• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دورِ جدید نے روایتی پیغام رسانی کا حُسن گہنا دیا

بھاگتی دوڑتی زندگی کےرسوم و رواج اور روایات میں تیزی سے رُونما ہونے والی تبدیلیوں نے جہاں بنی نوع انسان کو بہت سی جدّتیں بخشیں، وہیں بہت کچھ چھین بھی لیا۔ ایسی ہی ایک چیز خط (چٹّھی) بھی ہے۔ خط، عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ’’تحریر، کتابت یا نامہ‘‘ کے ہیں۔ ادبی اصطلاح میں خط ایک ایسا پیغام، جو دو اشخاص یا ادارے کے درمیان تبادلہ خیالات اور معلومات کے لیے لکھا جاتا ہے۔ 

دورِ جدید میں اگرچہ رابطے کے نئے ذرائع، یعنی ایس ایم ایس، واٹس ایپ اور ای میل وجود میں آچکے ہیں، مگر ماضی میں خط، نظروں سے دور لوگوں کی خیریت، خیالات جاننے، خیریت، خوشی و غم سے باخبر رکھنے کا ایک بہترین ذریعہ تھا۔ جس کے ذریعے لوگ اپنے پیاروں کو اپنی خیریت سے مطلع کرتے، حالات بتاتے، جذبات شیئر کرتے اور پیش آنے والے اچھے، بُرے حالات پر تبصرے کرتے۔

جدید دَور میں خطوط نویسی کی اہمیت آج بھی برقرار ہے، کیوں کہ یہ ایک ایسا تحریری ذریعہ ہے، جس سے قاری اور لکھنے والے کو بہتر رابطے اور گفتگو کا موقع ملتا ہے۔ خطوط نویسی ادب کے طالب علموں کے لیے بہت ضروری ہے، تاکہ وہ ادب اور زبان کی خوب صورتی سمجھ کر اس میں مہارت حاصل کرسکیں۔ اردو ادب میں خطوط نویسی کا شمار آج بھی اُن اصناف میں ہوتا ہے، جن کے ذریعے خیالات، جذبات اور رسمی پیغامات کو تحریری طور پر خوب صورت انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ 

تاہم ڈیجیٹل دَور میں اس کا استعمال کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ رنگا رنگ قسم کے خطوط ہوا کرتے تھے۔ عام خط، زرد رنگ کے ایک لفافے میں، جس پر حکومتِ پاکستان کا سبز ٹکٹ پرنٹ ہوتا تھا یا سادہ لفافے میں بند خط پر ٹکٹ چسپاں کرکے بھیجا جاتا۔ ایک شکل پوسٹ کارڈ کی بھی تھی، جو خاکی گتّے پر سبز پرنٹ کی صُورت ہوتا تھا۔ اس کے ڈیڑھ حصّے پر خط لکھنے کی جگہ مقرر تھ اور آدھے پر ٹکٹ اور مکتوب الیہ کا پتا درج کیا جاتا۔ ایک اور شکل ’’ویو کارڈ‘‘ کی تھی۔ 

اس کے ایک طرف پاکستان یا کسی اور مُلک کی خُوب صُورت سینری پرنٹ ہوتی، جب کہ دوسری طرف مختصر تحریر اور آدھے حصّے پر مکتوب الیہ کا پتا درج کرنے کی جگہ اور ٹکٹ چسپاں کرنے کے لیے چوکھٹا ہوتا۔ یہ براہِ راست یا کسی لفافے میں ڈال کر بھیجا جاتا تھا۔ اسی طرح ایک تین حصّوں پر مشتمل ’’ایروگرام‘‘ بھی ہوتا تھا۔ اس کے ایک طرف تحریر کی جگہ، جب کہ دوسری طرف تین ٹکڑوں میں ایک حصّے پر ٹکٹ اور مکتوب الیہ کا پتا درج کرنے کی جگہ مختص ہوتی۔

خط، غیر مروّج ہونے سے پہلے بھی ارتقا کی منازل طے کرتا رہا۔ ایک زمانہ تھا، جب خطوط ثقیل اور پُرتکلف زبان میں لکھے جاتے تھے، جیسے ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، یہاں سب خیریت ہے اور آپ کی خیریت خداوندِ کریم سے نیک مطلوب ہے۔ دیگر احوال یہ ہے کہ بندئہ ناچیز، فقیر، حقیر پُرتقصیر، حضور کی خدمت میں یہ کلمات قلم بند کرنے کی جسارت کررہا ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ پھر آہستہ آہستہ یہ مشکل اور پُرتکلف زبان خطوں سے غائب ہونا شروع ہوگئی اور خط، عوامی زبان میں لکھے جانے لگے، جن میں ’’السلام عُلیکم‘‘ کے بعد سیدھا آمدم برسرِ مطلب کا رواج ہوگیا۔ 

خطوط میں اس سادہ نویسی کا سہرا غالب کے سر بھی جاتا ہے، جنہوں نے خطوط نویسی میں ایک نئی طرح کو جنم دیا۔ ان کے خطوط سے یوں محسوس ہوتا، گویا آمنے سامنے گفتگو ہورہی ہو۔ انھوں نے اپنے خطوط کے ذریعے اردو نثر میں ایک نئے باب کا اضافہ کرکے طرزِ تحریر میں سلاست، روانی اور برجستگی کو فروغ دیا، یہی وجہ ہے کہ غالب کے خطوط آج بھی ندرتِ کلام کا بہترین نمونہ ہیں۔

لکھی ہوئی تحریر، کاتب کے اپنے انداز اور مزاج پر منحصر ہوتی تھی۔ کچھ لوگوں کا خط محض اتنا ہوتا کہ سلام کے بعد مطلب کی بات کی اور ساتھ ہی خداحافظ یا والسلام پر ختم۔ جب کہ کچھ لوگ اس قدر طویل خط لکھتے کہ پڑھنے والا تنگ آکر سر پیٹ لیا کرتا۔ بعض ستم ظریف تو ایسے بھی ہوتے، جو طویل ترین ضخیم پلندے پر ٹکٹ لگانے کی زحمت تک گوارا نہ کرتے۔ 

ایسے خطوط کو ’’بیرنگ‘‘ خط کہا جاتا تھا اور اس کے ٹکٹ کی ادائی بھی اُن کا وہی مظلوم دوست یا رشتے دار کرتا، جو بعد میں اُسے پڑھنے کا بھی سزاوار ہوتا۔خط پہنچانے کی ذمّے داری محکمۂ ڈاک کے نمائندے، ڈاکیے کے سپرد تھی۔

خاکی وردی میں ملبوس ڈاکیا، ایک سائیکل پر بہت سے لفافوں کے پُلندے اٹھائے گھر گھر خط پہنچاتا تھا۔ بعض گھروں، خصوصاً دیہاتی علاقوں میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیت سے محروم افراد اپنے خط ڈاکیے ہی سے پڑھوا لیا کرتے تھے۔ 

ڈاکیے کی سائیکل پر عام طور پر ایک گھنٹی لگی ہوتی، جسے بجاتے ہوئے وہ جب کسی گھر کے دروازے پر خط تقسیم کرنے آتا، تو لوگوں کو پیشگی علم ہو جاتا کہ اُن کا خط آیا ہے اور وہ اسے وصول کرنے کے لیے دوڑ پڑتے۔ بسا اوقات تو ڈاکیا خط دروازے کے اندر پھینک کر چلتا بنتا۔ ایسے میں جب گھر کے کسی فرد خصوصاً کسی بچّے کی نگاہ پڑتی، تو’’خط آیا ہے، خط آیا ہے‘‘ کہتا ہوا دوڑ پڑتا۔

خط وصول کرتے ہی اسے بے تابی سے پڑھ لیا جاتا، اس موقعے پر قریبی عزیزوں، دوستوں اور پیاروں کے لکھے گئے خطوط کے مندرجات سے آگہی کے بعد ملنے والی خوشی دیدنی ہوتی۔ ان خطوط میں رشتے ناتوں، شادی بیاہ کے تذکرے، لڑائی جھگڑے کی باتیں، نومولود کی اطلاع سمیت پڑوسیوں کے حالات تک بیان کیے جاتے، غرض یہ کہ ان خطوط میں ہر طرح کا مواد ہوتا، جسے سب مزے لے لے کر پڑھتے اور اپنی معلومات اَپ ڈیٹ کرتے۔ 

اکثر اوقات ایک ہی خط کئی کئی بارپڑھا جاتا۔ بعض خطوط میں غم کی خبریں بھی ملتیں، کسی کے دُکھ، بیماری یا بچھڑنے کا تذکرہ ہوتا۔ غرض یہ کہ محکمۂ ڈاک اور خطوط نویسی کے اس بین الاقوامی نظام نے پوری دنیا کے رشتوں، ناتوں کو جوڑ کے رکھا ہوا تھا۔

ذاتی خطوط کے ساتھ ساتھ سرکاری مکتوب نویسی بھی عام تھی۔ سرکاری خطوط میں ملنے والی اطلاعات عام طور پر تعلیمی نتائج، ملازمتوں کی تعیناتی اور اُن جیسے مختلف موضوعات سے متعلق ہوتی تھیں۔ خطوط کی ایک اور شکل تار یا ٹیلی گرام بھی ہوا کرتی تھی، جس سے لوگ عموماً خوف زدہ ہی رہتے تھے، کیوں کہ ’’تار‘‘ عام طور پر کسی کی موت، طبیعت کی خرابی جیسی ایمرجینسی خبر پہنچانے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ 

اگرچہ’’تار‘‘ کسی بھی ایمرجینسی کی صُورت ہی میں دیا جاتا تھا اور اُس میں کوئی خوش گوار اطلاع بھی ہوسکتی تھی، لیکن پھر بھی اس سے متعلق ایک ناخوش گوار تاثر موجود تھا۔ بڑی بوڑھیاں تو عموماً تار ملتے ہی سینے پہ ہاتھ رکھ لیتیں اور کہتیں ’’یااللہ خیر! تار آیا ہے، کوئی خیر کی خبر ہی ہو ۔‘‘

بہرحال، دوَرِ جدید میں جہاں الیکٹرانک مواصلاتی ذرائع نے پیغام رسانی کے روایتی انداز کو متاثر کیا ہے، وہاں خطوط نویسی جیسی خُوب صُورت روایت بھی چھین لی ہے کہ ڈاک سےموصول ہونے والے روایتی خطوط میں جو محبّت و اپنائیت تھی، وہ ڈیجیٹل خط میں مفقود ہے۔ خطوط کے لفافوں کی مختلف اقسام، اُن کے اندر موجود کاغذ کا لمس اور لکھنے والے کی لکھائی کا انداز سب مل جُل کے ایک ایسا جذباتی تاثر پیدا کرتے، جو ڈیجیٹل خطوط سے ملنا ناممکن ہے۔ 

بہت سے لوگ تو اُن خطوط کو سالہا سال سنبھال کر رکھتے اور ایک خاص ترتیب لگا کر انہیں ربن کے ساتھ بنڈلز کی شکل میں محفوظ کرلیتے۔ بعض مخصوص خط خوشبوؤں میں بسائے جاتے اور پھرحفاظت سے رکھے گئے ان خطوط کو مدّتوں بعد کھول کر پڑھا جاتا اور پرانی یادوں سے لطف اندوز ہوا جاتا، مگر اب یہ سب کچھ قصّۂ پارینہ ہوا۔