السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
امیدِ واثق ہے
’’یومِ باب الاسلام‘‘ کے حوالے سے ایک تحریر حاضرِ خدمت ہے۔ امیدِ واثق ہے کہ پسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے اِسے ضرور شائع کریں گی اور بندے کی حوصلہ افزائی فرمائیں گی۔ (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)
ج :’’اُمیدِ واثق ‘‘ کا نااُمیدی میں بدلنا آپ کو تو دُکھی کرتا ہی ہوگا، ہمیں بھی کرتا ہے۔
کام کچھ ہولا ہوجائے گا
زنیرہ بلوچ کا انٹرویو کافی دل چسپ تھا، لیکن اُن کی اس بات سے ہم اتفاق نہیں کرتے کہ ’’تعلیم کا مقصد ملازمت نہیں‘‘۔ ارے بھئی، تعلیم کا مقصد ملازمت ہی ہے۔ پاکستان کا ہر طالبِ علم یہی سوچ کرتعلیم حاصل کرتا ہے کہ کسی طرح سترہ گریڈ کی نوکری مل جائے اور شہباز شریف صاحب سے ایک عرض کہ آپ نے پرویز خٹک کو مشیر بنادیا، تو ہمیں بھی بنا دیں۔
پرویز خٹک تو آپ کے شدید مخالف تھے۔ وہ ایک عرصے تک عمران کے لاڈلے رہے اور اب آپ کے مشیر، اُنہیں تو آپ ’’تیلی پہلوان‘‘ کالقب بھی دے چُکے ہیں۔ براہِ مہربانی ہمارا بھی کچھ خیال کریں۔ ہم اُن سے تو بہتر ہی کام کریں گے اور کچھ نہیں تو ہمیں وزیرِ گداگری ہی بنا دیں۔
ہم کشکول لے کر پوری دنیا میں جا کے امداد مانگ لیں گے۔ آپ کا کام بھی کچھ ہولا ہوجائے گا۔ ویسےاس بات پرہماری ’’سنڈے میگزین‘‘ میں کھنچائی بھی ہوچُکی ہے، لیکن ہم بھی ڈھیٹ بن کر اپنے موقف پر قائم ہیں۔ (نواب زادہ بے کارملک، سعید آباد، کراچی)
ج: منصب توآپ نے اپنے لیے ٹھیک ہی چُنا ہے۔ مگر وہ کیا ہے کہ ؎ یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا۔
شوق میں مبتلا رہے
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے ٹرمپ کی پالیسیز کا تفصیلی اور بہترین تجزیہ پیش کیا۔ ’’متفرق‘‘ میں ملک ذیشان عباس کی ’’جولیاں‘‘ پر تحریراچھی لگی، پڑھ کر معلومات میں اضافہ ہوا۔ وحید زہیر نے سدا بہار گانوں کے شائق سے متعلق عُمدہ ’’رپورٹ‘‘ تیار کی۔ ہم خُود بھی اِس شوق مبتلا رہے ہیں۔
گانوں کے فرمائشی پروگرام، خاص طور پر ایران زاہدان پر ہمارا نام بہت نشر ہوتا تھا۔ نئی کتابوں میں ’’سفر در سفر‘‘ پر تبصرہ بہت پسند آیا۔ اگلے شمارے میں منیر احمد خلیلی اور وحید زہیر کی تحریریں زیادہ پسند آئیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کے دونوں افسانے بھی اچھے لگے، پڑھ کرمزہ آگیا۔ اور ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا یوکرین پر ایک عُمدہ تحریر کے ساتھ موجود تھے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج :اچھی بات ہے، زندگی میں کوئی نہ کوئی شوق، مشغلہ رکھنا ہی چاہیے۔
اعتراض بنتا تو نہیں تھا
شمارہ موصول ہوا، جس میں دو ماہ کے طویل انتظار کے بعد میرا خط بھی شامل تھا۔ ’’ٹائٹل‘‘ اور ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر دوشیزہ، فضہ مرزا خالص مشرقی پیراہن میں بہت اچھی اور مقدّس سی لگی۔ مجموعی طور پر جریدے کی تمام تحریریں بہترین تھیں۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کی تحریر ’’جہاں آباد تم سے ہے‘‘ اور حافظ بلال بشیر کی تحریر ’’عورت سراپا تقدس‘‘ زیادہ پسند آئیں، چولستان کے قلعہ دراوڑ پر لکھی تحریر معلوماتی ٹھہری۔
’’آپ کا صفحہ‘‘ میں، خیرپورمیرس کی نرجس، نرجس نام کے معنی و مفہوم سے آگاہ کررہی تھیں۔ اِس مشینی دَور، مشینی زندگی سے چند لمحے فرصت کے ملے تھے، تو دو چار صفحے تفصیلاً لکھ ڈالے تھے۔ ایڈٹ کی بھرپور قینچی چلانے کے بعد اصولاً آپ کا کوئی اعتراض بنتا تو نہیں تھا۔ خیر، اب سوچ رہے ہیں کہ آئندہ تین سطروں کی ای میل ہی بھجوا دیا کریں۔ اور میرے دُکھوں، غموں پر مشتمل آپ بیتی بھی کتابی صُورت میں ضرور شائع ہوگی، اگر زندگی نے وفا کی۔ (محمّد صفدر خان ساغر، نزد مکّی مسجد، محلہ شریف فادم، راہوالی، گوجرانوالہ)
ج: جائز، درست اعتراض سے کوئی ہدایت پالے، تو اعتراض رائیگاں نہیں جاتا۔
محنتِ شاقّہ کی غمّازی
شمارہ حسبِ معمول خُوب صُورت رنگوں سے مرصّع، بہترین مضامین سے مزیّن سامنے آیا، جو آپ کی محنتِ شاقّہ کی غمّازی کر رہا تھا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں زوجۂ رسول اللہ ﷺ، اُم المومنین سیّدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کی سیرت و کردار پر مولانا محمد قاسم رفیع نے تفصیلاً اور بہت عمدگی سے روشنی ڈالی۔ ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کے حوالے سے فلسطین و غزہ کی ظلمت زدہ خواتین سے متعلق ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کا قلم بندکردہ مضمون نہایت دل سوز تھا۔ ’’انٹرویو‘‘ میں زنیرہ قیوم بلوچ کے بلند جذبوں کی عکاسی ابراہیم مشتاق کمبوہ نے کی۔
’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کے صفحات میں رمضان کریم کے احترام میں آپ کی نگارش بہت ہی خُوب صُورت تھی۔ ایماں کی حرارت سے، روحوں کی طہارت تک، کیا کہنے، واہ، واہ! منور مرزا کے مضمون میں بھی ’’حالات و واقعات‘‘ کے تحت بین الاقوامی سیاست کا نقشہ عمُدگی سے کھینچا گیا اور لذت سے بھرپور رنگارنگ، دستر خوان میں چناچاٹ، دہی بڑوں اور پکوڑوں کی تراکیب کا کیا کہنا، ’’خُود نوشت‘‘ کا دل چسپ سلسلہ اپنی مثال آپ ہے۔ اور آخر میں ، ’’آپ کا صفحہ‘‘، یہ تو ہم لکھنے والوں کی اپنی محفل ہے۔ زبردست قلمی و برقی خطوط میں اس خاکسار کا خط بھی شامل کیا گیا، آپ کا بہت شکریہ۔ (صدیق فنکار،دھمیال روڈ، عسکری اسٹریٹ، راول پنڈی کینٹ)
پیار، محبّت، عشق ہے
اِس بار بھی ہمیشہ کی طرح دوہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ الحمدُللہ، دونوں میں متبرک صفحاتِ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘موجود تھے۔ ’’امریکا، روس مذاکرات سے یورپ میں کھلبلی‘‘ جی ہاں، وہاں تو کھلبلی مچنی ہی تھی۔ ’’انتداب کی چھتری تلے صیہونی غصب اور دہشت گردی‘‘ اللہ پاک مسلمانوں کی غیب سے مدد و نصرت فرمائے۔ خواتین کے عالمی دن پر خصوصی تحریر ’’جہاں آباد تم سے ہے‘‘ پڑھ کر دل خوش ہوگیا۔ ’’چولستان کا قلعہ دراوڈ‘‘ بہت ہی معلوماتی مضمون تھا۔ ’’خُود نوشت‘‘ کی دونوں اقساط زبردست رہیں۔
بلوچستان کے روایتی پکوانوں کے بارے میں پڑھا، بہت سی معلومات حاصل ہوئیں۔ یونیسیف کی یوتھ ایڈووکیٹ برائے کلائمیٹ14 سالہ زنیرہ قیوم بلوچ کا ’’ انٹرویو‘‘ شان دار تھا۔ اِتنی ننّھی سی عُمر میں یہ عُہدہ ملنا اور اِس طرح مدلّل انداز سے جوابات دینا، کیا بات ہے۔
رونق افروز برقی، ملک محمد نواز تھہیم اور نویش ریحان کا شکریہ ادا کروں گاکہ اُنہیں میری تحریریں اور خطوط پسند آئے۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے جنگ، سنڈے میگزین سے دیرینہ پیار، محبّت، عشق ہے۔ ( پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج: بھئی، اس پیارومحبّت کو عشق ہی تک رہنے دیجیے گا، جنون تک نہ لے جائیے گا۔
سفر نامے، رشتے ناتے
جب تک میرا یہ خط آپ کی کہکشاں کی زینت بنےگا، رحمتوں بَھرا مہینہ رخصت ہوچُکا ہوگا۔ آپ کا اخبار اور میگزین بہت توجّہ سے پڑھتی ہوں، ادارتی صفحے پر عطاءالحق قاسمی کاکالم ’’میری کہانی‘‘ اور ’’سنڈے میگزین‘‘ میں چیمہ صاحب کی ’’خُود نوشت‘‘ پڑھ کے تہہ دل سے دُعا کی کہ اے کاش! ہمارے مُلک میں چند اور لوگ بھی ایسے پیدا ہوجائیں، تو مُلک ایک ڈگر پر چل نکلے۔ حضرت خدیجہ الکبریٰؓ سے متعلق پڑھا، میرا قلم تواُن کی عظمت و بزرگی سے متعلق کچھ بھی لکھنے سےقاصر ہے، بلاشبہ امہات المومنینؓ کی حیاتِ طیبہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔
ٹائٹل اور اندرونی صفحات پربھی خوب صورت ملبوسات میں ملبوس عورت ہی تھی۔ قرآن کورس کررہی ہوں، توجانا کہ عورت کے تو معنی ہی ’’پردہ‘‘ کے ہیں۔ آپ پر کوئی تنقید نہیں کہ آپ جریدہ گھر سے نہیں نکالتیں، ادارتی پالیسی کی پابند ہیں۔ سفرنامے دل کو بہت بھاتے ہیں کہ گھر بیٹھے ہم بھی دُور دراز کیسیر کرلیتے ہیں۔ اِسی طرح رشتے ناتے بھی دل کو خوب بھلے لگتے ہیں۔ سلسلہ ’’اِک رشتہ، اک کہانی‘‘ ذوق وشوق سے پڑھتی ہوں اور سلسلے میں حصّہ بھی لیتی ہوں۔ (مصباح طیّب، نیو سیٹلائیٹ ٹاؤن، سرگودھا)
ج: ہماری بھی کوشش ہوتی ہے کہ قارئین کے مَن پسند سلسلے وقتاً فوقتاً شیڈول ہوتے ہی رہیں۔
غزہ کی داستانِ الم
’’سنڈے میگزین‘‘ کی مقبولیت کا راز، اُس کے الفاظ کے رتی، تولے، ماشے کا وہ حساب کتاب ہے، جو ایڈیٹر صاحبہ ہی کا طرّۂ امتیاز ہے۔ تب ہی جریدے کو گھر کے ہر فرد کے لیے محض ذہنی آسودگی ومعلومات کی فراہمی ہی کا ذریعہ نہیں بنایا گیا، اصلاحِ اُردو ادب اور ادب برائے فروغِ اصلاح کا بھی وسیلہ بنادیا گیا ہے۔
