ریاست کے طاقتور بیانیے سے چار ہاتھ آگے نکل کے فرمانِ امروز کو بار بار دہرانے والے خوفزدہ نفسیات کے مریض اور ذاتی عزائم کے اسیر ہوتے ہیں۔ ان کی لغت بدلتے موسموں کے تابع ہوتی ہے۔ انکی یادداشت کا دورانیہ ذاتی مفادات کی نسبت سے بڑھتا گھٹتا رہتا ہے۔ انہیں پاسٹر ناک، سخاروف، کنڈیرا، رابرٹ فسک اور ایڈورڈ سعید کے حوالے دینے کا شوق ہوتا ہے۔ اپنے وطن سے حقیقی محبت بلند آہنگ نعروں کی محتاج نہیں ہوتی۔ اپنے ہم وطنوں پر گزرنے والی مصیبت کو فراموش نہیں کرتی۔ ’منظور شدہ‘ دانشور خرابی کی نشان دہی کرنیوالوں کو ’مایوسی کے ناقابل علاج مریض‘، ناخوش اندیش اور غدار وغیرہ قرار دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں گزشتہ چالیس برس کے دوران کیا قیامتیں گزریں۔ ضیا آمریت عقوبت خانوں اور کوڑوں سے شروع ہوئی۔ ملک کے بہترین بیٹے اور بیٹیاں ریاستی جبر کی سنگین دیوار سے سر ٹکراتے ہوئے اوجھل ہو گئے یا ملک چھوڑ گئے۔ منصب، رسائی اور شہرت کے طلب گار افغان جہاد کے گن گاتے رہے۔ پھر 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات نے ہماری سیاسی ثقافت کی جڑ کاٹ ڈالی۔ اگر انتخابی امیدوار کو سیاسی وابستگی کی اجازت نہیں تو وہ قومی معاملات پر کوئی نقطہ نظر کیسے اختیار کریگا۔ ناگزیر طور پر روپے پیسے، ذات برادری، فرقہ وارانہ عصبیت اور مقامی زور آوری کے بل پر ووٹ مانگے گا۔ ملک کے مہذب ترین اور تعلیمیافتہ شہر کراچی میں لسانی سیاست میں کم و بیش 35ہزار شہری مارے گئے۔ فرقہ واریت کے خاردار جنگلوں میں کم از کم دس ہزار شہری نشانہ باندھ کر ہلاک کیے گئے۔ ووٹ سے قائم ہونیوالے ملک پر اپنی جہالت مسلط کرنے کے آرزو مند ٹولے کی دہشت گردی میں کم از کم 80ہزار شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ذہن سازی کے ذریعے گمراہ کئے گئے ہزاروں نوجوان تاریک راہوں میں مارے گئے۔ اس دوران برباد ہونے والے گھرانوں اور معذور ہونیوالوں کی تعداد کا کوئی تخمینہ نہیں لگایا گیا۔ تزویراتی بساط پر مہروں کی مدد سے ذاتی دولت کے انبار لگانے والے آج بھی اس ملک میں راج ہنس کی طرح اٹھلا رہے ہیں۔ کوئی نہیں کہ انکے منہ میں دانت گنے۔ کوئی قاتل لندن میں بیٹھا ہے، کوئی سوئٹزر لینڈ میں چین کی بنسی بجا رہا ہے۔ کوئی آسٹریلیا یا ملائیشیا میں خریدی جائیدادوں پر کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ کوئی خلیج میں گُل چھرے اڑا رہا ہے۔ اس سے بڑا المیہ یہ کہ ذرائع ابلاغ اور سیاسی مکالمے میں ان حالیہ قیامتوں کا کوئی ذکر نہیں۔
کسی قوم کی تمدنی توانائی کا بنیادی پیمانہ یہ ہے کہ اسکی تاریخی یادداشت کی طیف کتنی وسیع اور واضح ہے۔ ذہنی طور پر کمزور لوگوں کا تجزیہ چند مہینوں، دو چار برس یا آج کی خبروں سے کشید کیا جاتا ہے۔ اہل نظر صدیوں کے نشیب و فراز پر غور کر کے نتائج اخذ کرتے ہیں۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ لمحہ موجود کی تفصیلات سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ اسکے برعکس ان کا تاریخی شعور امروز کی صف بندی میں فردا کا نقشہ دیکھ لیتا ہے۔ دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔ 15جولائی 2015ء کو ترکی میں سیاسی بے چینی کا خفتہ آتش فشاں سڑکوں پر آگیا۔ اسکی تفصیلات چھوڑیے۔ 1973ء میں پیدا ہونیوالی ترک صحافی اور دانشور ایجے تمل کرن(Ece Temelkuran) نے 2019 ء میں ایک کتاب لکھی۔ عنوان تھا ’How To Lose A Country: Seven Steps from Democracy To Dictatorship‘۔نوجوان خاتون نے دائیں بازو کی مقبولیت پسند سیاست کا تجزیہ کر کے اس طریقہ کار کی تفصیل سے وضاحت کی جسکی مدد سے جمہوریت کے نام پر جمہوریت کو دفن کیا جاتا ہے۔ جنوری 2017ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالا تو انکی سیاست کے بنیادی خدوخال واضح تھے لیکن یہ کہ امریکا کے لوگوں نے انہیں ووٹ دیے تھے۔ ٹرمپ سے کوئی تیس لاکھ ووٹ زیادہ لینے والی ہیلری کلنٹن الیکٹورل کالج میں مطلوبہ نشان تک نہ پہنچ سکیں۔ جمہوری فیصلے کے سامنے سر جھکا دیا لیکن ٹرمپ کے طرز سیاست سے اختلاف کرنیوالے خاموش نہیں بیٹھے۔ 2018ء میں ہارورڈ یونیورسٹی کے سیاسیات کے دو اساتذہ Steven Levitsky اور Daniel Ziblatt نے ٹرمپ کی صدارت کو موضوع بناکر ایک کتاب لکھی۔ عنوان تھا ’How Democracies Die‘۔ ٹرمپ کی سیاست اور وسیع تر تناظر میں دائیں بازو کی مقبولیت پسند سیاست پر اب تک درجنوں بلکہ سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن یہ کتاب حوالے کی حیثیت سے برقرار ہے۔ پہلا نکتہ تو وہی ہے جسے برسوں پہلے میرے پختون بزرگ نے ’رینگتی ہوئی آمریت‘ قرار دیا تھا۔ میں استاد محترم کا نام لے کر پیرانہ سالی میں ان کے لیے کوئی مشکل کھڑی نہیں کرنا چاہتا۔ ہارورڈ کے اساتذہ نے اسے ’مرحلہ وار کٹائو‘ کا نام دیا ہے۔ دوسرا قدم سیاسی اقدار کو بے توقیر کرنا ہے۔ تیسرا قدم سیاسی تجزیے کو دھندلانا ہے یعنی سیاسی مکالمے میں لفظوں اور اصطلاحات کے معانی بدل دینا۔ چوتھے قدم میں سیاست سے وضع داری ختم کرنا اور ڈھٹائی سے جھوٹ بولنا ہے۔ اگلے مرحلے میں نظام عدل اور سیاسی بندوبست کی بنیادیں اکھاڑنا ہے۔ اس سے اگلا قدم شہریوں میں ہم اور آپ کی ایسی داخلی لکیر کھینچنا ہے کہ سیاسی اصطلاحات ذاتی دشمنی کی صورت اختیار کر جائیں۔ اس سے اگلا قدم یہ ہے کہ شہریوں کو انسانی آلام سے بے حس کر دیا جائے۔ انکی ذہن سازی میں ایسی فصیلیں کھڑی کر دی جائیں کہ وہ ’دیوار کے پار‘ اپنے جیسے انسانوں کی تکلیف سے بے نیاز ہو جائیں۔ اپنے سیاسی مخالف کو ایک انسان کی بجائے محض ایک ’شے‘ (Dehumanize) میںبدل دیا جائے۔ شہریوں کو عظمت رفتہ کا خواب دکھایا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ چند ’تیرہ بخت‘ مخالفوں کے ہوتے ہوئے ان کے سر پر آگ برساتا سورج ابروباراں کی ٹھنڈک میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔ یہ دشمن ملک کے اندر بھی تخلیق کیا جاتا ہے اور باہر بھی۔ جب یہ عمل مکمل ہوتا ہے تو معاشرہ جنگل میں بدل جاتا ہے اور ملک سے محبت کرنے والے عباس تابش کے اس معروف شعر کی تصویر بن جاتے ہیں ۔
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں