے کہ ایک ایسا بے دار رُوح انسان زلزلے میں ہم سے بچھڑ گیا۔ وہ ایک انسان دوست اور وطن پرست شخص تھے۔ دین و دنیا کے علوم سے زندگی سنوارنے کا ہنر جانتے تھے۔
اُن کی سیاسی، سماجی، تعلیمی، زرعی اور نہری اصلاحات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ مولانا ظفر علی خان جیسی شخصیت اُن سے متاثر تھی، جب کہ وہ علّامہ اقبال سے بھی ملاقات کر چُکے تھے۔ احسان دانش کی تحریروں میں بھی اُن کا تذکرہ ملتا ہے۔ اُن کے حیرت صوبانی، غفار خان اور دیگر سے رابطے تھے۔ یوسف عزیز مگسی ایک اچھے شاعر اور نظریاتی صحافی تھے۔اُن کا شمار مگسی قبیلے کے نوابین میں ہوتا تھا، مگر اُنہوں نے نوابی قبول نہیں کی۔
مزدوروں کا احترام کرتے۔ اُن کے ہاں سیاست، عبادت تھی۔ وہ انگریزوں کے قبضے کے خلاف سیاسی جنگ لڑ رہے تھے۔ انگریز اور اُن کے مقامی کاسہ لیس، امیر یوسف عزیز مگسی کے قائم کردہ ادارے’’جامعہ یوسفیہ‘‘ سے خوف زدہ تھے۔ اے کاش! وہ اس زلزلے میں لقمۂ اجل نہ بنتے، تو آج اُن کا ادارہ یونی ورسٹی کی شکل میں موجود ہوتا۔