6 مئی کو شروع ہونے والی پاک، بھارت جنگ تقریباً 88 گھنٹے جاری رہنے کے بعد رُکی اور اِس سیز فائر میں امریکا کے صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کی ذاتی دل چسپی اور کوششوں کا سب سے زیادہ ہاتھ رہا۔ اِسے اُن کی دوسری ٹرم کی ایک بڑی کام یابی بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ اُن کے سیکریٹری آف اسٹیٹ، مارکو روبیو نے پاک، بھارت جنگ رکوا کر اپنی پہلی کام یاب سفارت کاری کی بڑی سند حاصل کی۔امریکی صدر نے دونوں ممالک کی قیادت کے تدبّر، حوصلے اور سمجھ بوجھ کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔
اِس جنگ بندی میں امریکا کے ساتھ سعودی عرب، برطانیہ اور چین نے بھی اہم کردار ادا کیا، جس کا اعتراف وزیرِ اعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب میں کیا۔ شاید ہی کوئی ایسا بڑا مُلک ہو، جس کے حُکم ران نے اِس جنگ میں دل چسپی نہ لی ہو۔ پاکستان عالمی تنہائی کے دَور سے نکل آیا، جس پر جنرل عاصم منیر اور وزیرِ اعظم، شہباز شریف مبارک باد کے مستحق ہیں۔
پاکستان اِن دنوں عالمی فوکس میں ہے اور اب یہ اِس کی سیاسی قیادت کی آزمائش ہے کہ وہ اِس صُورتِ حال سے کیسے فائدہ اُٹھاتی ہے۔ یہ سُن سُن کر تو کان پَک چُکے ہیں کہ’’ہمیں اپنی ذات اور سیاست سے بلند ہو کر مُلک و قوم کے لیے کام کرنا چاہیے‘‘ تو اب قوم دیکھ رہی ہے کہ کون کیا کر رہا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ قوم اِس تاریخی موقعے پر اتحاد و ترقّی کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں کو کبھی نہیں بھولے گی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ اُس وقت شروع ہوئی، جب بھارت نے آزاد کشمیر اور پاکستان کے کئی مقامات پر میزائل حملے کیے۔ اُس کے دعوے کے مطابق یہ حملے9 ایسے مقامات پر کیے گئے، جو شدّت پسندوں کے ٹھکانے تھے، جب کہ پاکستان نے مستند شواہد اور اعداد و شمار سے ثابت کیا کہ یہ میزائل حملے6 مقامات پر کیے گئے، جن میں عام، بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔بھارت کے اِن میزائل حملوں میں ابتدائی طور پر26 عام شہری شہید ہوئے، جن میں خواتین اور بچّے بھی شامل تھے۔
بھارت نے اپنی اِس جارحیت اور حملوں کو پہلگام میں ہونے والے اُس واقعے سے جوڑنے کی کوشش کی، جس میں ایک دہشت گردانہ حملے میں متعدّد سیّاح مارے گئے تھے اور اس حملے کے چند منٹ بعد ہی کسی تحقیق و تفتیش کے بغیر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا دیا گیا تھا۔ بھارتی میڈیا تو جیسے پہلے سے تیار بیٹھا تھا۔ اُس نے پہلگام واقعے کے فوراً بعد پاکستان کے خلاف زہر اُگلنا شروع کردیا اور اپنی بے سروپا، غیر ذمّے دارانہ رپورٹنگ سے اپنے عوام کو جنگی جنون میں مبتلا کردیا۔ دنیا حیران تھی کہ سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے دار مُلک کا میڈیا کیسے اِس قدر انتہا پسند اور نفرت انگیز رپورٹنگ کرسکتا ہے اور وہ بھی حکومتی سرپرستی میں…!!
تقریباً چار دن جاری رہنے والی جنگ کی ایک، ایک تفصیل سب کے سامنے ہے کہ اب اِس طرح کی باتیں چُھپانا ممکن بھی نہیں رہا۔پاکستان کا جوابی حملہ نہایت مؤثر، طاقت وَر اور یادگار رہا، جس پر ممتاز عالمی فوجی ماہرین، تجزیہ کاروں اور میڈیا نے پاکستانی فوج، بالخصوص پاک فضائیہ کی مہارت اور جنگی صلاحیت کو دِل کھول کر سراہا۔ پاکستانی فوج نے ثابت کردیا کہ وہ اپنے دشمن سے عددی لحاظ سے تین گُنا کم سہی، لیکن جنگی مہارت میں اُس سے کہیں آگے ہے۔ پاک فوج کی قیادت کے بروقت فیصلوں نے ہتھیاروں کے درست استعمال سے کام یابی کو یقینی بنایا۔
تینوں افواج نے بے مثال ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا، جو کسی بھی جیت کی پہلی شرط ہے۔ بلاشبہ، پاک فوج کے سربراہ، جنرل عاصم منیر نے اپنی بہترین قیادت کے ذریعے آپریشن’’بنیان مرصوص‘‘نہایت کام یابی سے مکمل کر دِکھایا، جس کے دَوران فضائیہ اور بحریہ کے ساتھ، عوام بھی اُن کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔اور یہی وہ قومی اتحاد تھا، جس نے بدمست دشمن کو پوری دنیا کے سامنے دھول چٹائی۔ پھر وزیرِ اعظم، شہاز شریف اور اُن کے ساتھ جُڑی سیاسی حُکم ران قیادت نے بھی تدبّر، بروقت فیصلوں اور کام یاب سفارت کاری کی ایک لاجواب مثال قائم کی، جو قوم نے اِس سے پہلے شاید ہی کبھی دیکھی ہو۔
جنگ کے دَوران ایک بڑی اور حیرت انگیز بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ جس قوم سے متعلق صرف ایک دن پہلے تک یہ کہا جارہا تھا کہ’’ اِس سے زیادہ تقسیم کوئی قوم نہیں‘‘ وہی قوم چند گھنٹوں میں اپنے مُلک، افواج اور قومی قیادت کے ساتھ کھڑی ہوگئی اور دشمن کو سیز فائر پر مجبور کردیا۔ اِس ضمن میں اوورسیز پاکستانیوں کا کردار بھی قابلِ ستائش رہا کہ اُنھوں نے آزمائش کی اِس گھڑی میں تمام تر تلخیاں اور اختلافات پسِ پُشت ڈال کر اپنے مُلک کا ساتھ دیا۔
جنگیں صرف فوج نہیں، بلکہ پوری قوم مِل کر جیتتی ہے اور مئی کے اِن چار دنوں میں پاکستانی قوم نے یہ کر دِکھایا، جس پر اِسے عالمی برادری ایک ’’مثالی قوم‘‘ کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ قومیں دعووں، بیانیوں یا شخصیتوں سے بڑی نہیں ہوتیں بلکہ اپنے عمل ہی سے عظمت اور دنیا میں مقام حاصل کرتی ہیں، جیسا کہ اِس جنگ میں پاکستانی قوم نے ثابت کیا۔ لیکن ابھی تو سفر شروع ہوا ہے۔
ہم جنگ جیت چُکے ہیں اور اب امن، ترقّی اور خوش حالی کی صُورت بھی فتح حاصل کرنی ہے، جو اُسی جذبے اور عزم سے حاصل ہوگی، جس کا مظاہرہ قوم نے جنگ کے دَوران کیا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان اور بھارت کے 150 کروڑ عوام خطّے میں نفرت کا زہر پھیلانے والوں کو شکست دے سکیں گے؟ کیوں کہ نفرت کے پرچاروں کو شکست دیئے بغیر خطّے میں امن و خوش حالی کا خواب کبھی بھی تعبیر نہیں پا سکے گا۔
جہاں تک حالیہ پاک، بھارت جنگ کی تفصیلات کا تعلق ہے، تو دنیا بھر کے عسکری ماہرین مان رہے ہیں کہ پاکستانی فوج نے تعداد اور وسائل میں کم ہوتے ہوئے بھی اپنی برتری ثابت کردی۔ وہ مشہور’’ ڈاگ فائٹ‘‘(فضا میں جنگی طیاروں کی لڑائی کو یہ نام دیا جاتا ہے) جس میں پاکستان کے چالیس اور بھارت کے ستّر جدید لڑاکا طیاروں نے حصّہ لیا، جدید فضائی جنگی تاریخ کا ایک اہم باب بن گئی۔ آنے والے زمانوں میں اسے فوجی اداروں میں باقاعدہ پڑھایا جائے گا اور جہاں جہاں یہ زیرِ بحث آئے گی، وہاں پاک فضائیہ کی بہادری و مہارت کا بھی اعتراف کیا جائے گا۔
اِسی ڈاگ فائٹ میں پاکستان نے بھارت کا جدید ترین رافیل طیارہ مارگرایا اور اطلاعات یہی ہے کہ بھارت کے3 رافیل طیارے مِس ہیں۔ یہ جنگی جہاز فرانس کی مشہور کمپنی، ڈسالٹ کا تیار کردہ ہے اور اِس کا شمار جدید ترین طیاروں میں ہوتا ہے۔ اس میں عام اور ایٹمی میزائل، دونوں ہدف تک لے جانے کی صلاحیت ہے۔ پاکستانی پائلیٹس نے اسے جے۔10 طیارے سے مار گرایا، جو چین کا تیار کردہ ہے اور اب اسے پاکستان میں بھی بنایا جارہا ہے۔
پاکستان نے دعویٰ کیا کہ اس جنگ میں اُس نے بھارت کے چھے طیارے گرائے، جن میں رافیل،MIG19 اور اسکوئی شامل ہیں۔ مگ اور اسکوئی روسی ساختہ جہاز ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، رافیل گرائے جانے کے بعد ڈسالٹ کمپنی کے شیئر10فی صد تک گر گئے، جب کہ جے-10 کے شیئر ایک دَم چڑھ گئے۔ یقیناً یہ چینی اسلحہ سازی کی صنعت کے لیے ایک اہم سنگِ میل ہے۔
پاکستان کی ایک بڑی کام یابی ادھم پور میں بھارتی دفاعی نظام کی تباہی بھی ہے، بلکہ بعض مغربی عسکری ماہرین نے اسے پاکستان کی سب سے بڑی کام یابی قرار دیا۔ یہ دفاعی نظام روس اور اسرائیل نے دس سال پہلے بھارت میں نصب کیا تھا۔ اسرائیلی دفاعی نظام کی طرح اس کی بھی تین تہیں ہیں۔
اس کے بنیادSA400 زمین سے فضا میں پرواز کرنے والے میزائل ہیں، جو حملہ آور میزائلز کو فضا ہی میں تباہ کردیتے ہیں۔ پاکستان نے اِس دفاعی نظام کے خلاف اپنا تیار کردہ، الفتح1استعمال کیا، جو شارٹ رینج میزائل ہے اور تقریباً140 کلو میٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اِس میزائل نے جنگ کے آخری دن بھارت کے دفاعی نظام کو زبردست نقصان پہنچایا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ بھارت نے سیز فائر کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیئے۔ یہ پاکستان کی ایک ایسی بے مثال کام یابی ہے، جس کے اثرات کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہوگا، جب مذاکرات کی باقاعدہ میز سجے گی۔
پاک، بھارت جنگ کے تناظر میں روس، یوکرین جنگ اور اسرائیل کی حالیہ فوجی کارروائیوں کے طریقۂ کار کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ پاکستان نے اِس جنگ میں الیکٹرانک وار فیئر کے طریقے بڑی مہارت اور کام یابی سے استعمال کیے۔ غالباً اِسے اندازہ تھا کہ طویل جنگ اس کے معاشی نظام پر دبائو کا باعث ہوسکتی ہے۔ اِسی لیے کہا جاسکتا ہے کہ جنگ اور سیز فائر، دونوں ہی پاکستان کی بڑی فتح ہیں۔
فوجوں کا بنیادی کام اپنے عوام کا تحفّظ کرنا ہوتا ہے اور پاک فوج نے یہ فریضہ کمال خُوبی سے نبھایا۔ وگرنہ یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ کی خون ریزیاں دیکھ لیں۔ یوکرین، روس جنگ کو چالیس ماہ ہوچُکے ہیں، جس کے دوران ہلاک شدگان کی تعداد ساٹھ ہزار سے تجاوز کر چُکی ہے۔ دوسری طرف، غزہ پر اٹھارہ ماہ سے بارود پھینکا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق،55 ہزار سے زاید جنازے اُٹھ چُکے ہیں۔
انفرااسٹرکچر تباہ اور ہر طرف بھوک کا راج ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی جنگ جُو تنظیمیں بھی بُری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔حماس کی تقریباً پوری قیادت شہید ہوچُکی ہے اور ایسا ہی کچھ حزب اللہ کے ساتھ ہوا، جس کے سربراہ حسن نصراللہ سمیت اہم رہنما اسرائیلی حملوں میں جان کی بازی ہار گئے۔ اِن دونوں ملیشیاز کے ہزاروں جنگ جُو بھی اسرائیل کا نشانہ بنے ہیں۔پھر غزہ کی طرح لبنان میں بھی عام شہری جنگ کی لپیٹ میں آئے۔
یمن کے حوثیوں کی بات کریں، تو وہاں بھی ایک اندازے کے مطابق اب تک 60 ہزار افراد ہلاک ہوچُکے ہیں۔ اِس صُورتِ حال میں عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ جب لڑائی پروفیشنل یا ریگولر فوجوں کے درمیان ہوتی ہے، تو اس کا انداز بالکل مختلف ہوتا ہے۔ وہ جنیوا کنونشنز، اقوامِ متحدہ، عالمی سفارتی دبائو اور جنگ سے متعلق وضع کردہ اصول سامنے رکھ کر وار کرتے ہیں۔
گو، اِس میں بھی عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں، جیسے بھارت نے عام شہریوں کو نشانہ بنا کر کی، تاہم عام طور پر عالمی قوانین کا خیال رکھا جاتا ہے، لیکن غزہ، لبنان یا حوثیوں سے لڑائی میں اسرائیل نے ایسے کسی اصول کی پاس داری نہیں کی۔ جنگوں میں جذبات بھڑکتے ہیں، جیسے بھارتی میڈیا نے’’مِٹا دو، تباہ کردو، ختم کردو‘‘کے نعرے بلند کیے، لیکن پروفیشنل آرمڈ فورسز بہرحال عالمی قوانین کی حدود میں رہنے کی کوشش کرتی ہیں۔
جیسے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی ہوئی، پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز کے درمیان رابطے ہو رہے ہیں، جن میں مختلف امور طے کیے جا رہے ہیں۔ حالیہ واقعات کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے شہریوں کو یہ بھی پتا چل گیا ہوگا کہ میڈیا پر چاہے کیسی ہی گرما گرمی کیوں نہ ہو، میدانِ جنگ میں کام یابی کا وقت اور اصول، فوجی و سیاسی قیادت ہی طے کرتی ہے۔
اب اگر کوئی گلا پھاڑ پھاڑ کر اپنی حقیقت آشکار کرتا ہے، تو وہ خود ہی اندازہ لگاسکتا ہے کہ میدانِ جنگ میں اُس کی کتنی اوقات ہے۔ ہاں عوامی مورال بلند رکھنے میں میڈیا ایک اہم ٹُول کے طور پر ضرور کام کرتا ہے، لیکن اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ بھارتی میڈیا کی طرح مضحکہ خیز، مَن گھڑت خبروں کا سہارا نہ لیا جائے، وگرنہ اِس مہم جُوئی کا اُلٹا اثر بھی ہوسکتا ہے، جیسے بھارتی عوام میں مایوسی اور میڈیا سے بدظنی کی صُورت ہوا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ہوچُکی اور اُمید ہے کہ بھارت اس معاہدے کی پاس داری بھی کرے گا۔ پاک فوج نے عوامی امنگوں کے مطابق مادرِ وطن کی حفاظت کا فرض نبھایا، تو ایک خوشی یوں بھی حاصل ہوئی کہ ایک عرصے سے مختلف وجوہ کی بنا پر تقسیم قوم، دیکھتے ہی دیکھتے’’بنیان مرصوص‘‘(آہنی دیوار) بن گئی اور بلاشبہ یہ ایک غیر معمولی بات ہے۔
اب وقت ہے کہ پاک فوج کی اِس شان دار فتح کو قوم کی کام یابی میں تبدیل کیا جائے اور یہ کام، ایک ہوش مند، پُرعزم قوم ہی کرسکتی ہے۔ ہمیں اپنی طاقت اور کم زوریوں کو نہیں بھولنا چاہیے، کیوں کہ اِس فتح نے ہماری معاشی کم زوریاں ختم نہیں کیں۔ اگر یہ ممکن ہوتا، تو شاید ہماری فوج یہ ہدف بھی چار دنوں میں حاصل کرلیتی، لیکن حقیقت بہرحال یہی ہے کہ معاشی مضبوطی کے لیے چوبیس کروڑ عوام کی دانش، عزم اور رات، دن محنت درکار ہے۔
اِس تاریخی فتح سے حاصل ہونے والے زبردست قومی اعتماد کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور فوج اُن خوشامدیوں کو ضرور پہچانتے ہوں گے، جو کل تک قوم میں مایوسی پھیلا رہے تھے، اُنھیں بھارت کے ہاتھوں تباہی سے ڈرا رہے تھے اور اب اچانک گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر، فتح کی خوشیاں منا رہے ہیں۔ میدانِ جنگ میں جیت ایک امر ہے اور اسے قومی فتح میں بدلنا دوسری بات۔
خاص طور پر ایک ایسی قوم کے لیے تو یہ نہایت اہم ہے، جو قرضوں میں جکڑی ہوئی ہو، زرِ مبادلہ کے ذخائر بیرونی دوستوں کے مرہونِ منّت ہوں اور آئی ایم ایف پروگرام کی دستِ نگر ہو۔ عین ممکن ہے کہ یہ تلخ یا کڑوی یاد دہانی خوشی کے لمحات میں بہت سوں کو ناگوار گزرے، خاص طور پر اُن دانش وَروں، تجزیہ کاروں، میڈیا ماہرین اور یوٹیوبرز کو جو اِس فتح سے زیادہ سے زیادہ ذاتی فوائد سمیٹنا چاہتے ہیں، لیکن جن کی آنکھیں کُھلی ہیں، قوم کا درد اور نسلوں کے مستقبل کی فکر ہے کہ پاکستانی قوم دنیا میں عارضی واہ واہ کی بجائے مستقل بنیادوں پر اپنا پرچم بلند کرے، وہ قوم کو مبارک بادیں پیش کرنے کے ساتھ، اِس طرح کی یاد دہانیاں بھی کرواتے رہیں گے اور کروانی بھی چاہئیں۔ جنرل عاصم منیر کئی برسوں سے مُلک و قوم کی معاشی ترقّی میں بھرپور کردار ادا کرتے آ رہے ہیں۔اُنہوں نے نہ صرف میدانِ جنگ میں یہ ثابت کردیا کہ وہ اُن لوگوں میں سے ہیں، جو کہتے ہیں، کرتے بھی ہیں۔
اُنھوں نےقوم کی ڈوبتی معاشی نیا کو سہارا دینے میں اپنا غیر معمولی حصّہ ڈالا، وگرنہ یہاں تو روز کانوں میں مُلک کے دیوالیہ ہونے کی خبریں گونج رہی تھیں۔ کچھ حلقوں نے اُن کے اِس کردار پر شکوک کا بھی اظہار کیا، لیکن وہ سربلند رہے۔ اِسی طرح اب سفارت کاری کی باری ہے کہ میدان کی جیت، عالمی طور پر مستحکم کی جاسکے۔ اِس ضمن میں ایک غیر معمولی کام یابی امریکی ثالثی کی شکل میں سامنے آئی ہے۔
کچھ میڈیا تجزیہ کار اور ماہرین اِسے مذاق میں اُڑانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن شاید وہ بھول جاتے ہیں کہ چند سال پہلے ایک وزیرِ اعظم امریکی صدر تو کیا، وہاں کے نچلے حکّام کی ٹیلی فون کال کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے، مگر اُنھیں وہاں سے کوئی کال موصول نہیں ہوئی۔ اُنھوں نے اپنی وکٹری اسپیچ میں مودی سے کہا تھا کہ’’تم ایک قدم آگے بڑھو، ہم دو قدم آگے بڑھیں گے۔‘‘
پھر یہ شوشا چھوڑا گیا کہ صدر ٹرمپ اقتدار میں آتے ہی کال کریں گے اور پاکستان میں انقلاب آجائے گا۔اِس مقصد کے لیے امریکا میں لابنگ کے لیے لاکھوں ڈالرز خرچ کیے گئے، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔آج امریکی صدر اِس امر پر فخر کر رہے ہیں کہ اُنہوں نے دنیا کو ایٹمی جنگ سے بچا لیا۔ اُنھوں نے جنگ رکوانے کے لیے ٹریڈ ڈپلومیسی استعمال کی۔ خود ذاتی طور پر ثالث بننے کو تیار ہوئے اور وہ بھی کشمیر جیسے معاملے پر، جس کا نام سُننا بھی بھارت گوارا نہیں کرتا۔ صدر ٹرمپ نے پاکستانی قیادت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ’’ یہ طاقت وَر، مضبوط اور ذہین قیادت ہے۔‘‘
اصل میں یہ پاکستانی قوم کی کام یابی ہے، جس نے مایوسی کو شکست دی، تاریکی اپنانے سے انکار کیا اور ترقّی کی راہ چُنی۔ اب آگے بڑھنے کا وقت ہے، غرور نہیں فخر اور اعتماد سے۔ فیصلوں اور کاموں میں کیڑے نکالنے والے تو باز نہیں آئیں گے، لیکن قومی قیادت کو بہرحال اپنا مقصد حاصل کرنا ہوگا کہ یہ مسئلہ کسی پارٹی یا شخص کا نہیں، کُل عوام کا ہے۔
صدر ٹرمپ نے واضح طور پر کہا کہ وہ کشمیر اور دیگر مسائل کے حل کے لیے دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کے لیے تیار ہیں۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کو خُوب صُورت بنی اشیاء کی تجارت کرنی چاہیے، تو کیا یہ کسی کی تضحیک ہے؟ یہ بات تو وہی شخص کر سکتا ہے، جو واقعتاً ترقّی کا خواہاں ہو۔
یہ امریکی پوزیشن میں بہت بڑا شفٹ ہے کہ پہلے اُس کا تمام تر جھکاؤ بھارت کی طرف تھا اور اس کی وجہ چین کو محدود کرنا اور افغانستان سے انخلا بتایا جاتا تھا۔ یہ بات مشہور تھی کہ امریکا کی پاکستان میں دل چسپی ختم ہوچُکی ہے۔ اِس جنگ میں پاکستان نے ایک بڑی کام یابی یہ بھی حاصل کی کہ پاکستانی حکومت نے امریکا کو خطّے میں دوبارہ اپنے حق میں انگیج کر لیا اور یقیناً بھارت کو اِس سے دھچکا لگا ہوگا۔
پھر امریکا ہی نہیں، برطانیہ اور یورپ سمیت سب ہی پاکستان کی کام یابی کے معترف ہیں۔ اب عرب ممالک، تُرکیہ، ملائیشیا، تقریباً پورا یورپ اور امریکا سمیت عالمی طاقتیں پاکستان کے ساتھ ہیں۔ اگر ہم نے اِس مرحلے پر اپنے سفارتی کارڈز تدبّر سے کھیلے، تو بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ صرف سرمائے ہی کی شکل میں نہیں، دوستی، ٹیکنالوجی اور دوسرے شعبوں میں تعاون کی صُورت بھی مل سکتا ہے۔
دنیا نے تسلیم کر لیا کہ پاکستانی قوم نہ صرف ٹیکنالوجی سیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، بلکہ اسے بخوبی استعمال بھی کرسکتی ہے۔ بھارت کے خطّے کی سیاست میں بڑھتے قدم، جس کی پُشت پر اُس کی مضبوط معیشت ہے، فی الحال تھم گئے ہیں، لیکن پاکستان کے عوام، حکومت اور سیاسی جماعتوں کو احساس ہونا چاہیے کہ وقت بہت کم ہے۔ اگر فائدہ اُٹھانا ہے، تو یہی وقت ہے، ورنہ ایسا نہ ہو کہ بھارت اِس میں کوئی رخنہ ڈال دے۔
ہمیں اِس امر کا بھی احساس ہونا چاہیے کہ بھارت ہمیں دنیا میں کہاں کہاں اور کیسے بدنام کرتا ہے۔ اِس ضمن میں کچھ ہماری افغان وار کی غلطیاں بھی ہیں، جن کی تفصیل میں جائے بغیر یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ دنیا اب نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ حماس، حزب اللہ اور حوثیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس نے ایران کے ساتھ روس کو بھی بیک فُٹ پر کردیا۔ ہمیں قومی سطح پر متحد ہوکر کچھ مشکل اور بنیادی فیصلے کرنے ہوں گے۔
یعنی پاکستان فرسٹ، اس کی فتح اور ترقّی سب سے مقدّم۔پہلگام واقعے کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف کی پیش کش تھی کہ بھارت کسی غیر جانب دار فورم پر اس کی تحقیقات کروالے تاکہ سچ، جھوٹ سب سامنے آجائے گا۔پاکستان تو خود بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں ایسے گروہوں کی دہشت گردی کا شکار ہے، جنہیں بھارت کی مدد حاصل ہے اور پاکستان اِس ضمن میں ناقابلِ تردید شواہد بھی پیش کرچکا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ دنیا کو یہی پیغام دیا کہ کوئی بھی مُلک کسی دوسرے مُلک کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دے اور وہ خود بھی پوری طرح اس کی پاس داری کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ قومی حکمتِ عملی کسے کہتے ہیں؟ جواب بہت واضح ہے کہ اپنے قومی مفادات کا حصول ہی قومی حکمتِ عملی ہے اور جس قدر اپنے مفادات حاصل کیے جاتے ہیں، اُسی قدر حکمتِ عملی کام یاب قرار پاتی ہے۔ اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ سات دہائیوں کی دشمنی میں پاکستان اور بھارت میں بہت سے مسائل پیدا ہوئے۔ پہلے کشمیر، پھر بھارت کے دہشت گردی کے الزامات اور اس کے بعد سندھ طاس معاہدے کا معاملہ۔
اِس امر میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ بھارت مذہبی انتہا پسندی کی اُن حدوں کو چُھو رہا ہے، جس میں وہاں اقلیتوں کا عزّت و سکون سے رہنا کسی بدترین آزمائش سے کم نہیں۔ نریندر مودی کے دَور میں نفرتیں پروان چڑھیں، جن کا نشانہ اُن کے ہم وطن بھی بن رہے ہیں اور پڑوسی ممالک بھی۔ گویا، بھارت سے اُٹھنے والا نفرت کا یہ تعفّن پورے خطّے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔
اِس مذہبی شدّت پسندی نے اب خود مودی حکومت کو ایک ایسی بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے، جہاں سے سفارتی راستوں اور دوستی کے سرے تلاش کرنا مشکل ہوگیا۔ اب امریکا اور چین سمیت پوری دنیا چاہتی ہے کہ پاک، بھارت بات چیت ہو۔ چین کئی بار تعلقات معمول پر لانے کا مشورہ دے چُکا ہے اور اب امریکا بھی اس کا ہم نوا ہی نہیں، خود کو ثالث کے طور پر پیش کر رہا ہے۔پاکستان کے دوست اسلامی ممالک بھی اِس کشیدگی سے سخت پریشان ہیں کہ وہ بھارت کے بھی اچھے دوست ہیں اور اُن کے وہاں بڑے مالی مفادات ہیں۔
ایسے میں اب ناگزیر ہوگیا ہے کہ دونوں ممالک اپنے تنازعات کے حل کے لیے بڑے فیصلے کریں تاکہ دونوں اطراف کے ڈیڑھ سو کروڑ افراد سُکھ کا سانس لے سکیں۔ اب موقع ہے کہ مسئلۂ کشمیر کا کوئی ایسا باوقار حل تلاش کیا جائے، جو کشمیریوں کی امنگوں کے بھی مطابق ہو اور اس مقصد کے لیے دونوں ممالک کو اپنے عوام کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے تاکہ اِس طرح کے فیصلوں کو عوامی تائید حاصل ہوسکے۔
دفاعی و معاشی امور کے تجزیہ نگار، ڈاکٹر فرّخ سلیم کا کہنا ہے کہ اگر یہ جنگ ایک ماہ چلتی، تو اِس پر500 بلین ڈالرز کا خرچہ آتا، جو دونوں ممالک کے عوام ہی کو برداشت کرنا پڑتا۔ پاکستان نے ہمیشہ بھارت سے بامعنی مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی کوشش کی ہے۔ چاہے وہ پرویز مشرّف ہوں یا نواز شریف، ایّوب خان ہوں یا ذوالفقار بھٹّو۔ اِس سلسلے میں کئی معاہدے بھی ہوئے، جن میں سے کئی کام یاب رہے، تو بعض ناکام۔1971ء کی جنگ کے بعد جب مشرقی پاکستان، بنگلا دیش بنا، تب بھی دونوں ممالک کے درمیان معاہدے ہوئے۔
ذوالفقار بھٹّو، پرویز مشرّف اور ضیاءالحق بھارت گئے، تو اٹل بہاری واجپائی اور مودی بھی پاکستان آئے۔ اگر اِس طرح کا سلسلہ ایک بار پِھر ہوجائے، تو اس میں کیا حرج ہے۔ سارک فورم پر بھی بھارت اور پاکستان کے حُکم ران ہاتھ ملاتے، بات چیت کرتے رہے ہیں۔ پھر اوورسیز پاکستانیوں سے پوچھ لیں کہ تمام تر دشمنی کے باوجود اُن کے دیارِ غیر میں بھارتیوں سے کس قسم کے روابط ہیں۔ فن کار، ادیب اور کھلاڑی ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے رہے ہیں۔
گو کہ نفرت کی دیوار ضرور بڑھ گئی ہے، لیکن قیادت کا قد کاٹھ بھی تو بلند ہوا ہے۔ نیز، نئی نسل بھی دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کا زیادہ ادراک رکھنے لگی ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جب امریکا سمیت پوری دنیا خطّے میں امن کی خواہاں ہے، بھارت کو نفرت اور تشدّد کی پالیسی ترک کرکے امن کی طرف بڑھنا چاہیے۔
پاکستان اور بھارت، دونوں کو ایک بار پھر یہ موقع ملا ہے کہ وہ کشمیر سمیت تمام تنازعات پُرامن طور پر حل کرلیں کہ عالمی قوّتیں بھی اُن کی معاونت کے لیے موجود ہیں۔ اگر وہ اِس موقعے سے فائدہ اُٹھالیتے ہیں، تو خطّے میں تعمیر و ترقّی اور امن و استحکام کا دَور شروع ہوسکتا ہے، جو یہاں کے عوام کی ضرورت بھی ہے۔