اِس ہفتے کا خاص شمارہ، رمضان المبارک کی مقدس خُوشبو میں گندھا ہوا ملا۔ ایڈیٹر کی خصوصی تحریر کا بھی لفظ لفظ خُود سے خدا کی رسائی کا سفر طے کرتا محسوس ہوا۔ حسبِ روایت، میگزین کا پُربہار چمن ’’گُلوں رنگ بھرے، بادِ نوبہار چلے‘‘ ہی کے مثل تھا۔ عالمی و ملکی حالات واقعات کا تجزیہ، خُود نوشت، انٹرویو، ڈائجسٹ، پیارا گھر سب ہی چمک دمک رہے تھے۔
اور ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کی تحریر ’’ہائے! مَیں کیسے بھول سکتی ہوں‘‘ کے ضمن میں تو اَن گنت واقعات ولمحات ہیں، رقم کرنے بیٹھوں، تو دل خون کے آنسو روئے، قرطاس جہنم بن جائے۔ غزہ کی داستانِ الم، سیاہی سے نہیں، خون سے لکھی جائے گی۔ ( نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)
ج: غزہ کی داستانِ الم یقیناً سُرخ خُون ہی سے لکھی جائے گی، کیوں کہ اِس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ فی الوقت یہ دنیا، خصوصاً امتِ مسلمہ کے ’’سفید خون‘‘ سے رقم ہو رہی ہے۔
باحجاب ماڈلز دیکھ کر خوشی
مولانا محمد قاسم رفیع نے زوجۂ رسول ﷺ، ’’ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کو مسلمان خواتین کے لیے مشعلِ راہ بتایا۔ بےشک، ایسا ہی ہے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘میں منیراحمد خلیلی، عثمانی خلافت کے سقوط پر ایک الم ناک تحریر لائے۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے جو سوال کیا، اُس کا سب سے شان دار جواب عافیہ سرور نے دیا۔ ’’انٹرویو‘‘ میں زنیرہ قیوم بلوچ کی باتیں پڑھ کر حیرانی ہوئی کہ اِتنی چھوٹی بچی اور ایسی پختہ سوچ۔
دُعا ہے کہ اللہ اُن کو اُن کے مقصد میں کام یاب کرے۔ باحجاب ماڈلز دیکھ کے بے انتہا خوشی ہوتی ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘، ’’خُود نوشت‘‘ سلسلوں کا جواب نہ تھا۔ نظیر فاطمہ نے سبق آموز افسانہ تحریر کیا۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس اور ناقابلِ فراموش سلسلے موجود نہیں تھے، اور ہمارا خط بھی۔ اگلے شمارے کے ’’سرچشمۂ ہدایت ‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے غزوۂ بدر سے متعلق معلومات فراہم کیں۔ رابعہ فاطمہ زکوۃ، خیرات، صدقات کی اہمیت بیان کررہی تھیں۔
ثقلین علی نقوی رفاہی، فلاحی تنظیموں کی کارکردگی عُمدگی سے اجاگر کرتے نظر آئے۔ رئوف ظفر نے ڈاکٹر طاہر عباس سے معلوماتی گفتگو کی۔ ’’حالات وواقعات ‘‘ میں منور مرزا ایک شکریے کو پاکستان، امریکا کے تعلقات میں نیا موڑ قرار دے رہے تھے۔ بات تو تب بنتی، جب ڈاکٹر عافیہ کو رہا کروایا جاتا۔عشرت زاہد کی تحریر خُوب تھی۔ ’’متفرق‘‘ میں نگہت شفیع نےمُلکی تعلیمی مسائل اجاگر کیے۔’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط بھی شامل تھا، آپ کا بہت بہت شکریہ۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
فی امان اللہ
رسالہ موصول ہوا۔ سرِورق پر باحجاب ماڈل ماہِ رمضان کے تقدّس کامکمل اظہار تھی۔ ایمان کی حرارت سے رُوحوں کی طہارت تک۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں مولانا محمد قاسم رفیع، اُم المؤمنین زوجۂ رسول ﷺ، حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی سیرت و کردار کے حوالے سے رُوح پرور مضمون لائے۔ بےشک، دینِ اسلام کے لیے اُن کی بے مثال قربانیاں تاریخ کا درخشاں باب ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کے کردار و عمل نے نہ صرف جاںبازانِ اسلام میں اعلیٰ مقام حاصل کیا، بلکہ عورت کی عظمت کو بھی چارچاند لگادیئے۔
’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں منیر احمد خلیلی عثمانیہ سلطنت کے سقوط کا المیہ بیان کررہے تھے۔ وہی المیہ، غیروں کی عیاری اپنوں کی غداری، حُکم رانوں کی نااہلی، سقوطِ اندلس سے سقوطِ دہلی تک مسلمانوں کے لیے سوہانِ روح رہا۔ ہم انگریزوں کی غلامی میں رہ کر تحریکِ خلافت چلاتے رہے، مگر وہاں تو اپنوں نے خلافت کی بساط ہی لپیٹ دی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ہی میں وحید زہیر بلوچستان میں ماہِ صیام میں مساجد میں عبادات، سحر و افطار میں روایتی پکوانوں اور نئی ڈشز کی تفصیلات بتا رہےتھے۔
ویسے تو ہر علاقے میں مسلمان اس ماہ سحرو افطارکاخصوصی اہتمام کرتے ہیں، مگر کمر توڑ منہگائی اور ذخیرہ اندوزوں کے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے عوام کی خوشیاں ماند پڑرہی ہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘میں نظیر فاطمہ’’وسیع دستر خوان‘‘ کے عنوان سے رمضان کی حقیقی رُوح، غریبوں، مفلسوں کی مدد کا جذبہ بےدار کررہی تھیں۔ وہیں کرن نعمان معاشرے کا سلگتا مسئلہ قول وفعل میں تضاد لے کر آئیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے یوکرین جنگ ا ور جرمن انتخابات کا تجزیہ پیش کیا۔
یہ تو واضح ہے کہ ٹرمپ کوصرف دولت بٹورنے میں دل چسپی ہے، اخلاقیات، اتحادیوں کا تحفّظ اُن کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ غزہ کو اپنی جاگیر بنا کر20 لاکھ فلسطینوں کو نکالنے کا منصوبہ حرص و طمع ہی کا تو مظہر ہے۔ ذوالفقار چیمہ کی آپ بیتی میں نواز شریف کی جرات مندانہ تقریر’’مَیں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ کا ذکر پڑھا۔ یہ تقریراُس وقت بھی لوگوں کے دِلوں میں گھر کرگئی تھی۔
بعد کے حالات سےبھی آگاہی ہے کہ میڈیا نواز شریف کو مکمل سپورٹ کررہا تھا اور اُن کا ستارہ عروج پر تھا۔ اپنے صفحے پر پہنچےتو چاچا چھکن کو ’’ہفتے کی چٹھی‘‘ کی مسند پر براجمان پایا۔ چاچا جی! مان لیں، بجاہے، ایڈیٹر صاحبہ کا فرمایا ہوا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل نے غزہ کے کھنڈرات میں اپنے پیاروں کی لاشیں اُٹھانے والی خواتین کے بلندوبالاعزم وحوصلے سے روشناس کروایا۔ بلکہ حیا اور حجاب کی اہمیت کو بھی تاب ناک کردیا۔
معصوم بچّوں کی لاشیں اٹھاتے ہوئے بھی اُن کی گفتار میں چٹانوں جیسی سختی قرونِ اولیٰ کی خواتین کی یاد تازہ کرگئی۔ ایسا جذبہ رکھنے والی قوم کو بزدل یہودی کیسے شکست دے سکتے ہیں۔ واقعۂ کربلا کے بعدچند دن ہی یزید کا چرچا رہا، اب قیامت تک حُسینی پھریرا ہی لہراتا رہے گا، اور ان شاء اللہ یہی غزہ کی بھی تاریخ ہوگی۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
* تحریر شائع نہ ہونے کے باوجود، نئی تحریر ایک نئی اُمید سے ارسال کردیتی ہوں کہ شاید اس مرتبہ نظرِ کرم ہوجائےلیکن… حالاں کہ کبھی میری پہلی تحریر آپ ہی کے میگزین میں شائع ہوئی تھی۔ آپ ہی کی حوصلہ افزائی سے مَیں آگے بڑھی تھی، لیکن پتا نہیں اب کیا ہوگیا ہے۔ (افروز عنایت)
ج: وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شاید ہمارا معیار کچھ بلند ہوگیا ہے۔ حالاں کہ ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ اگر کسی تحریر میں تھوڑی بہت بھی جان ہو، تو اُسے لائقِ اشاعت بنا ہی لیا جائے۔
* میری بھیجی ہوئی ترکیب پر،جب آپ نے میرا نام شایع نہیں کیا تھا، تب ہی مَیں نےایک ساتھ تین چارای میلز کردی تھیں، پھر آپ کی معذرتی ای میل شایع ہوئی، تو اُس کے بعد مَیں نے کوئی میل نہیں کی بلکہ اُس کے بعد تو میری دو تراکیب مزید شائع ہوئیں۔ برقی خطوط میں دوبارہ اپنی شکایتی ای میل پڑھ کرحیرت ہوئی، آپ پلیز، میری پرانی میلز ضائع کردیں۔ مَیں نے آپ کی معذرت قبول کرلی تھی، لہٰذا اب ہمیں آگے بڑھ جانا چاہیے۔ (قراۃالعین فاروق، حیدرآباد)
ج: بہت شکریہ، آپ نے ہمیں معذرت قبول کرنے کے لائق سمجھا، اب ہم بھی آگے بڑھنے پر غور کرتے ہیں۔ مگر آپ بھی ہماری ایک درخواست پر ضرور غور فرمائیے گا کہ آئندہ کسی بھی ایشو سے متعلق ایک ہی بار کے لکھے کوکافی جانیے گا کہ یہاں قارئین کے ایک ایک لفظ کو پوری عزت و اہمیت دی جاتی ہے۔
* رؤف ظفر نے فراڈز سے متعلق ایک شان دار مضمون تحریر کیا۔ اصل میں پاکستان میں فراڈز اس لیے بڑھتے جارہے ہیں کہ یہاں قانون نافذ کرنے والوں اداروں میں کرپٹ اور جرائم پیشہ افراد کی بھرمار ہوچُکی ہے۔ اسی لیےعام لوگوں کا ان اداروں سے اعتماد بھی اُٹھ چکا ہے۔
لوگ رپورٹ کرنے کے بجائے خاموش رہنا پسند کرتے ہیں کہ اول تو مجرم پکڑے نہیں جاتے۔ دوم پکڑے بھی جائیں تو عدالتیں ضمانت پررہا کر دیتی ہیں اور مظلومین کے پاس اتنا وقت اور پیسا نہیں ہوتا کہ بار بار تھانوں، عدالتوں کے چکر کاٹتے رہیں۔ (محمد کاشف، کراچی)
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk