• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر محمّد ریاض علیمی

تعلیم کسی بھی معاشرے کے روشن مستقبل کی ضامن ہوتی ہے۔ اگر کسی مُلک کے نظامِ تعلیم میں پائی جانے والی خامیاں دُور کرنے کے لیے سطحی اصلاحات کی جائیں، تو وہ محض نمائشی ثابت ہوتی ہیں اوراصل مسائل جُوں کے تُوں رہتے ہیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں گریڈنگ پالیسی کی تبدیلی بظاہر ایک ایسا ہی اقدام ہے۔ 

مذکورہ نئی گریڈنگ پالیسی کا اطلاق رواں برس ہوگا، جس کے تحت طلبہ کو نمبرز اور پوزیشنر کی بجائے گریڈزملیں گے۔ واضح رہے کہ مُلک بَھر میں سندھ دوسرا صوبہ ہے کہ جس نے گریڈنگ پالیسی کی منظوری دی ہے۔ قبل ازیں، بلوچستان اور فیڈرل بورڈ، اسلام آباد گریڈنگ پالیسی کی منظوری دے چُکے ہیں۔ 

تاہم، صوبۂ پنجاب اور صوبۂ خیبرپختون خوا نے تاحال اس پالیسی کو منظور نہیں کیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ نئی پالیسی واقعتاً تعلیمی معیار بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوگی؟ مذکورہ پالیسی کے مطابق طلبہ کی قابلیت مارکس کی بجائے گریڈ پوائنٹ ایوریج (جی پی اے) کے ذریعے پرکھی جائے گی، جس کامقصد طلبہ کو نمبرز کی دوڑ سے نکال کرتعلیمی نظام کی ترقّی کی طرف توجّہ مبذول کروانا ہے۔

پالیسی سازوں کا کہنا ہے کہ گریڈنگ سسٹم سے طلبہ پر امتحانات کا دباؤ کم ہوگا اوران میں منطقی سوچ فروغ پائے گی۔ بظاہر تو یہ ایک مثبت اقدام معلوم ہوتا ہے، لیکن جب تک تعلیمی نظام کو درپیش بنیادی مسائل کا ادراک کرکے اُن کا حل نہیں نکالا جاتا، یہ تبدیلیاں محض نمود ونمائش ہی ثابت ہوں گی۔

اس وقت صوبۂ سندھ کےنظامِ تعلیم کو درپیش اہم مسائل میں نقل، سفارش، غیرمعیاری تدریس و تعلیم اور اساتذہ کی مناسب تربیت کا فقدان شامل ہیں اور یہ مسائل حل کیے بغیر صوبے کا تعلیمی نظام کسی طور بہتر ثابت نہیں ہوسکتا۔ بدقسمتی سے صوبۂ سندھ میں امتحانات کے دوران نقل کا رُجحان اس قدر عام ہو چُکا ہے کہ بیش ترطلبہ نے امتحانات کی تیاری ہی ترک کردی ہے اور یہ منفی رجحان نہ صرف پورے نظام ِ تعلیم کو متاثر کررہا ہے، بلکہ طلبہ کو کُند ذہن بنانے کے ساتھ کام یابی کے لیے ’’شارٹ کٹ‘‘ کےاستعمال کو بھی فروغ دے رہا ہے۔

یاد رہے، جب تک امتحانات میں نقل کے رُجحان کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جاتا، تب تک تعلیمی معیار بلند کرنا ممکن نہیں اور نقل کی روک تھام کے لیے امتحانات میں نگرانی کا مؤثر نظام اور تعلیمی اداروں میں سخت اصول و ضوابط اپنانا ازحد ضروری ہے، کیوں کہ جب طلبہ کو یہ یقین ہو گا کہ بغیرمحنت کےامتحانات میں کام یابی ممکن نہیں، تو تب ہی وہ اپنی تمام تر توانائیاں مثبت سمت استعمال کریں گے۔ 

اِسی طرح ہمیں طلبہ کو یہ بھی باور کروانا ہوگا کہ حصولِ تعلیم کا اصل مقصد امتحانات میں کام یابی یا پوزیشن حاصل کرنے کی بجائے تحصیلِ علم ہے۔ طلبہ کواس بات کا احساس دلانا اساتذہ اور تعلیمی اداروں کی ذمّےداری ہے، جسے عموماً نظر انداز کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، معیارِتعلیم کی بہتری کے لیے اساتذہ کی تربیت تعلیمی نظام کا بنیادی جُزو ہے اور اس سے صرفِ نظرایک بہت بڑی کوتا ہی ہے۔ 

اگر اساتذہ کو جدید تدریسی طریقوں کی مناسب تربیت فراہم نہیں کی جائے گی، تو وہ طلبہ کو مؤثر انداز میں تعلیم دینے کےقابل نہیں ہوں گے۔ اِس ضمن میں اساتذہ کو جدید تدریسی تیکنیکس کو سیکھنے اور اپنانے کا موقع دینا ضروری ہے تاکہ وہ طلبہ کوتعلیمی میدان میں بہترین رہنمائی فراہم کرسکیں۔

جب اساتذہ خُود جدید تدریسی و تحقیقی اصولوں سے واقف ہوں گے، تو تب ہی وہ طلبہ کو محض امتحانات میں کام یابی کی بجائےحصولِ علم کی جانب راغب کرسکیں گے۔ اساتذہ کو یہ تربیت فراہم کرنا حکومت اور متعلقہ تعلیمی اداروں کی ذمّےداری ہے، تاکہ پورے نظام ِتعلیم میں مثبت تبدیلی رُونما ہو۔

معیارِ تعلیم کی بہتری کے لیے معیاری نصاب کی تشکیل بھی بےحد ضروری ہے۔ اگر تعلیمی نصاب میں جدید دَور کے تقاضوں کے عین مطابق مواد شامل نہیں کیا جاتا، تو طلبہ میں تخلیقی و منطقی سوچ پیدا کرنا ممکن نہیں۔ یاد رہے، ترقّی یافتہ ممالک میں تعلیمی نصاب کو اس انداز سے تشکیل دیا جاتا ہے کہ اس سے طلبہ کی تحقیقی و تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا ملتی ہے۔ معیاری تعلیمی نصاب طلبہ کو مختلف موضوعات اور عملی زندگی کے مسائل سے آگاہ کرتا ہے اور اُنہیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی علمی و عملی زندگی میں کام یابی حاصل کرسکیں۔

اس لیے نصاب کوجدید بنیادوں پراستوار کیے بغیر صرف گریڈنگ پالیسی کے نفاذ سے تعلیمی معیار میں بہتری لانا سراب کے سوا کچھ نہیں۔ مزید برآں، سفارش اور اقربا پروری بھی تعلیمی نظام کو نقصان پہنچانے والے عوامل میں شامل ہے۔ طلبہ کو محض نمبرز کی بجائے اُن کی قابلیت، تعلیمی معیار اورمحنت کی بنیاد پر پرکھا جانا چاہیے۔ 

واضح رہے، سفارش اور اقربا پروری سے تعلیمی نظام میں منفی رجحانات پیدا ہوتے ہیں، جو ذہین طلبہ کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتے ہیں۔ اگر طلبہ کو محنت کے ذریعے ترقّی کا موقع نہیں دیا جائے گا، تو اُن میں تعلیمی میدان میں کوشش کرنےکا جذبہ ختم ہوجائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ شفّافیت کو یقینی بنایا جائے اور صرف میرٹ کی بنیاد پر طلبہ کی قابلیت کو جانچا جائے۔

الغرض، نئی گریڈنگ پالیسی کے نفاذ کے باوجود جب تک تعلیمی نظام میں پائے جانے والے مذکورہ بالا بنیادی نقائص دور نہیں کیے جاتے، معیارِ تعلیم میں بہتری نہیں لائی جاسکتی۔ گریڈنگ پالیسی کے مطلوبہ نتائج صرف اُسی صُورت حاصل کیے جاسکتے ہیں کہ جب تعلیمی ادارے، اساتذہ اور والدین طلبہ کی ذہنی نشوونما اور علمی جستجو میں اُن کا ساتھ دیں۔

طلبہ میں حصولِ تعلیم کے اصل مقصد کا شعور پیدا کرنے کے لیے اساتذہ کو بھی اس بات کا احساس دِلانا ضروری ہے کہ وہ طلبہ کو امتحانی نمبرز کے دباؤ سے آزاد کرتے ہوئے اصل تعلیمی مقاصد کی طرف راغب کریں۔ نیز، تعلیمی اداروں کو طلبہ کو بھی ایسا ماحول فراہم کرنا چاہیے کہ جہاں وہ کسی دباؤ کے بغیر جستجوئے علم کر سکیں۔

نظامِ تعلیم میں حقیقی تبدیلی کے لیے اساتذہ کی تربیت، نقل کی روک تھام، معیاری نصاب کی تشکیل اور سفارش و اقربا پروری جیسی علّتوں کے خاتمے پر توجّہ دینا ضروری ہے۔ نیز، تعلیم کے اصل مقصد کو سمجھنا اور اسے طلبہ میں اجاگر کرنا تمام تعلیمی اداروں، اساتذہ اور حکومت کی مشترکہ ذمّے داری ہے۔