• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

کبھی مایوسی نہیں ہوئی

مَیں ایک طویل عرصے سے’’سنڈے میگزین‘‘‘ کا شوقین، مدّاح ہوں۔ ہر اتوار شمارے کا مطالعہ لازم ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ جریدہ جامع، منفرد اور بہت ہی معلوماتی ذریعۂ ابلاغ ہے۔ مجھے کبھی اِس کے مطالعے سے مایوسی نہیں ہوئی۔ ہمیشہ کچھ نہ کچھ نیا ضرور سیکھا ہے۔ (شری مرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

ج: اللہ کرے، ہم یوں ہی آپ کی اُمیدوں پر پورے اترتے رہیں۔

سب کی نظروں میں ہو ساقی…

مولانا محمد قاسم رفیع کا زوجۂ رسولﷺ، سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ سے متعلق مضمون رُوح کی گہرائیوں میں اُتر گیا۔ بلوچستان میں ماہِ صیام میں لوگوں کے جوش وخروش اور ظالم سماج کے ذخیرہ اندوز وں سے متعلق ’’رپورٹ‘‘ عُمدہ تھی۔ غزہ کی بربادی پر ہرکوئی نوحہ کُناں ہے، مگر صد افسوس اسلامی ممالک کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے۔ ابراہیم مشتاق کمبوہ، زنیرہ قیوم بلوچ کے بلند حوصلوں پر خوشی کا اظہار کررہے تھے۔ 

بےشک، ’’گدڑی میں لعل‘‘ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ماڈل سے متعلق عرض ہے کہ نگاہیں نیچی ہوں، تو سیدھی دل میں اُترجاتی ہیں۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ کے کیا کہنے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ سب کی نظروں میں ہو ساقی یہ ضروری ہے مگر… سب پہ ساقی کی نظر ہو، یہ ضروری تو نہیں۔ کبھی کبھار ہم پر بھی نظرِکرم ڈال لیا کریں، دل خوش ہوجاتا ہے اور ہاں، یہ ’’چچا چھکن‘‘ وہی تو نہیں، جنہوں نے تصویر ٹانگی تھی۔ ( شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفر گڑھ)

ج: اور کتنی نظر ہو ’’ساقی‘‘ کی، ہر دوسرے ہفتے ’’چٹھی‘‘ شایع ہورہی ہے، حالاں کہ ہنوز آپ کا ہرخط، ہماری تمام تر ہدایات کی بھرپور Violtion کے ساتھ ہی وصول پاتا ہے۔ اور یہ یقیناً وہی چچا چھکن (سیّد امتیاز علی تاج کا تخلیق کردہ کردار) ہی ہوں گے یا شاید اُن کے مماثل ہوں کہ اب روز روز تو ایسے کردار جنم نہیں لیتے۔

قصّے کہانیاں، تین ناول

بعد سلامِ مسنون، مودبانہ گزارش ہے، فدوی دوسال قبل تک ایک نجی ادارے کو بحیثیت آپریشن مینجر خدمات پیش کر رہا تھا، کچھ ناگہانی حالات کی وجہ سے ملازمت چھوڑنی پڑی۔ اب جہاں ملازمت اختیارکی ہے، وہاں ایک فائدہ یہ ہوا کہ اِن پیج پر اُردو ٹائپنگ سیکھ لی ہے۔ تو سوچا کچھ قصے کہانیاں لکھ بھیجوں۔ 

اس خط کے ساتھ آپ کی خدمت میں ارسال کر رہا ہوں۔ اِس کے علاوہ تین ناول بھی لکھ ڈالے ہیں۔ اگر آپ میری تحریر کردہ کہانیوں کو جگہ دیں گی، بےحد ممنون رہوں گا۔ نیز، اگر اپنے ادارے میں کام کرنے کا موقع بھی دیں، تو بڑی نوازش ہوگی۔ جنگ اخبار، خصوصاً سن ڈے میگزین کا ایک عرصےسے قاری ہوں، شکریہ۔ (محمد شعیب ولدحمید اللہ(مرحوم)،نارتھ کراچی، کراچی)

ج: آپ کی کہانیاں متعلقہ صفحہ انچارج کے سپرد کردی ہیں۔ قابل اشاعت ہوئیں، تو شایع ہوجائیں گی اور براہِ مہربانی جب تک اُن کی اشاعت، عدم اشاعت سے متعلق کوئی فیصلہ نہ ہوجائے، ناول بھیجنے کا خیال بھی دل میں مت لائیے گا۔ دوسری بات، ادارے میں کام کا موقع، موجودہ حالات میں تو اِسی صُورت دیا جاسکتا ہے کہ کسی کی قابلِ اشاعت تحریر شایع کردی جائےاوراس ضمن میں اگر ’’فدوی‘‘کچھ مشاہرے وغیرہ کی توقع رکھتا ہے، تو وہ عبث ہے۔

نمبرون تحریر

شمارہ ملا، سرِوق پر’’اے ماہ مبیں! تُو نے دنیا ہی بدل دی ہے…‘‘ کی عبارت کے ساتھ مہمان، سہیلیاں تقدّس، پاکیزگی ووقار لیے جلوہ افروز تھیں، حیا وحجاب کی آمیزش اور خُوب صُورت پیراہنوں میں حوریں نہیں، تو حورنُما ضرور لگیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں آپ کی تحریر کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔ ویسے عشرت زاہد نے بھی اچھی کوشش کی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی، غزوۂ بدر اور سرورِ کونین رحمت العالمین، آقائے دو جہاں، حضرت محمدﷺ کے تاریخ ساز خطبے کا ذکر کررہے تھے۔ 

’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں منیر احمد خلیلی آزادی کے ہیرو یاسر عرفات پر تحریر لائے۔ ’’متفرق‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین نے علامّہ اقبال اور خیابان جنت کشمیر پر بہترین تحریر لکھی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رابعہ فاطمہ بھی ’’زکوٰۃ وصدقات، بحالی معیشت کا اسلامی ماڈل‘‘ کے عنوان سے لاجواب نگارش لائیں۔ ’’حالات وواقعات‘‘ میں منور مرزا پاک امریکا تعلقات میں نیا موڑ کے عنوان سے ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں پر روشنی ڈال رہے تھے۔

’’خُود نوشت‘‘ کی قسط بھی بہترین تھی، جس میں ذوالفقار چیمہ نے وزیراعظم اور صدر ہاؤسز کے کچھ اندر کا احوال بیان کیا۔ رؤف ظفر نے ڈاکٹر طاہر عباس سے معلوماتی بات چیت کی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں فرحی نعیم نے کیا ہی عُمدہ بات لکھی کہ ’’ماہِ صیام میں خُود کو حلال سے روک سکتے ہیں، تو بقیہ ایام میں حرام سے کیوں نہیں؟‘‘میرے خیال میں تو یہ تحریر نمبرون ٹھہری۔ منور راجپوت کا کتابوں پر تبصرہ اور میگزین کی دیگر نگارشات بھی خُوب تھیں اور ’’آپ کاصفحہ‘‘ عائشہ ناصر کی اعزازی چٹھی سے خُوب جگمگا رہا تھا۔ (محمد صفدر خان ساغر، نزد مکی مسجد، شریف فارم، راہوالی، گوجرانوالہ)

ج: ہم نے بھی ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے توسّط سے کیا بھانت بھانت کے اندازِ نگارش نہیں دیکھ ڈالے۔ ایک طرف ہم سر پٹخ پٹخ کے مر گئے کہ ’’تحریر ہمیشہ حاشیہ، سطر چھوڑ کے لکھیں۔‘‘ مگر خال ہی کبھی کسی نے کان دھرے۔ دوسری طرف آپ ہیں، ایک سطر پر دو لفظ لکھ کے اگلی سطر پہ جست لگا دیتے ہیں۔ اور اِس ’’لمبی چھلانگ‘‘ کی آخر کیا منطق ہے، ہمیں بہت غور کے باوجود سمجھ نہیں آیا۔

بہت سخت شکایت ہے

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمد ثانی نے شبِ قدر کے فضائل بیان کیے، بہت ہی شان دارمضمون تھا۔ ’’سنڈےاسپیشل‘‘ میں رؤف ظفر فاسٹنگ کے موضوع پر بہت عُمدہ تحریر لائے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں محمّد عارف قریشی، صفیہ نسیم اور اشفاق نیاز نے پاکستان کے حوالے سے لاجواب مضامین لکھے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر محمود علی کا کالا موتیا سے متعلق مضمون بےحد معلوماتی تھا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منورمرزا امریکا، ایران تعلقات پرروشنی ڈال رہے تھے۔ 

’’سینٹر اسپریڈ‘‘ بہت ہی پسند آیا۔ اہم مواقع کی مناسبت سے آپ جو رائٹ اَپ لکھتی ہیں، اُن کا جواب نہیں ہوتا۔ ’’خُود نوشت‘‘ سلسلے نے تو ہردل میں گھر کر لیا۔ پیارا گھر، ڈائجسٹ، متفرق سلسلوں  میں اچھے موضوعات پر عُمدہ تحاریر پڑھنے کو ملیں اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط شامل نہیں تھا، کوئی بات نہیں، یقین ہے، اگلے ایڈیشن میں شامل ہوجائے گا۔ 

اگلے شمارے کے ’’سرچشمٔہ ہدایت‘‘ میں حافظ محمد ثانی کی ایک اور شان دار تحریر پڑھنے کو ملی۔ عید اسپیشل میں رؤف ظفر نے تارکینِ وطن کا احوال گوش گزار کیا، پڑھ کر دل بھر آیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ پر منور مرزا مکمل طور پہ چھائے نظر آتے ہیں۔ پیارا وطن میں کنول بہزاد نے بابا بلھے شاہ کی نگری، قصور کی سیرکروائی، اچھا لگا۔ ثانیہ انورنےاپنےافسانے میں عیدی کے ساتھ سرپرائز بھی دیا۔ 

ارسلان اللہ خان کی نظم بھی اچھی تھی اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہماری امید کے مطابق ہمارا خط شامل تھا۔ اور ہاں، ہمیں آپ سے ایک بہت سخت شکایت ہے کہ ہمارے بعض خطوط سے ایسا لگتا ہے کہ ہماری بات کو اُس طرح سمجھا نہیں گیا، جیسے ہم نے کہی تھی، تو براہِ مہربانی اپنےاختیارات کا غلط استعمال نہ کریں، ہماری تحریر کو بعینہ شائع کیا کریں۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج : چھوٹے میاں، سو چھوٹے میاں، بڑے میاں سبحان اللہ۔ غالباً یہ’’ بعینہ اشاعت‘‘ والی تحریک آپ کوخادم ملک کےخطوط سے ملی ، تو یہ بات آپ گرہ سے باندھ لیں کہ آپ کا کوئی بھی خط بعینہ شائع کرنے کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اول تو آپ کے ہینڈ رائٹنگ کو سمجھنا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے، پھر بعض اوقات ایسے ایسے بچگانہ سوالات کیے جاتے ہیں کہ فلاں لفظ کا کیامطلب ہے، تو فلاں کا کیا مطلب؟ 

