ایک جانب تو یہ چرچے سننے میں آتے ہیں کہ کتاب کا دور بیت چکا۔ ’یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی‘ اور دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ جہاں کہیں کتاب میلے منعقد کیے جاتے ہیں لوگ جوق درجوق ہجوم کرتے ہیں اور کتاب کے لیے لوگوں میں پائی جانے والی محبت عیاں ہوکر سامنے آ جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی ہم اس کے مظاہر دیکھتے رہتے ہیں، قاہرہ کے بین الاقوامی کتاب میلوں میں بھی ہر سال یہ مظاہر دیکھا کرتے تھے اور اس برس تہران میں بھی کتاب دوستی کے غیر معمولی مناظر و مظاہر دیکھنے کا موقع ملا۔
تہران میں بین الاقوامی کتاب میلے کے آغاز کو چار دہائیاں ہونے کو ہیں۔ اس سلسلے کا افتتاح موجودہ رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ۴؍نومبر ۱۹۸۷ء کو کیا تھا جب وہ ایران کے صدر مملکت تھے۔ یہ میلہ نمائش گاہ تجہیزات و مواد آزمائش گاہی ایران میں سجایا گیا تھا۔ تہران میں نماز جمعہ کا سب سے بڑا اجتماع دانش گاہ تہران میں ہوا کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ نمازیوں کی تعداد میں اضافے اور اس کی ظرفیت کم پڑ جانے کے باعث سید ہاشمی رفسنجانی اور سید علی خامنہ ای نے ۱۳۶۱ش/۱۹۸۲ء میں امام خمینی کو ایک خط لکھ کر تہران میں ایک بڑے مصلیٰ کی تعمیر کی اجازت طلب کی تھی۔ جس پر تہران میں ۶۳ ہیکٹر پر پھیلا ہوا مصلیٰ امام خمینی تعمیر ہوا (ایک ہیکٹر تقریباً بیس کنال کے برابر ہوتا ہے)۔ اب یہاں تہران میں نماز جمعہ کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے دوسرا بڑا اجتماع اب بھی تہران یونیورسٹی میں ہوتا ہے جہاں اس مقصد کے لیے دور دور تک شیڈز تعمیر کیے گئے ہیں۔ اہم مواقع پر نماز جمعہ کی امامت خود رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای کیا کرتے ہیں یہی حال نماز عید کا بھی ہے۔ تہران کا چھتیسواں بین الاقوامی کتاب میلہ، ایک دنیا تھی۔ مصلیٰ امام خمینی کے جس دروازے سے ہم داخل ہوئے اس کے سامنے ’’خیابان پاکستان‘‘ کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر ہمارا دل خوش ہو گیا۔ تہران میں صرف ’’خیابان پاکستان‘‘ ہی نہیں ’’خیابان اقبال‘‘ بھی ہے اور ’’اتوبان محمد علی جناح‘‘ بھی۔ ڈرائیور نے بتایا کہ خیابان پاکستان پر تہران میں افغانستان کا سفارت خانہ واقع ہے۔ مصلیٰ کے مدخل پرشائقین کو کتاب میلے کے مختلف ہالز میں لے جانے کیلئے سرکاری انتظام کے تحت مختلف ویگنیں کھڑی تھیں جو سیر کیلئے آنے والوں کو انکے مطلوبہ گیٹ تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتی رہیں۔ یہ سروس مفت تھی۔ مرکزی ہال میں اطلاعات و راہنمائی کے کارنر بنائے گئے تھے جہاں سے کسی بھی مطلوبہ کتاب کے بارے میں دریافت کیا جا سکتا تھا اور راہنمائی کرنے والے کتاب کے ناشر اور اس کے اسٹال کا نمبر بتا رہے تھے۔ میلے کی پہلی منزل بین الاقوامی غرفوں پر مشتمل تھی۔ یہاں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت اور مزین غرفہ دیکھنے کو ملا۔ ہم جب پہلی بار کتاب میلے میں گئے تو بڑے شوق سے پاکستان کا اسٹال تلاش کیا۔ تلاش بسیار کے بعد جب ہم وہاں تک پہنچے تو اسے یکسر خالی پایا۔ پاکستان کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی لیکن اندر کچھ بھی نہ تھا۔ غنیمت ہے کہ کچھ دنوں کے بعد پاکستان سے نیشنل بک فائونڈیشن کی کتب پہنچ گئیں۔ جو جگہ انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کے لیے مختص کی گئی تھی وہ خاصی کشادہ تھی لیکن جب کوئی نہیں آیا تو وہ جگہ کسی اور کے استعمال میں آ گئی اور نسبتاً ایک چھوٹی جگہ نیشنل بک فائونڈیشن کے حصے میں آئی۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ پاکستان کی جانب سے فقط نیشنل بک فائونڈیشن ہی کا اسٹال لگایا گیا۔ اگر پرائیویٹ اداروں کو بھی دعوت دی جاتی تو یقیناً پاکستان کے بہت سے پرائیویٹ ادارے اس نمائش گاہ میں حصہ لینے کے لیے آتے اور ہماری دنیائے کتب کا وسیع پیمانے پر تعارف ہوتا۔
کتاب میلے میں روزانہ چھ لاکھ شائقین نے سیر کتب کی اور بیالیس اعشاریہ چار ٹریلین ریالز کی کتابیں فروخت ہوئیں۔ جمعے کے روز ایرانی صدر مملکت ڈاکٹر مسعود پزشکیان اور ان کے ہمراہ وزیر فرہنگ و ارشاد اسلامی عباس صالحی، محسن جوادی، ابراہیم حیدری، مہدی اسماعیل نے بھی کتاب میلے کا دورہ کیا۔ صدر مملکت اپنے رفقاکے ساتھ مختلف اسٹالوں پر گئے اور ناشرین و شائقین سے ملاقاتیں اور گفتگوئیں کیں۔ کتاب میلے کا ماٹو ’’بخوانیم برای ایران‘‘ رکھا گیا تھا جسے اردو میں کہہ سکتے ہیں ’’آئیے ایران کے لیے مطالعہ کرتے ہیں‘‘ یہ ماٹو جگہ جگہ لکھا ہوا تھا۔ کیلی گرافی، مصورانہ خطاطی، ڈیزائننگ ایسی کہ ہر جگہ پر جا اینجاست کا گمان ہوتا تھا۔ اگر کسی اسٹال پر فقط کتابوں کا ڈھیر بھی رکھا گیا تو کتابوں کواس انداز سے ترتیب دیا گیا تھا کہ وہ خود ایک پھول کی شکل اختیار کر گئی تھیں۔ اسٹالز کی ساخت اور آرائش و زیبائش سے ہمیں ماضی کے پاکستان ٹیلی ویژن کے سیٹ ڈیزائن کے ماہرین یاد آتے رہے۔ جو پروگراموں کی مناسبت سے ایسے ایسے سیٹ بنایا کرتے تھے کہ جنھیں دیکھ کر ناظر دنگ رہ جائیں۔ یہاں ہر اسٹال کا اپناہی رنگ تھا اور کتابوں کی اشاعت میں تو ایرانی ذوق کا جواب نہیں۔ ہم نے بیروت، دمشق اور قاہرہ کے بازار دیکھے ہیں۔ یورپ اور مشرق بعید کی دنیائے کتب دیکھی ہے اور ان خطوں کے ناشروں سے ملاقاتیں کی ہیں لیکن کتاب سازی میں جیسا ذوق ایرانی ناشرین کے ہاں پایا جاتا ہے وہ کم ہی کہیں دیکھنے کو ملا ہے۔ یہ تو عام کتابوں کی بات ہے۔ اگر آپ کتب نفیس کے اسٹال پر چلے جائیں تو یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ آپ کتابیں دیکھ رہے ہیں یا جواہرات؟
اس کتاب میلے کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس کی متعدد سماعت گاہوں میں ہر وقت کوئی نہ کوئی ادبی، تہذیبی، شعری یا فکری نشست بھی ہو رہی تھی۔ ان نشستوں کے لیے وسائل بھی انتظامیہ کی جانب سے فراہم کیے گئے تھے۔ خوبیِِ قسمت سے ان بین الاقوامی تقریبات میں ایک پاکستانی کتاب کی تقریب برگزاری بھی شامل تھی۔ یہ راقم کی کتاب ’’خطوط اکبر بنام اقبال‘‘ کی نظرثانی شدہ اشاعت تھی، جو حال ہی میں قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل کے زیر اہتمام سامنے آئی ہے۔ ’’خطوط اکبر بنام اقبال‘‘ کی تقریب رونمائی کے اہتمام میں دس ممالک میں علاقائی اقتصادی تعاون کی تنظیم ’’ایکو‘‘ ECO کے ثقافتی ادارے موسسہ اکو فرہنگی ECIنے عالمی کتاب میلے کے ساتھ اشتراک کیا تھا۔ موسسہ اکو فرہنگی کے صدر ڈاکٹر سعد ایس خان اور کانون دانش جویان اردو زبان در ایران کے صدر ڈاکٹر حسن رضا نقوی نے اس سلسلے میں خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ مقررین میں موسسہ اکو فرہنگی کے صدر ڈاکٹر سعد ایس خان، تہران یونیورسٹی میں دانش کدئہ ادبیات وعلوم انسانی کے اساتذہ؛ ڈاکٹر علی بیات اور ڈاکٹر علی کائوسی نژاد، ڈاکٹر حسن رضا نقوی اور موسسہ اکو فرہنگی میں پاکستانی امور کی ڈائریکٹر محترمہ سمانہ عابد دا ودانی شامل تھے۔