صبح کے سائے ابھی کچی دھوپ میں نہائے تھے۔ میں نے کھڑکی کے پردے ہٹائے، تو لاہور کی گلیوں نے مجھے یوں دیکھا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ شاید وہ بوندوں کا شہر بننا چاہتی ہیں… وہ بوندیں جو کسی بچے کے اندر زندگی بن کر دوڑیں۔ چائے کا کپ میرے ہاتھ میں تھا اور ذہن میں ایک سوال گردش کر رہا تھا ’’کیا ایک ٹیسٹ… ایک معمولی سا خون کا ٹیسٹ… واقعی کسی کی تقدیر بدل سکتا ہے؟‘‘ اچانک مجھے منو بھائی یاد آ گئے۔ جو فرمایا کرتے: جو بوند تم کسی اور کیلئے بہاتے ہو، وہ تمہارے اندر ایک چراغ جلا دیتی ہے اور آج… اس چراغ کی لو پنجاب اسمبلی کی میزوں پر دکھائی دی۔ جہاں ایک قانون پاس ہوا۔ پنجاب تھیلیسیمیا پریونشن ایکٹ 2025۔ اس بل کے پاس ہونے پر میں سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان، وزیر صحت، سلمان رفیق، وزیر صحت عمران نذیر، بل پیش کرنے والے سید حیدر گیلانی اور پنجاب اسمبلی کے تمام ممبران کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ یہ بل پوری اسمبلی نے اجتماعی طور پر پاس کیا ہے، اسکے ساتھ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے بھی اس بل کو منظور کیا۔ اب اس پر عمل درآمد ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اب شادی سے پہلے دولہا اور دلہن کو، ہر طالب علم کو اسکول، کالج یا مدرسے میں داخلے سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ دینا ہو گا۔ آج منو بھائی ہوتے تو کہتے یہ صرف قانون نہیں، یہ اک ماں کی راتوں کی جاگ ہے، اک باپ کی سسکی ہے، اک بچے کے ہونٹوں پر رنگ ہے۔ میں نے سندس فاؤنڈیشن کے صدر یاسین خان کو کہتے سنا کہ، ’’یہ قانون نہیں، ہماری دعاؤں کی قبولیت ہے۔‘‘ بے شک جب یاسین خان اور منو بھائی نے اس سفر کا آغاز کیا تھا تو ایسا قانون ایک خواب تھا۔ یاسین خان اسے حقیقت میں بدلنے میں کامیاب ہو گئے، یہ اُس قافلے کی جیت ہے جو بغیر بانسری کے سُر بکھیرتا رہا۔ جو ہر اسکول، ہر بازار، ہر کوچے میں صرف یہ کہتا رہا۔ ’’خون کا ایک ٹیسٹ کروا لو… کل کے رونے سے بچ جاؤ گے۔‘‘ اب شادی سے پہلے بھی دلہا دلہن کے خون کا ٹیسٹ ہو گا، تھیلیسیمیا کا۔ ہائے ہائے، کیسا سماں ہو گا۔ میں سوچتا ہوں، شاید یہ بھی ایک نئی محبت کی ابتدا ہو۔ ایسی محبت، جو صرف دل سے نہیں، ذمہ داری سے کی جاتی ہے۔ میں اس سلسلے میں تھیلیسیمیا فیڈریشن آف پاکستان کے عہدہ داروں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس بل کیلئے اہم کردار ادا کیا۔ یاسین خان کہتے ہیں کہ سندس فاؤنڈیشن میں اس وقت دس ہزار مریض مفت علاج پا رہے ہیں۔ اُنکا خواب تھیلیسیمیا سے پاک پاکستان ہے۔ منو بھائی کہا کرتے تھے، خواب وہی سچا ہوتا ہے جو کسی کے درد میں جنم لے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سچا خواب ہے۔ کیونکہ یہ خواب ایک ماں نے دیکھا، جس کا بچہ ہر ہفتے خون مانگتا ہے۔ اسے ایک بہن نے دیکھا، جس کا بھائی بستر سے اٹھ نہیں سکتا۔ اسے ایک باپ نے دیکھا، جو ہر بار خون کیلئے دروازے کھٹکھٹاتا ہے۔ یہ قانون، یہ فاؤنڈیشن، یہ سب کچھ… محض ادارے نہیں، یہ وہ ہاتھ ہیں جو کسی اجنبی بچے کے ماتھے پر محبت کی چادر ڈال دیتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں، اگر ہم سب صرف ایک بوند خون دے دیں، صرف ایک، تو شاید ہم ایک دنیا بچا سکتے ہیں۔ اور وہ ماں جو روز اپنی سانسوں کو گن کر گزارتی ہے۔ وہ ایک دن مسکرا کر کہے گی۔ ’’میرا بچہ بچ گیا… کیونکہ تم نے اسے خون دے دیا۔ جب اگلی بار کوئی تم سے کہے۔ ’’ایک ٹیسٹ کروا لو…‘‘ تو یاد رکھنا، وہ تمہیں پریشان نہیں کر رہا۔ محفوظ کر رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب کسی قوم کے حکمران اپنے دل کی دھڑکن عوام کے دکھوں پر رکھ دیں، تو زمین پر امید کا پھول کھلتا ہے۔ تھیلیسیمیا جیسی خاموش اذیت کے خلاف جدوجہد میں جب حکومتی دست شفقت بھی شامل ہو جائے تو اس کار خیر کی تاثیر اور بڑھ جاتی ہے۔ یاسین خان نے بتایا کہ میاں نواز شریف نے تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کے علاج معالجے میں سرکاری سطح پر پہلا قدم اٹھایا تھا- زمین بھی الاٹ کی تھی اور فنڈز بھی فراہم کیے تھے- محترمہ کلثوم نواز نے تھیلیسمیا سنٹر کا افتتاح کیا تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی برسوں پہلے تھیلیسیمیا کے اندھیروں میں روشنی کی تھی۔ اس چراغ کو جلائے رکھنے میں حمزہ شہباز کی محنت، خاموشی میں بولتی رہی — جیسے کسی درویش کا دل، جو دکھوں کو بانٹنے میں سکون پاتا ہے۔ محترمہ مریم نواز نے بھی ہر ڈویژن میں تھیلیسیمیا سنٹر بنانے کا حکم دیا اور کہا کہ خون ہر مریض کا بنیادی حق ہے، تو فضا میں ایک تازگی محسوس ہوئی۔ یہ صرف حکومتی اقدام نہیں، ماں کے دل جیسا جذبہ ہے، جو ہر بچے کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنا چاہتا ہے۔ سندس فاؤنڈیشن میں زیر علاج ایک مریضہ نے جب اپنی معصوم سی خواہش کو ہوا میں چھوڑا ’’مجھے الیکٹرانک بائیک چاہیے‘‘ تو یہ صدا سیدھی وزیر اعلیٰ کے دل کے دروازے پر دستک بن کر جا پہنچی۔ جواب میں بس حکم جاری ہوا، اور پھر وہ دن آیا جب محترمہ عظمیٰ بخاری، اس محبت کی سوغات لیے سندس فاؤنڈیشن کے آنگن میں آئیں۔ یہ آمد صرف ایک بائیک کی فراہمی نہ تھی، بلکہ انسانیت کے ماتھے پر لکھا ہوا ایک بوسہ تھی۔ سب بچوں نے صرف ایک خواہش کی۔ ملاقات۔ مریم نواز سے، اس ماں سے جس نے انکی خاموش دعاؤں کو سنا۔ مجھے یقین ہے، دل کی پوری گواہی کے ساتھ کہ محترمہ مریم نواز اُن بچوں کے درمیان ضرور آئیں گی۔ نہ بطور وزیر اعلیٰ، بلکہ بطور ایک ماں کے، ایک دعا کی تعبیر بن کر۔ یہ کوئی سیاسی منظرنامہ نہیں، یہ محبت کا نگار خانہ ہے۔ اور جب محبت اقتدار سے گزر کر خدمت میں بدل جائے، تو وہی لمحہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جاتا ہے۔