• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ نے اردو کا یہ مشہور محاورہ تو سنا ہی ہوگا کہ ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘۔ہمسایہ ملک میں آپریشن سندور کی ناکامی پر پہلے ترکی اور آذربائیجان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی مہم چلائی گئی اور اب راستے میں آنیوالے ہر کھمبے کو نوچ کھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس طرح کے رویئے محض غیر ریاستی عناصر تک محدود نہیں بلکہ حکومتی سطح پر اس طرح کے رجحانات کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ شکست خوردہ بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی لایعنی و مبہم قسم کے بیانات اُگل رہے ہیں۔ یوں تو مودی جی مسلسل کئی ہفتوں سے تند وتیز تقریروں میں پاکستان پر تنقید کرکے خفت مٹانے اور شرمندگی و خجالت کا بوجھ گھٹانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر چند روز قبل راجستھان کے علاقے بکا نیر میں جلسے سے خطاب کے دوران تو انہوں نے ایسی بات کہہ دی جس پر بھارت میں بھی تمسخر اُڑایا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ مودی جی پگلا گئے ہیں۔دراصل مودی نے جوش جذبات میں کہہ دیا کہ میری رگوں میں لہو نہیں گرم سندور دوڑتا ہے۔مرزا غالب ؔنے کہا تھا

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل

جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

مگر مودی جی تو اس شاعرانہ تعلی سے بھی کوسوں آگے نکل گئے ۔سندرو مختلف کیمیائی اجزا سے بنایا جاتا ہے جس میں لیڈ اور مرکیورک سلفائیڈ سمیت کئی دھاتیں شامل ہوتی ہیں۔ اسے محض خواتین کی مانگ بھرنے کیلئے ہی استعمال کیا جاسکتا ہے ورنہ یہ بہت زہریلا اور انسانی صحت کیلئے مضر ہوتا ہے ۔اگر اسے گرم کرلیا جائے تو پگھلا ہوا سیسہ بن جاتا ہے۔ انسان تصور بھی نہیں کرسکتا کہ یہ گرم سیسہ اسکی نسوں میں داخل کردیا جائے ۔پاکستان نے آپریشن سندور کے جواب میں جو کارروائی کی تھی، اسے بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی دیوار کا نام دیا گیا۔ شاید اس آپریشن کے تناظر میں بھارتی وزیراعظم اپنی رگوں میں سیسہ اُتارنے کے خواہاں ہیںیا پھر مودی جی کی اس وارفتگی کا سبب شاید انکی ذاتی محرومیاں ہیں چونکہ زندگی بھر انہیں کسی دوشیزہ کی مانگ میں سندور سجانے کا موقع نہیں ملا اسلئے وہ سندور کو اپنے رگ و پے میں سرایت کرنیکی احمقانہ بات کررہے ہیں لیکن یہ پاگل پن محض مودی جی تک محدود نہیں بلکہ انکے پیروکار بھی یونہی بائولے ہوئے پھرتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا چند روز قبل بھارتی شہر حیدر آباد میں ایک بیکری پر محض اسلئے دھاوا بول دیا گیا تھا کہ اس کا نام کراچی بیکری ہے۔ اسکے برعکس پاکستان کے شہر حیدر آباد میں بمبئی بیکری برسہا برس سے کام رہی ہے۔ کراچی اور دیگر شہروں میں بمبئی بریانی کے نام سے بہت سے کاروبار چل رہے ہیں مگر کبھی کسی نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ ان دکانوں کا نام تبدیل کیا جائے لیکن بھارت میں یہ مہم زور و شور سے جاری ہے اور اب تو مٹھائیوں میں نفرت گھول دی گئی ہے۔راجوں مہاراجوں کے دور سے بنائی جارہی مٹھائیاں جیسا کہ میسور پاک ،آم پاک ،گوند پاک اور موتی پاک کے نام تبدیل کروائے جارہے ہیں کیونکہ انتہا پسندوں کو ان سے مٹھائیوں کے ناموں میںشامل پاک سے پاکستان کا خیال آتا ہے اور یہ خیال آتے ہی رفال طیارے گرنے کا سوچ کر مٹھائیاں کڑوی محسوس ہونے لگتی ہیں۔ان تمام مٹھائیوں کے ناموں میں پاک ہٹا کر شری کا اضافہ کردیا گیا ہے یعنی اب موتی پاک کو موتی شری کہا جائیگا۔ میسور پاک کو میسورشری بلایا جائیگا۔حالانکہ میسور پاک جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ریاست میسورکی مٹھائی ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ 1940ء تک میسور پر حکومت کرنیوالے مہاراجہ نلواڑی کرشنا کے باورچی کاکا سورامڈپا نے نہایت عجلت میں چنے کے آٹے کو گھی اور چینی کے شربت میں ملا کر ایک مٹھائی تیار کی جو مہاراجہ کو بیحد پسند آئی۔جب مہاراجہ نے نام پوچھا تو انکے خانساماں نے کہا، میسور پاکا۔اگرچہ ہندی اور فارسی میں پاک کا لفظ پوتر اورخالص کے تناظر میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن میسور پاک میں مستعمل لفظ پاک دراصل ’’پاکا‘‘سے اخد کیا گیا ہے جو میٹھے کیلئے بروئے کار لایا جاتا ہے ۔مہاراجہ نلواڑی کرشنا کے باورچی مڈپا اکاسورا کی اولادیں آج بھی میسور پاک بنا کر کھلا رہی ہیں۔ جب بھارت میں مٹھائیوں کے نام تبدیل کرنے کی مہم شروع ہوئی تو چند باشعور افراد نے تاریخی تناظر میںیہ سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ مٹھائیوں میں شامل لفظ پاک کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں اور یہ مٹھائیاں تو تقسیم ہندوستا ن سے بہت پہلے بنائی اورکھائی جارہی ہیں مگر دیوانگی کی حدوں کو چھو رہے یہ انتہا پسند کچھ سننے اور سمجھنے کو تیار نہیں۔ بھارت کے انگریزی اخبار ’’The Hindu‘‘کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں تو اس بات پر بھی غور کیا جارہا ہے کہ پانی میں چھلانگ لگاتے وقت ’’چھپاک‘‘ کی جو آواز آتی ہے اسے تبدیل کردیا جائے کیونکہ اس میں بھی ’’پاکـ‘‘ کا لفظ آتا ہے۔بچوں کا بہت من پسند کھیل ہے جس میں کہا جاتا ہے ،ایک مچھلی ،پانی میں گئی ،چھپاک ۔اب بھارتی بچوں کو سکھایا جارہا ہے کہ آپ نے چھپاک نہیں بلکہ چھ شری کہنا ہے ۔اس سے پہلے بھارت میں مغلیہ دور کے نام تبدیل کرنے کی مہم چلائی گئی تھی۔دارالحکومت دہلی میں راشٹر پتی بھون (ایوان صدر)کے تاریخی مغل گارڈن کا نام تبدیل کرکے ’’امرت اددیان‘‘ رکھ دیا گیا۔ یہ مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ تاریخ اور نصاب کی کتابو ں سے ظہیر الدین بابر اور دیگر مغل حکمرانوں کا ذکر نکالا جائے۔ شاید یہ مطالبہ اب مزید زور پکڑ جائے کیونکہ آپریشن بنیان مرصوص کے بعد دنیا بھر میں دو ناموں کی گونج سنائی دے رہی ہے پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر اور ترجمان ایئر وائس مارشل اورنگ زیب۔اس طرح کے بیہودہ اقدامات سے پاکستان کو تو کوئی فرق نہیں پڑنے والا مگر نفرت کابیوپار کرنیوالے بھارتی انتہا پسند اس طرح کی حرکتوں سے اپنے دیش کی سیوا نہیں کررہے۔ نفرت اس مہلک تیزاب کی طرح ہے جسے جس برتن میں رکھا جاتا ہے وہی گل سڑ جاتا ہے۔ آپ اپنے اذہان و قلوب میں یہ جو نفرت پال رہے ہیں ،یہ بھی سب سے زیادہ آپ کو ہی نقصان پہنچائے گی۔

تازہ ترین