• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت موسٰی علیہ سلام کی بیوی اپنے باپ سے آپ جناب کی سفارش، آپ کی ان دو خصوصیات کی بنیاد پہ سفارش کرتیں ہیں، ’’قابل بھی ہیں (نمبر۱) اور قابلِ بھروسا بھی(نمبر۲)‘‘- یہ سدا بہاری قانون فطرت شاید آج بھی پوری شان و شوکت سے دمک رہا ہے۔ ہمارے پیرو مرشد حضرت اقبال نے شاید اسی تناظر میں یہ کہا ہو:-

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے

ڈھُونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

اگر ہم سب، ایک طالب علم کے طور طریقے پہ، پچھلے دس سال کا مغربی لٹریچر اور اس میں موجو پیغام پڑھنے کی کوشش کریں، تو ایک چیز تو شاید روزِ روشن کی طرح اوھر کر سامنے آتی ہے، ’’چین کو روکنا ہے تو آکھنڈ بھارت کے خواب کو حقیقت بنانا ہی واحد اور آخری حل ہے‘‘!

دس مئی 2025ء کو یہ خواب تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نہ صرف ٹوٹ گیا ہے، بلکہ ہم طالب علم تو کہیں گے، ایک طرح سے ’’وڑ‘‘ ہی گیا ہے، یوں ہم جیسے طالب علموں کو تو اپنے پیر و مرشد حضرت اقبال ہی کی طرح اور اسی طرز پہ دور افق پہ ایک روشن ستارہ’’CAPTAIN,’ CA=Central Asia, P=Pakistan, T=Turkia, A=Afghanistan, IN=IraN‘‘واضع دکھائی بھی دینے لگا ہے- وہ یوں کہ آکھنڈ بھارت کے خواب کے بکھرنے کا جشن پاکستان سے زیادہ شاید برادر ملک آذربائجان میں منایا گیا۔ اب اس کی بھی ایک ٹھوس وجہ ہے، دو بھائیوں کی طرح، پاکستان اور ترکی نے مل کر آذربائجان کا ایک درینہ مسئلہ کمال دانش مندی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل کروا یاہے، جو آذر بائجان اور اس کے ہمسائے آرمینیا کے مجوعی مفاد میں بھی ہے۔

اب ہم جیسے طالبعلموں کا وجدان تو کہتا ہے، کہ اسی طرح اور اسی طرز پر کئی اورمواقع یقیناً پیدا بھی کیے جا سکتے ہیں، مثلاً خطے میں موجود قدرتی توانائیوں بشمول انسانی وسائل کو صحیح طریقے سے بروئے کار لا کر وغیرہ۔ اب اس سلسلے میں کئی فطرتی روکاوٹوں کا آسان حل بھی نکانا ہو گا، مثلاً افغانستان کا قبائل ذہین اجتماعی ترقی کے مواقع پیدا کرنے یا سب کی جیت سب کا بھلا جیسی صورت حال پیدا کرنے میں یقیناً ایک بڑی روکاوٹ کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ اس طرح کے کئی اور مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل کیونکر اور کیسے کیا جائے یہ یقیناً ایک پاتال کی حیثیت رکھتا ہے، مگر جہاں ارادے مضبوط اورعزم فولادی ہوں، رَبِ ذوالجلال یقیناً سرخ رو کرتا ہے۔

مثلاً پورے برصغیر میں اس وقت جس شخص کی سب سے زیادہ عزت ہے، چند سال پہلے اسے اس وجہ سے ایک پوسٹ سے ہٹا دیا گیا تھا، کہ وہ غیر اخلاقی و مالی چوریاں اور اوپر سے سینہ زوریاں نہ صرف پکڑ رہا تھا، بلکہ کرنے والوں کو باز رکھنے کی مقدور بھر کوشش بھی کر رہا تھا- اور پھر جس کو ساتھ ملایا گیا، وہ رسوا ہو کے رہ بھی گیا، اور جو حق پہ تھا، حق کے ساتھ رہا، تا حیات سرخ رو ہو بھی گیا۔ اس جیتی جاگتی مثال کا لُب لُبا ب یہ ہے، کہ اگر ہم خلوص نیت، نیک ارادوں اور سب کی جیت، سب کا بھلا والا اصول اپنا کر اس ”کپتانی‘‘ خواب کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں تو رَبِ ذوالجلال کی طرف سے اوپر والی مثال ہی کی طرح اور اسی طرز پہ مدد آنے کا علم الیقین کی بنیاد پہ حق الیقین ہونا اور رکھنا بھی چاہیے۔

اب یہ سب کچھ کیونکر، اور کیسے ہو سکتا ہے، ایک طرح سے ہے تو مشکل ہی، مگر اس کا نقطہ آغاز شاید مجوزہ کپتانی ممالک کا عوامی سطح پہ میل ملاپ بڑھانا، عوامی سطح پہ باہمی تجارت کا فروغ اور آمدورفت کے ذرائع بڑھانا وغیرہ۔ مثلاً مشہد سے ہرات، ہرات سے کابل کابل سے پشاور، بارہ سو کلومیٹر کے لگ بھگ چھ رویہ اسفالٹی موٹر وے بن جائے اور اس کے ارد گرد اصلی تعلیمی یونیورسٹیاں اور انڈسڑیل سیٹ اپ لگ جائیں تو، افغان قبائلی سوچ کو شاید ’’ٹرانسفارم‘‘ کیا بھی جا سکتا ہے، اور اجتماعی ترقی کے بے تحاشہ مواقع بھی پیدا کیا جا سکتے ہیں، اوپر سے وسط ایشیائی ممالک اور ترکیہ بھی با آسانی جڑ جائیں گے بذریعہ آسان اور مختصر ترین زمینی راستوں سے۔ فدوی چینی اور یورپی معاشروں میں اچھی طرح رہنے اور وہاں کے لوگوں کے سائیکی کا کچھ اندازہ رکھنے کی بنیاد پہ ذمہ داری سے کہتا ہے، چائنہ انویسٹر کے طور پہ اس خیال کو عملی جامہ پہنا سکتا ہے، جبکہ یورپین، ’’یوریشیا‘‘ کی حیات نو بالکل بھی چاہیں گے، اگر دونوں پارٹیوں سے مناسب طریقے اور سب کی جیت، سب کا بھلا، سب کی خیر کا اصول و طریقہ کار اپنا کر، مناسب طریقے و سلیقے سے بات کی جائے تو۔

تازہ ترین