ایک مخصوص نامہ نگارکی تعریف میں بلاوجہ زمین، آسمان کےقلابےملانا، متعدد بار دست بستہ التجا کے باوجود ہر ہفتے سات سات صفحات پر مشتمل خطوط لکھ بھیجنا…تو بھئی، بات یہ ہے کہ کئی کئی بارآپ کا خط پڑھنے کے بعد ہمیں جو مفہوم سمجھ آتا ہے، ہم تحریر کر دیتے ہیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے،وہ ٹھیک نہیں، تو یا تو خط کسی اور سے لکھوا لیا کریں یا کمپوز تحریر بھیجا کریں نیز، ایک خط زیادہ سے زیادہ ایک صفحے پر مشتمل ہونا چاہیے۔

ایک ماہ میں ایک خط

ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دوہی شماروں پر تبصرہ کروں گا، دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے متبرّک صفحات موجود تھے۔ زکوٰۃ و صدقات، بحالیٔ معیشت کا اسلامی ماڈل اور شب قدر کی فضیلت دونوں مضامین پڑھ کر بےحد فیض یاب ہوئے۔ یاسر عرفات اور تنظیمِ آزادیٓ فلسطین کے عنوان سے معلوماتی تحریر نظر سے گزری۔ ’’پاک، امریکا تعلقات میں نیا موڑ‘‘ عُمدہ تجزیہ تھا، اللہ کرے، یہ موڑ پاکستان کے لیےبہترین ثابت ہو۔

اردو، بلوچی، براہوی زبانوں کے لکھاری پناہ بلوچ کا انٹرویو شان دار تھا۔ انھوں نے خاصی کُھلی ڈُلی باتیں کیں۔ ’’یادداشتیں‘‘ سلسلہ بھی خُوب دھوم مچا رہا ہے۔ دو قومی نظریےکی کام یابی کا دن، اچھا مضمون تھا اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی لکھاری مصباح طیب سے کہنا ہے کہ آپ اچھی خط نگار ہیں، سال میں ایک کے بجائے، ایک ماہ میں ایک خط تو ضرور لکھا کریں۔ (پرنس افضل شاہین، نادرشاہ بازار، بہاول نگر)

ج: آپ کی طرف سے ایسی ہی ’’سند‘‘ کچھ اور نامہ نگاروں کو بھی جاری ہو جائے، تو بس، پھر تو گویا کُشتوں کے پُشتے لگ جائیں گے۔

کاوشوں، محنتوں کا سفر

مولانا محمد احمد صدیقی کی تحریر’’وراثت کی منصفانہ تقسیم اور اُس کے تقاضے‘‘ منیر احمد خلیلی کی کاوش، ’’شیخ احمد یاسین، حماس اور غزہ‘‘ ڈاکٹر قمر عباس کا اظہارِ خیال بطور ’’تشنہ لب جون کیوں؟‘‘ سابق آئی جی، ذوالفقار چیمہ کی ’’خُودنوشت‘‘ سمیت ڈائجسٹ کے نگارشات زہرِتنہائی اور پاؤلونیا نے تو جیسے ’’سنڈے میگزین‘‘ میں جان سی ڈال دی۔ 

مزید براں، ایک ’’پیغام، پیاروں کے نام‘‘ بھی اپنی مثال آپ تھا۔ بلاشبہ یہ سب کچھ آپ اور آپ کی پوری ٹیم کی کاوشوں، محنتوں کا ثمر ہے۔ نتیجتاً قارئین کو ہر ہفتے پڑھنے کے لیے ایک منفرد نوعیت کا میگزین مل جاتا ہے۔ (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)

ج: بے شک، اِن کاوشوں، محنتوں میں آپ لوگوں کی بھی بڑی واضح حصّہ داری ہے۔

                       فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

مارچ کا تیسرا شمارہ وصول پایا۔ رمضان المبارک کے تیسرے عشرے کی مناسبت سے بہترین مضامین پـڑھنے کو ملے۔ غزوۂ بدر، تاریخی اسلامی معرکے کی بابت ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے تفصیلاً آگاہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنا سب کچھ قربان کردینے کے جذبے ہی نے محض ایک تہائی کو ہزاروں پرغلبہ عطا کیا۔ زکوٰۃ و صدقات اوررمضان المبارک میں رفاہی و فلاحی تنظیموں پر بہت معلوماتی تحریریں پڑھنے کو ملیں۔ 

میرے خیال میں وہ فلاحی تنظیمیں اور ادارےلائقِ تحسین ہیں، جو مستحقین کی نہایت خاموشی سے مدد کرتے ہیں۔ یوں کہ لینے والے ہاتھ کو دینے والے کی خبر نہیں ہوتی۔ جیسا کہ کورونا کے دِنوں میں بارہا دیکھا کہ کچھ لوگ یا ادارے مستحقین کی باقاعدہ نشان دہی کرکے، اُن کے گھروں میں کیش کے لفافے بھیج رہے تھے۔ یوں عزّتِ نفس کا خیال رکھ کر مستحقین کی مدد کرنے والے افراد ہوں یا تنظمیں، یقیناً لائقِ صد ستائش ہیں۔ 

ہیلتھ اینڈ فٹنس کے موضوع پر ڈاکٹر طاہر عباس کا انٹرویو دل چسپ اوربہت معلوماتی تھا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ روزہ انسان کو متعدّد روحانی وجسمانی امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔ ’’حق کی تلاش‘‘ نامی کتاب بھی ڈاکٹر صاحب کا منفرد کام ہے۔ کئی زبانوں کے لکھاری، پناہ بلوچ کی گفتگو کے بعض نکات کہنے، خواہش رکھنے کی حد تک تو ٹھیک تھے، لیکن حقائق یک سرمختلف ہیں۔ 

مثلاً ’’مُلک بَھر کے ادباء و شعراء ماضی کے اختلافات، غلط فہمیاں کو دُور کرکے مِل جُل کرکام کریں۔‘‘ یہ ایک ناممکن سی بات ہے۔ اِسی طرح رسائل وجرائد میں لکھنے، پڑھنے کے عمل کو مقبول بنایا جائے، یہ بھی مشکل ہے کہ اب ہمارے ادیب، شاعر فیس بُک یا دیگر سوشل میڈیا ذرائع پر اپنی شاعری یا نثرپوسٹ کرکے زیادہ لائیکس کے چکر ہی میں لگے رہتے ہیں اور غالباً اِسی میں بہت خوش بھی ہیں۔ ادبی رسائل وجرائد اب اُن کی ترجیحات کا حصّہ نہیں رہے۔ رمضان المبارک کی مناسبت سے ’’پیاراگھر‘‘ کے تینوں موضوعات کچھ مختصر، مگر بہت منفرد اور پُراثر تھے۔

بلقیس متین، فرحی نعیم اور حسیب نایاب منگی نے تحریروں پر کافی محنت کی۔ ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ میں محمّد کاشف نے لکھا کہ سعودی حکومت آئے دن پاکستانی گداگروں کو بےدخل کررہی ہے، مگر ہماری حکومت کوئی سخت ایکشن نہیں لے رہی۔ میرے خیال میں تو حکومت کی پالیسی ہے کہ سبھی کو گداگر بنا دیا جائے۔ یہ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام اور حالیہ رمضان نگہبان پیکیج کیا گداگر بنانے ہی کے مترادف نہیں۔

پھر جو حکومت خُود آئی ایم ایف کے سامنے کشکول پھیلائے کھڑی ہو، اور آج سے نہیں، سال ہاسال سے، تو وہ بھلا دنیا میں مُلک کا امیج خراب ہونے پر کیا ایکشن لےگی۔ آپ نے میرے گزشتہ کسی خط کےجواب میں لکھا تھا کہ حاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھا کریں۔ تو اِن ہدایات کی وجہ میرا بدخط ہونا ہے یا طویل لکھنا؟؟ طوالت نگاری پر تو قابو پانے کی کوشش کررہا ہوں کہ آپ کو کم سے کم ایڈٹ کرنا پڑے۔سو، خط کو دو صفحات سے ایک تک تو لے آیا ہوں۔ (رانا محمّد شاہد، گلستان کالونی، بورے والا)

ج: آپ کے لیے الگ سے کوئی خاص ہدایات جاری نہیں کی گئی تھیں، یہ عمومی ہدایات اخبارات میں اشاعت کی غرض سے بھیجی جانے والی تمام تر نگارشات کے لیے ہیں۔ آپ نے اُنھیں اپنے لیے بطورِ خاص سمجھا، مگر عمل پھر بھی نہیں کیا۔ ٹھیک ہے، جامع، مختصر لکھنے کی عادت اپنائی، بہت اچھا کیا، مگر آپ نہ تو بد خط ہیں اورنہ ہی تحریر کی طوالت بڑا مسئلہ تھی۔ آپ کا اصل مسئلہ حاشیہ، سطرنہ چھوڑ کرلکھنا ہی تھا اور وہ ہنوز جُوں کا تُوں ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* براہِ مہربانی اپنے سلسلے’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں تحریر بھیجنے کے طریقۂ کار سے آگاہ فرمائیں۔ (محمّد زبیر)

ج: کوئی خاص طریقۂ کار نہیں ہے۔ تحریر لکھ کر ہمارے پتے پر پوسٹ یا ای میل کردیں۔ پتا اورای میل آئی ڈی اِسی صفحے پر درج ہے۔

* آپ کی تحاریر اور خطوط کے جوابات نظروں سے گزرتے رہتے ہیں، حضرات ہوں یا خواتین، آپ کسی غلط بات پر اُنھیں بخش دیں، ممکن نہیں۔ اکثر آپ کے طرزِعمل پرغصّہ بھی آتا ہے۔ مگر حالیہ شمارے میں آپ نے جو تحریر لکھی اور اُسے ’’عورت نامے‘‘ کا نام دیا۔ 

اس تحریر کے پہلے نصف حصّے نے زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے یہ احساس دلایا کہ دنیا میں کوئی اور بھی ہے، جو خواتین سے متعلق بعینہ وہی رائے رکھتا ہے، جو میری ہے۔ بقول غالب ؎ ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد… یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے۔ (محمد عبداللہ صدیقی، سمن آباد، لاہور)

ج: ویسے تحریر اتنی بھی گنجلک نہیں ہونی چاہییے کہ چار بار پڑھ کر بھی سمجھ نہیں آیا کہ آپ ہم سے خوش ہیں یا ناخوش، ہماری تعریف کرنا چاہ رہے ہیں یاسرزنش فرما رہے ہیں۔

* ایک افسانہ ’’پرندے کی قبر‘‘ کے عنوان سے بھیجا تھا، کیا یہ ڈائجسٹ میں شایع ہونے کے قابل ہے اور یہ بھی بتائیں کہ کب شایع ہوگا۔ (انجینئر محمّد فاروق جان، اسلام آباد)

ج: ناقابلِ اشاعت ہے، غالباً آپ کا نام فہرست میں شامل بھی ہوچُکا ہے۔

* لگتا ہے، ہم سے کچھ ناراضی چل رہی ہے۔ عرصۂ دراز سے کوئی تحریر اِس چمن کی رونق نہیں بنی۔ ہر اتواراس آس پہ ’’گوگل چاچا‘‘ کا دروازے کھٹکھٹایا جاتا ہے کہ شاید ناچیز کی کوئی تحریر شائع ہوئی ہومگر… دل ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ (حریم شفیق، سواں گارڈن، لاہور)

ج:کچھ قابلِ اشاعت لکھوگی، تو ہی اشاعت کی منزل پاؤ گی ناں!!میرٹ کے معاملے میں کسی کی ناراضی، رضامندی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔

قارئینِ کرام کے نام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk