مئی کے دوسرے ہفتے کو بجا طور پر’’ٹرمپ کا ہفتہ‘‘ کہا جا سکتا ہے کہ اِس دَوران دنیا میں جو واقعات رونما ہوئے، وہ نہ صرف انتہائی غیر معمولی تھے بلکہ ہر ایک میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کسی نہ کسی صورت موجود تھے اور ساتھ ہی اُن کا تاجرانہ، غیر روایتی انداز بھی نمایاں رہا۔اُنھوں نے جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کروائی، تو مشرقِ وسطیٰ کے چار روزہ دورے کے دَوران خلیجی ممالک سے کئی بلین ڈالرز کے معاہدے کیے۔
سعودی عرب میں اُن کی ایک انتہائی غیر متوقّع ملاقات شام کے صدر احمد الشرع سے ہوئی، جب کہ اُنھوں نے تقریباً تیس سال بعد شام سے تمام پابندیاں ہٹانے کا بھی اعلان کیا، جس کے نتیجے میں شامی حکومت کو امریکا اور مغربی ممالک سے تسلیم شدہ ہونے کی سند حاصل ہوگئی۔ اسی ہفتے کے دَوران امریکا کے چین سے ٹیرف پر کام یاب مذکرات ہوئے اور 125 فی صد ٹیرف 30فی صد پر آگیا۔
پھر تُرکیہ میں یوکرین جنگ پر مذاکرات ہوئے، تو امریکا کی ایران سے نیوکلیئر معاہدے پر بات چیت بھی ہوئی۔اِس طوفانی پیش رفت سے لگتا ہے، ٹرمپ چاہتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں نئے دَور کا آغاز ہو اور اُس کا کریڈٹ اُنھیں ملے۔ اِس خطّے کو بھی جنوب مشرقی ایشیا کی طرح تجارت کی جانب راغب کیا جائے، جس میں صرف تیل پر انحصار نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ خطّہ اِس سب کچھ کے لیے تیار ہے؟ وہاں سرمائے کی کمی ہے اور نہ ہی انسانی وسائل کی دست یابی مشکل، کیوں کہ لاکھوں تارکینِ وطن پہلے ہی عرب ممالک میں موجود ہیں، جن میں45لاکھ تو پاکستانی ہیں۔
ابھی تک یہ خطّہ صرف تیل پیدا کرنے والوں کا جزیرہ رہا ہے، جسے متبادل انرجی کے سبب خطرات لاحق ہیں۔ایران نے تیل کے متبادل راستے اپنائے، لیکن وہ نیوکلیئر معاملات اور جارحانہ خارجہ پالیسی کے چکر میں پڑ گیا، وگرنہ آج وہ شاید علاقے کا رول ماڈل ہوتا۔ کسی مدبّر کا قول ہے کہ ’’بعض اوقات صدیاں گزر جاتی ہیں اور دنیا میں کچھ نہیں ہوتا، لیکن کبھی چند دنوں ہی میں دنیا بدل جاتی ہے۔‘‘
مئی کا یہ’’ٹرمپ ہفتہ‘‘ بھی کچھ ایسا ہی رہا، جس کے اثرات دہائیوں یا شاید صدیوں پر محیط ہوں گے۔ٹرمپ سے لاکھ اختلافات سہی، مگر یہ ضرور ہے کہ وہ ’’امریکا فرسٹ‘‘ کے نعرے کے ساتھ دوسروں کو بھی امن، تجارت اور خوش حالی کی طرف متوجّہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جمود، جس نے سرد جنگ کے بعد سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، اچانک ختم ہوگیا۔
واضح اشارے مل رہے ہیں کہ اب بڑی طاقتوں اور ممالک کو نئے سرے سے اپنے تعلقات استوار کرنے ہوں گے اور اُنھیں ایسی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونا پڑے گا، جس کا پہلے تصوّر تک نہیں تھا۔ یہ سب ٹرمپ کے اُس فلسفے کے تحت ہو رہا ہے، جس کے مطابق اب دنیا کے تعلقات تجارت اور منافعے کے حصول ہی پر مبنی ہوں گے۔ تمام تر ڈپلومیسی اِسی کے گرد گھومے گی۔
پاک، بھارت جنگ رکوانے کے سلسلے میں ٹرمپ نے کہا کہ’’مَیں نے سیز فائر کے لیے تجارت کو استعمال کیا۔‘‘ یعنی تجارت کرو اور خوش رہو، باقی سب اِسی کے دَم سے چلے گا۔ ہم نے بارہا کہا کہ صدر ٹرمپ دنیا کو تاجرانہ ویژن سے دیکھتے ہیں، لیکن یہ خیال نہ تھا کہ وہ اِسے عملی جامہ پہنانے میں اِس قدر جلدی کریں گے۔
شاید اُن کا پہلی ٹرم کا ابتدائی تجربہ خوش گوار نہیں تھا اور غالباً اِسی لیے اُنہوں نے اِس بار پہلے ایک سو دنوں کی پالیسیز کو عملی شکل دینے کے لیے بیوروکریسی کا کردار بہت محدود کردیا اور فیصلہ سازی میں اپنی اُس ٹیم کو آگے کیا، جو دنیا کے نام وَر’’کاروباریوں‘‘پر مشتمل ہے۔اب یہ پالیسی اچھی ہے یا نقصان دہ، اِس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا، مگر اِتنا ضرور ہے کہ یہ’’ تاجر ٹرمپ‘‘ کا دَور ہے۔
صدر ٹرمپ کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ اُنہیں امن کا داعی تسلیم کیا جائے اور یہ نادر موقع اُنہیں پاک،بھارت جنگ نے فراہم کردیا۔ دو ایٹمی طاقت کے حامل پڑوسیوں کے درمیان جنگ کا سوچ کر ہی رُوح کانپ جاتی ہے۔جب جنگ عروج پر تھی اور اسے تقریباً 88 گھنٹے گزر چُکے تھے، تو اچانک خوش خبری آئی کہ صدر ٹرمپ کی کوششوں سے شام ساڑھے چار بجے سے دونوں ممالک فوجی کارروائیاں روک دیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا۔
سرحدوں پر تناؤ میں کمی آئی اور دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔پانچویں پاک، بھارت جنگ کا صرف88 گھنٹوں میں رُکنا، جہاں اِن دونوں ممالک کی قیادت، دوست ممالک اور عوام کا کمال ہے، وہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کردار اِس معاملے میں سب سے نمایاں رہا۔ اُنہوں نے جس ذوق و شوق اور دل چسپی سے ممکنہ ایٹمی جنگ کا خاتمہ کیا، یہ یقیناً کوئی امن کا شیدائی ہی کرسکتا ہے۔
جہاں اِن دونوں ممالک کی لیڈر شپ اور عوام کو ٹرمپ کا شُکر گزار ہونا چاہیے، وہیں عالمی لیڈر شپ کو بھی سُکھ کا سانس لینا چاہیے کہ ایک مرتبہ پھر امریکا نے اِس خطّے کو امن و خوش حالی کا موقع فراہم کیا ہے، جس سے فائدہ اُٹھانا اب یہاں کے عوام اور لیڈرشپ کا کام ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں کو امن و استحکام کے لیے آگے بڑھنا ہوگا، جو آبادی کا ساٹھ فی صد ہیں۔ یہ نوجوان جدید ٹیکنالوجی سے لے کر جدید نظریات تک سے واقف اور سوشل میڈیا کے گرو ہیں۔ بیانیے اور دعوے تو بہت ہوگئے، اب عمل کی باری ہے۔
پاک،بھارت جنگ کے فوراً بعد صدر ٹرمپ نے اپنا پہلا غیر مُلکی دَورہ شروع کیا، جس کے لیے اِس مرتبہ بھی اپنی پہلی ٹرم کی طرح اُنہوں نے مشرقِ وسطیٰ کے سب سے فعال اور طاقت وَر مُلک، سعودی عرب کا انتخاب کیا۔ ولی عہد، شہزادہ محمّد بن سلمان سے اُن کی دوستی علاقے کی سمت متعیّن کرنے میں کیا کردار ادا کرتی ہے، یہ جلد سامنے آجائے گا۔ٹرمپ کی مشرقِ وسطیٰ سے شروع ہونے والی سفارتی سرگرمیاں بہت سی داستانوں کا نقطۂ آغاز ہے، جو ماہرین اور تجزیہ کاروں کو سنجیدہ مواد فراہم کرتی ہے۔
صدر ٹرمپ ہمیشہ’’امریکا فرسٹ‘‘ کہتے تھے، لیکن اِس ہفتے اُنہوں نے دنیا کو فرسٹ رکھ کر امریکا کے سُپر پاور ہونے کا ثبوت دیا۔ مشرقِ وسطیٰ کے بہت سے مسائل کی جڑ مسئلہ فلسطین ہے، جسے حل کیے بغیر امن و خوش حالی کی منزل حاصل کرنا ممکن نہیں۔ بہت سے ممالک، جن کا دُور دُور تک فلسطین سے واسطہ نہیں اور شاید اُنہیں یہ بھی اندازہ نہیں کہ فلسطینی کتنے زخم کھا چُکے ہیں اور غزہ میں اُن پر کیا گزر رہی ہے، اپنی پراکسیز کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
فلسطین، فلسطینیوں کا ہے اور حل بھی اُن کی مرضی کا ہونا چاہیے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اُنہیں ہجرت پر مجبور کرنے کی بجائے ایک خوش گوار زندگی دی جائے، جس کے وہ حق دار بھی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے دَورے کے آغاز میں سعودی عرب سے اربوں ڈالرز کے معاہدے کیے، جن میں 600ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ بھی شامل ہے۔ ہمیں بھی اس سے سبق سیکھنا چاہیے کہ سرمائے کا حصول کس طرح قوموں کے لیے لائف لائن بن چُکا ہے اور جب امریکی صدر اِس کے لیے اِتنے بے تاب ہیں، تو باقی دنیا کا کیا حال ہوگا۔ یقیناً یہ ان کی تجارتی ڈپلومیسی کی کام یابی ہے۔
نیز، اِس سے سعودی عرب کو بھی علاقے کا ایک مضبوط مُلک بننے میں بہت مدد ملے گی۔اِس موقعے پر صدر ٹرمپ نے اپنے مشرقِ وسطی کے ویژن کا پھر اعادہ کیا کہ وہ خطّے میں افراتفری نہیں، تجارت چاہتے ہیں۔ایک ایسا خطّہ جو دہشت گردی نہیں، ٹیکنالوجی برآمد کرے۔ اِس امر پر بہت بحث ہوسکتی ہے کہ اِس دہشت گردی کا ذمّے دار کون ہے، لیکن اگر امریکی صدر اِس حوالے سے سنجیدہ ہیں، تو اُنہیں سب سے پہلے غزہ میں جاری مظالم رکوانے چاہئیں۔پھر شاید دونوں فریق کسی امن معاہدے کی طرف بڑھ سکیں۔صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ امریکا کو دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں۔یعنی کس مُلک میں کس قسم کی سیاست اور حُکم رانی ہے، اِس سے امریکا کو کوئی دل چسپی نہیں۔
دوسرے الفاظ میں، کہیں جمہوریت ہے یا نہیں، یہ امریکا کا دردِ سر نہیں۔گویا، اپنے اندورنی معاملات میں امریکا سے مدد کی توقّع بالکل فضول ہے۔ اِس بیان میں پی ٹی آئی کے لیے بھی کافی سبق ہے، جو ٹرمپ سے طرح طرح کی اُمیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے۔ جو افراد انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام پر دُکانیں چمکائے بیٹھے تھے، وہ اب چار سال تک آرام کریں یا شاید اس سے بھی زیادہ۔
ٹرمپ نے تو ماحولیات تک کو علاقائی اور ممالک کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب اِس حوالے سے کوئی امریکا سے مدد کی توقّع نہ رکھے۔ جو اہم ہے، وہ یہ ہے کہ اب ہر مُلک تجارت کرے، زیادہ سے زیادہ منافع کمائے، خود بھی خوش حال رہے اور دنیا میں بھی خوش حالی کا ذریعہ بنے۔اُنہوں نے ماضی کی مغربی فوجی و سیاسی مداخلتوں کی مذمّت کرتے ہوئے کہا کہ مغربی مداخلت کاروں نے(جن میں امریکی صدور بھی شامل ہیں) قومیں بنانے کی بجائے اُنہیں برباد کیا۔
سعودی عرب کے بعد صدر ٹرمپ نے متحدہ عرب امارات اور قطر کا بھی دورہ کیا۔یہ دونوں عرب ریاستیں امریکا کی قریبی حلیف ہیں۔ یو اے ای تو اسرائیل سے سفارتی تعلقات بھی قائم کرچُکی ہے۔ یہاں بھی اُنہوں نے اربوں ڈالرز کے تجارتی اور سرمایہ کاری کے معاہدے کیے۔ تیل کے معاملات اور بدلتی صُورت حال پر بات چیت کی۔
اُنہوں نے پوری دنیا کو اُس وقت حیرت زدہ کردیا، جب اچانک شامی صدر، احمد الشرع سے ملاقات کی۔کہا جاتا ہے کہ یہ تُرکیہ اور سعودی عرب کے اصرار پر ہوئی۔ اُنہوں نے احمد الشرع کی زبردست تعریف کرتے ہوئے اُنہیں طاقت وَر اور شان دار نوجوان قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ شام احمد الشرع کی قیادت میں متحد ہونے میں کام یاب ہوجائے گا۔ صدر ٹرمپ نے ایک عملی قدم یہ اُٹھایا کہ شام پر عاید برسوں پرانی پابندیاں اُٹھا لیں۔
اِس سے ذرا قبل عالمی بینک نے اعلان کیا کہ سعودی عرب، قطر اور یو اے ای نے شام کے تمام قرضے ادا کردیئے ہیں اور اب وہاں عام ممالک کی طرح سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا قدم ہے اور ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ صدر ٹرمپ کا ذاتی فیصلہ تھا، کیوں کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا اصرار تھا کہ پہلے اقلیتوں کے حقوق کے تحفّظ کا کوئی معاہدہ کروایا جائے۔
مغربی میڈیا کا ایک حصّہ شامی صدر کو دبائو میں رکھنا چاہتا ہے اور وہ اُن کے ماضی کا بار بار ذکر کرتا ہے، لیکن شام کا پانچ دہائیوں پر مشتمل خون آشام ماضی بھول جاتا ہے۔ جب وہاں لاکھوں مسلم شہری قتل ہو رہے تھے، تو اسد حکومت سے سمجھوتے کیے جا رہے تھے۔ اب یہی میڈیا شامی آزادی کو اقلیتوں کے حقوق کے نام پر بلیک میل کرنا چاہتا ہے، حالاں کہ صدر الشرع اُنہیں اپنے ہر عمل سے ایک متحدہ شام کی عملی شکل دِکھا رہے ہیں۔
اُنھیں بہت بڑی بڑی مشکلات کا سامنا ہے، جنہیں حل کرنے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں کہ مسائل حل کرنا لیڈر کا کام ہے۔ تُرکیہ، سعودی عرب اور خلیجی عرب ممالک نے شامی حکومت کا ساتھ دے کر اس مُلک پر احسان کیا ہے اور یہی تعاون مسائل کا عملی حل ہے۔ شام، دنیا بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کا ایک اہم مُلک ہے۔ یہ یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان اہم رابطہ بھی ہے۔نئی پیش رفت کے اثرات تُرکیہ اور ایران تک محسوس کیے جائیں گے۔شام کو اِس طرح فری ہینڈ دے کر صدر ٹرمپ نے شامی عوام کو موقع فراہم کردیا کہ وہ کس قسم کی زندگی کے خواہاں ہیں۔
اسد خاندان کی53 سالہ آمریت اِس صدی کا بڑا انسانی المیہ تھا، جس میں لاکھوں معصوم، بے گناہ شہری ہلاک کیے گئے۔ افسوس تو یہ ہے کہ بڑی طاقتوں، علاقائی کھلاڑیوں اور مسلم ممالک نے اِس ظلم و بربریت کو نظر انداز کیا، بلکہ ایک، دو ممالک نے تو خود اس ظلم و سفّاکیت میں حصّہ بھی ڈالا۔ اب سب معاف کردیا گیا ہے اور کوئی کسی سے پوچھنے والا نہیں کہ تم نے اِس مُلک کے کروڑوں شہریوں کے ساتھ کیا، کیا۔ آج بڑی بڑی ریلیاں نکالنے والے بھی اُس وقت خاموش ہی رہے۔
بہرکیف،صدر ٹرمپ نے شام کی خوش حالی و استحکام کے لیے بڑا کام کیا ہے اور یقیناً شامی عوام، صدر ٹرمپ کے شُکر گزار ہوں گے کہ اُن کی تاریکی کو ایک نئی صبح کی نوید دی۔اب شامی لیڈر شپ کو بھی سب چیزوں سے بلند ہو کر اپنے مُلک و عوام کی طرف توجّہ دینی چاہیے۔
دیکھنا یہ ہوگا کہ صدر ٹرمپ خلیجی ممالک کے دَورے کے دَوران اُٹھائے گئے اقدامات کو کس طرح آگے بڑھاتے ہیں۔ یہ اُن کی تو آزمائش ہے ہی، لیکن جن ممالک کو بار بار امن کی جانب لانے کی کوشش کر رہے ہیں، اُنہیں بھی اب جنگ و جدل کو خیرباد کہہ کر اپنے عوام کی ترقّی و خوش حالی کی طرف جانا چاہیے۔ کیوں کہ کوشش تو بہرحال اُنہیں ہی کرنا ہوگی، وگرنہ امریکی صدر کے پاس اپنے مُلک کے لیے بھی بہت سے کام ہیں۔ اِن ممالک کو سوچنا چاہیے کہ کہیں وقت نہ گزر جائے اور وہ وعدے ہی یاد دِلاتے رہ جائیں۔