• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیر 26مئی کو اخبار جنگ میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور پاکستانی وزیراعظم نوازشریف کی تصویریں شائع ہوئیں، ان تصویروں میں دونوں وزرائے اعظم کے ہاتھ نمایاں ہیں، میں دونوں ہاتھوں کے انداز اور ان ہاتھوں کی لکیروں اور نشانات کو دیکھ کر ماضی میں چلا گیا جب مجھے دست شناسی کے فن سے دلچسپی پیدا ہوئی تھی، میں بیرون ملک جاتا تو کتابوں کی دکانوں سے پامسٹری کے بارے میں کتابیں خرید لاتا، میں نے کیرو سے لے کر فرانسیسی st.germain تک سب کی کتابیں پڑھیں پھر 70 کی دہائی میں لاہور میں پاکستان کے سب سے بڑے دست شناس پروفیسر ایم اے ملک سے بھی ملاقات کی، لندن سے میر بشیر آئے تو ان کے لیکچرز میں شرکت کی۔ لندن کے مائنڈ باڈی اسپرٹ فیسٹیول میں لندن کے سب بڑے پامسٹ رابرٹ لوو کے ورکشاپ میں بھی شرکت کی، ہاتھ کی دنیا کے اس سفر میں مجھے معلوم ہوا کہ ہاتھ ہماری شناخت ہیں، حشر کے دن ہاتھ اور پائوں گواہی دیں گے، ہاتھ آج کی دنیا میں بھی شناخت بن گئے ہیں، کئی ملکوں کے بڑے اداروں میں شناختی کارڈ کے بجائے ہاتھوں کو شناخت کا ذریعہ بنایا گیا ہے، آدمی دروازے کے باہر ایک بورڈ پر ہاتھ رکھتا ہے اور دروازہ کھل جاتا ہے، ہمارے ہاتھوں کی لکیریں ہمارے فکروعمل کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں، ہمارے ہاتھوں میں ایسے نشانات بھی ہیں جو تقدیر ہیں اور ایسے نشانات بھی ہیں جو تدبیر کے ساتھ بنتے اور بگڑتے ہیں۔بات ہورہی تھی نواز شریف اور نریندر مودی کے ہاتھوں کی، ان ہاتھوں میں ہم پہلے دل کی لکیروں کو دیکھیں تو نواز شریف کے دل کی لکیر زحل یعنی دوسری انگلی کے نیچے ختم ہوجاتی ہے اس کا مطلب ہے کہ نواز شریف بہت کم لوگوں کو دوست بناتے ہیں اور لوگوں پر اعتماد بھی کم ہی کرتے ہیں، اس کے برعکس نریندر مودی کے دل کی لکیر پہلی اور دوسری انگلیوں کے درمیان جاتی نظر آتی ہے، اس کا مطلب ہے کہ ایسا شخص بہت سوچ سمجھ کر دوست بناتا ہے اور خوب چھان پھٹک کر ساتھیوں کا انتخابات کرتا ہے۔ دونوں وزرائے اعظم کے ہاتھوں کی ساخت میں انگوٹھے نمایاں ہیں، نواز شریف کے انگوٹھے میں نفاست اور لچک ہے ایسا شخص سخت رویے نہیں رکھتا لیکن نریندر مودی کا انگوٹھا بالکل سیدھا، سخت اور بے لچک ہے ایسا شخص جس بات پر اڑ جائے اس کو کر کے دم لیتا ہے، پامسٹری کی زبان میں یہ قاتل کا انگوٹھا ہے، یہ انگوٹھا ہاتھوں کے انگلیوں سے بہت فاصلے پر الگ اپنی انفرادیت قائم رکھے ہوئے ہے، یعنی اس کا یہ رویہ اس کی پوری زندگی پر حاوی رہتا ہے۔ایک نمایاں فرق دماغ کی لکیروں میں نظر آتا ہے، نریندر مودی کے دماغ کی لکیر زندگی کی لکیر سے الگ ہو کر سفر شروع کرتی ہے دونوں کا آغاز الگ الگ ہے، ایسا شخص صرف اپنی مرضی کے مطابق آزادی سے فیصلے کرتا ہے، وہ جس چیز کو صحیح سمجھتا ہے اسے کرنے میں کسی پابندی کو نہیں مانتا، اس کے برعکس نواز شریف کے دماغ کی لکیر زندگی کی لکیر کے ساتھ مل کر سفر کا آغاز کرتی ہے ایسا شخص روایات کا پابند ہوتا ہے اور زندگی کے اصولوں کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔نواز شریف کے ہاتھ میں مریخ مثبت کا ابھار واضح ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ بہادر آدمی کا ہاتھ ہے، ایسا شخص مضبوط اعصاب کا مالک ہوتا ہے اور مشکل سے مشکل وقت میں بھی بکھرتا نہیں، اس کے برعکس نریندر مودی کے ہاتھ پر مریخ مثبت کا ابھار پست ہے جس کا مطلب ہے کہ ایسا شخص مشکل کے وقت میں بکھر کر پستی کی کسی حد تک بھی جاسکتا ہے۔نواز شریف کی پہلی یعنی مشتری انگلی باریک نازک ہے، یہ حاکمیت کی نشاندہی کرتی ہے لیکن زحل اور شمس کی انگلیاں موٹی اور چوڑی ہیں، اس کا مطلب ہے کہ وہ تقدیر کے دھنی اور مالی مفادات میں کامیاب رہنے والے انسان ہیں، ان کی مشتری کی انگلی کا جھکائو بھی دوسری اور تیسری انگلیوں کی جانب ہے، نریندر مودی کی مشتری کی انگلی خاص موٹی ہے اس کا مطلب ہے ایسا شخص حکم چلانے میں بہت تیز اور اقتدار کو استعمال کرنے میں سیدھا اور صاف ذہن رکھتا ہے۔مجموعی طور پر دونوں ہاتھ کامیاب انسانوں کے ہاتھ ہیں لیکن نواز شریف کا ہاتھ ایک کھلے ذہن اور کھلے دل والے انسان کا ہاتھ ہے اس کے برعکس نریندر مودی کے ہاتھ بلند کرنے میں ایک رخ ہے، وہ ایک کھرے اور صاف دل آدمی کا ہاتھ نہیں اس ہاتھ کے لہرانے میں جو آڑا پن نظر آتا ہے وہ نریندرمودی کی شخصیت کو واضح کرتا ہے، مودی کے مشتری کی انگلی کے نیچے جو لوپ ہے وہ راجہ لوپ کہلاتا ہے اس کو اس لوپ نے ہندوستان کی راج گدی پہنچا دیا ہے لیکن اس کے ہاتھ میں دل اور دماغ کی لکیروں کے درمیان زحل کی انگلی کے نیچے ایک تل ہے جو ان کی زندگی میں کسی گہرے صدمے یا سانحے کی نشاندہی کرتا ہے، ایسے تل غائب بھی ہوجاتے ہیں اور انسان ان کے نقصانات سے بچ جاتا ہے، اگر نریندر مودی اپنے رویے تبدیل کریں گے تو اس تل کے مضر اثرات سے بچ بھی سکتے ہیں۔دست شناسی کے علم کے بارے میں ایک ماہر نے کہا تھا کہ یہ تقدیر کا فسانہ یا پیشگوئیوں کا فن نہیں، یہ اسی طرح ہے جیسے کوئی ڈاکٹر کسی شخص کا ایکسرے لے کر یا خون ٹیسٹ کی رپورٹ دیکھ کر امراض اور اس کے علاج کے بارے میں بات کرتا ہے۔
تازہ ترین