آج کل ملک الزام تراشی کی سونامی سے دوچار ہے اور شاید ہی کوئی ایسی سونامی ہوگی جو خود ہی الزام تراشی کا شکار ہو۔ بہر حال ہمارے ہاں ایسا ہونا کوئی نئی بات نہیں کیونکہ ہماری ملکی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا وقت ہوگا جب ہم پر برا وقت نہ ہو۔ موجودہ حالات میں الزام تراشیوں کو اپنے عروج پر دیکھ کر اپنے تئیںابھی کُڑھ ہی رہا تھا کہ میرے دوست جنرل ہارون پاشا (آئی ایس آئی والے نہیں) کا فون موصول ہوا جنہوں نے اطلاع دی کہ وہ ایک اخبار کی ایک کٹنگ ای میل کر رہے ہیں جس میں ایک کالم نگار نے میرا نام لے کر مجھ سے ’’جنگ‘‘ چھوڑنے اور ’’اس اخبار‘‘ میں کالم لکھنے کی استدعا کی ہے۔ اپنے آپ کو نامور لکھاری سمجھ کر، پھولے نہ سماتے ہوئے اور استدعا کرنے والے کالم نگار کی عمردرازی کی دعا کرتے ہوئے ای میل کھولی تویقین کیجیے کالم پڑھنے کے بعد ای میل کے ساتھ ساتھ آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ گئیں۔مذکورہ کالم کا عنوان’’ مارشل لاء اور مونچھیں ‘‘تھاجس کا خاصا حصہ مجھ سے منسوب تھا۔ اس پر تبصرہ کرنے سے پہلے آپ کے مطالعے کے لئے الزام تراش، معاف کیجیے گا کالم تراش کا میرے بارے میں لکھا ہوا اقتباس پیش کرتا ہوں۔ آپ بھی پڑھ لیجیے تو بات آگے بڑھائوں۔ ’’ہم فوج کی بڑی عزت کرتے ہیں اور خاص طور پر آئی ایس آئی کی، جس کی بیرون ملک خدمات بہت زیادہ ہیں، البتہ ماضی کی کچھ تلخ یادیں بھی اس ادارے سے وابستہ ہیں۔ ہمیں کچھ کچھ یاد پڑتا ہے کہ آئی جے آئی بنانے سے مہران گیٹ سکینڈل تک اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں جناب احتشام ضمیر کے ہاتھوں جمہوریت کی ’’سرمنڈائی‘‘ ہم نے بہت قریب سے دیکھی ہے۔ تعجب ہے کہ جب فوج سے الگ ہوتے ہیںتو جنرل احتشام ضمیر کو ’’ضمیر‘‘ یاد آ جاتا ہے۔(ان کے والد محترم ضمیر جعفری نے زندگی بھر ’’ضمیر حاضر ضمیرغائب‘‘ کے عنوان سے ’’مذکورہ اخبار‘‘ میں کالم لکھا۔ یہاں تک کہ امریکہ گئے تو وہاں سے بھی کالم بھیجتے رہے) احتشام ضمیر صاحب نے کالم لکھنا شروع کیا تواپنے لئے ’’جنگ‘‘ کا انتخاب کیا۔ اب ان کے خیالات بدل چکے ہیں اور وہ ’’جمہوریت نواز‘‘ بن چکے ہیں۔ سبحان اللہ ، ماشااللہ۔ اور شاید سابق کور کمانڈر کراچی جنرل نصیراختر کی طرح ’’امن کی آشا‘‘ کے حامی بھی۔ ہماری ان سے ایک ہی ملاقات ہوئی جب وہ ’’اس اخبار‘‘ کے چیف ایڈیٹر کوبتا رہے تھے کہ زندگی بھر وہ اپنے والد سے کہتے رہے کہ ’’اس اخبار‘‘ کو چھوڑیں’’جنگ‘‘ میں لکھیں، اچھا خاصا ’’معاوضہ‘‘ دلا دوںگا۔ (زور کس پر ہوا، معاوضے پر)مگر ’’اباجی‘‘ آخر وقت تک نہیں مانے‘‘۔
قارئین کرام! کالم نگار کا نام یہاں دوبارہ ظاہر کرنا ضروری نہیں سمجھتا کیونکہ مقصد انکی پذیرائی نہیں بلکہ انکی الزام تراشی کی تُرشی پر روشنی ڈالنا ہے ، جو اتفاقاً میرے آج کے کالم کا عنوان بھی ہے۔ سیاق و سباق سے ہٹ کر کہنا اور حقائق کو آگے پیچھے کرکے لکھنا تو ہمارے معاشرے کی ریت بن چکی ہے۔مگر عجب بات یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنے منفی عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے، دوسرے کو بُرے کے گھر تک پہنچانے کی کوشش توخوب کریں جبکہ انہیںاپنے گھر کا اتا پتا معلوم نہ ہو۔مجھے انکی محترم مدیر اعلیٰ کے ساتھ ہونے والی ملاقات تو خوب یاد ہے البتہ یہ یاد نہیں کہ صاحبِ کالم بھی ساتھ تھے۔ ضرور ہونگے جیسا کہ وہ کہہ رہے ہیں۔ پھر تو انہیں یہ بھی یاد ہونا چاہیے تھا کہ آپ حضرات کس مقصد اورکس کی خواہش کے تحت مجھ سے کہاں ملنے آئے اور اگر نادانستہ طور پر بھول چکے ہوں تو براہ کرم مدیر اعلیٰ سے رجوع کریں۔ موصوف نے کالم نگاری میں میرے والد محترم کو جس بے دردی سے گھسیٹنے کی کوشش کی ہے ، اس پر دکھ تو ضرور ہوا مگر دعا یہی نکلی ’’ خدااس بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟‘‘۔
تعجب کی انتہااس فقرے پر ہوئی کہ سید ضمیر جعفری اپنی تمام زندگی مذکورہ اخبار میں ہی کالم لکھتے رہے۔ یہ جملہ مضحکہ خیز ہے کیونکہ سیدضمیرجعفری نے کالم لکھنا 1950 سے پہلے شروع کر دیا تھا جب اس اخبار کی دور دور تک کوئی خبر نہ تھی۔ انکے’’ دُمدار‘‘ ظرف کا بڑا پن اس وقت نمودار ہوا جب انہوں نے یہ لکھا کہ میں اپنے والد محترم کو معقول معاوضہ دلوانے کے لئے ، زندگی بھر ان سے کہتا رہا کہ وہ جنگ میں لکھیں لیکن اباجی آخری وقت تک نہ مانے۔ واہ جی وا! مجھے تو محترم کی عقل کی تعریف میں لفظ ’’چھوٹا پن‘‘ بھی پہلی بار نہایت چھوٹا محسوس ہوا جنہوں نے یہ تک نہ سوچا کہ میں اپنی عسکری زندگی کے کسی بھی مرحلے میں اپنے والد محترم کو معاوضہ دلانے کا نہ تو اہل تھا اور نہ ہی ادبی دنیا کی الف ب سے واقف تھا۔ کیونکہ سوچ کی کوئی حد نہیں ہوتی شاید اس لئے موصوف نے ’’معاوضے ‘‘ کو میرے آئی ایس آئی کی تعیناتی کے دور سے منسوب کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ گویا جذبات کی رو میں وہ ایسے بہے کہ یہ تک یاد نہ رہا کہ میرے والدصاحب کو اُس وقت دنیا سے رخصت ہوئے تین برس بیت چکے تھے۔
قارئین کرام! کالم پڑھ کر یوں لگا جیسے کوئی’انوکھا لاڈلا کھیلنے کو مانگے چاند‘۔ مگر مَطلَع ابر آلود ہونے کی صورت میں تلملاکر کبھی مارشل لا کو دے آوازیں اور کبھی ’مونچھوں‘ سے جا لٹکے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ’پس آئینہ‘ کے نام سے لکھتے لکھتے ، اس بار موصوف کو مسئلہ کیا تھا؟ انہوں نے ساری گفتگو اس انداز میں پیش کی کہ آئی ایس آئی کا بھی بھر پور ذکر آئے ، امن کی آشا کی بات بھی ہو اور جنگ میں لکھنے کی مذمت بھی ہوجائے۔
قارئین کرام! اپنے اوپر الزام تراشی کا دکھ تو اپنی جگہ ، میں نے یہ تذکرہ بخدا اپنی وضاحت کے لئے نہیں کیابلکہ اس کا حوالہ اس لئے ضروری سمجھاکہ آج کل الزام تراشی کی مہم جوئی نے ہماری قومی ساکھ کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے جس سے طول و عرض میں ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ آخرمیں اپنے محترم قلم کار کا شکرگزار ہوں جنہوں نے میرے کالم کے لئے بر وقت مواد مہیاکیا۔ اللہ ان سمیت ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