• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز پاکستان بھر میںیوم تکبیر منایا گیا۔ یہ وہ دن ہے جب ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا دیا گیا۔ لیکن ہم اس تاریخ ساز موقع پر بھی سیاسی تعصبات اور پسند ناپسند کو نظرانداز نہ کرسکے۔ پیپلزپارٹی کے جیالے یہ ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے کہ ایٹمی پروگرام ذوالفقار علی بھٹو کی عطا ہے۔ مسلم لیگ(ن)کے متوالے یہ تاثر دیتے دکھائی دیئے کہ ایٹم بم اتفاق فائونڈری میں میاں نوازشریف نے بذات خود تیار کیا جبکہ طفلان انقلاب سارا کریڈٹ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو دیکر باقی سب کو ـ’’اردلی‘‘ کہہ کر دل کی بھڑاس نکالتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی اہمیت کا سمجھا اور پاکستان کا دفاع یقینی بنانے کیلئے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ جنرل ضیاالحق سے ہزار اختلافات کے باوجود یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ انہوں نے جہاد افغانستان کی آڑ میں ایٹمی طاقت کے حصول کا یہ سفر جاری رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صدر غلام اسحاق خان پر منتخب جمہوری حکوتیں برطرف کرنے پر تنقید ضرور کریں مگر ایٹم بم بنانے میں انکی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سمیت بیشمار گمنام سائنسدانوں نے محدود وسائل اور نامساعد حالات کے باوجود اس خواب کو حقیقت میں بدل ڈالا۔ جب محمد خان جونیجو وزیراعظم تھے تو پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا تھا اور جوہری دھماکوں کیلئے مناسب وقت کا انتظار تھا۔ 11مئی1998ء کو جب بھارت نے پوکھران میں جوہری دھماکے کئے تو وزیراعظم نوازشریف قازقستان کے شہر الماتے میں تھے۔ وزیراعظم نے وہیں سے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو ٹیلیفون کر کے کہا کہ بھارت کو جواب دینے کیلئے ایٹمی دھماکوں کی تیاری کریں۔ جنرل جہانگیر کرامت دانشور سپہ سالار تھے، انہوں نے تجویز دی کہ جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں، آپ کی وطن واپسی پر اس فیصلے کے تمام منفی اور مثبت پہلوئوں پر غور کرنے کے بعد کوئی قدم اُٹھایا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ نواز شریف اپنا دورہ مختصر کرکے پاکستان واپس آگئے اور 13مئی کو کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس بلا لیا گیا۔ اس اجلاس میں تینوں سروسز چیفس نے شرکت کی۔ وفاقی وزیر خارجہ گوہر ایوب، وفاقی وزیر خزانہ سرتاج عزیز اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری شجاعت کے علاوہ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے اس اجلاس میں شرکت کی۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق احمد ان دنوں امریکہ میں تھے جنہیں فوری طور پر وطن واپس پہنچنے کا کہہ دیا گیا تھا۔ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت چاہتے تھے کہ سیکرٹری فنانس معین افضل کو اس اجلاس میں بلا کر بریفنگ لی جائے کہ ایٹمی دھماکوں کے ملکی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔ وزیراعظم نے اس سطح کے اجلاس میں سیکرٹری فنانس کو بلانے کی اجازت تو نہ دی البتہ وزیر خزانہ سرتاج عزیز سے ممکنہ صورتحال پر رائے دینے کو کہا گیا۔ سرتاج عزیز ایٹمی دھماکوں کے حق میں نہیں تھے اور ان کا خیال تھا کہ ایٹمی دھماکے کرنے کے بجائے معاشی پیکیج اور قومی سلامتی کے تحفظ کی ضمانت حاصل کی جائے۔ سہیل وڑائچ کی کتاب ’’غدار کون‘‘میں نواز شریف نے دعویٰ کیا ہے کہ دفاعی کمیٹی کے اس اجلاس میں آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت اور نیول چیف ایڈمرل فصیح بُخاری دونوں نے ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کی جبکہ پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل پرویز مہدی قریشی نے ایٹمی دھماکے کرنے کے حق میں رائے دی۔ اس دوران جتنے بھی اجلاس ہوئے انکے شرکا نے اپنی فہم و فراست کے مطابق صدق دل سے جو رائے دی یقیناً وہ کسی بدنیتی پر مبنی نہیں تھی بلکہ اپنے تئیں سب ملکی مفاد کو عزیز تر جانتے ہوئے ہی حمایت یا مخالفت کر رہے تھے۔ جنرل جہانگیر کرامت نے شجاع نواز کی کتاب ’’کراس سورڈز‘‘ میں اپنے موقف کا یہ کہتے ہوئے دفاع کیا کہ وہ چاہتے تھے جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کیا جائے۔ جنرل جہانگیر کرامت کہتے ہیں کہ ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں امریکی قوانین کے تحت پابندیاں لگیں گی یہ بات سب جانتے تھے مگر ہم چاہتے تھے کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد بجٹ میں کسی قسم کی رکاوٹ کے نتیجے میں افواج پاکستان کی آپریشنل استعداد کار میں کمی نہ آئے، بالخصوص کشمیر کاز متاثر نہ ہو۔ ہمیں یہ یقین دہانیاں کروا دی گئیں اور بس یہی ہم چاہتے تھے۔ اگلے روز یعنی 14مئی کو وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا تو یوں لگا جیسے نواز شریف کے گرد ’’امن کی فاختائوں‘‘ کا بسیرا ہے۔ سرتاج عزیز جو وفاقی وزیر خزانہ تھے، انہوں نے اپنی کتاب Between Dreams and Realitiesمیں اس اجلاس کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تین وفاقی وزرا نے Hawkish lineاختیار کی اور کہا کہ فوری طور پر ایٹمی دھماکے کئے جائیں۔ 6وفاقی وزرا نے Doveish lineلی اور یہ موقف اختیار کیا کہ ہمیں ایٹمی دھماکے کرکے عالمی دبائو کا سامنا کرنے کے بجائے بھارت کو سفارتی سطح پر تنہا کرنا چاہئے اور ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے عوض ملنے والے معاشی پیکیج کو قبول کرلینا چاہئے۔ باقی 6وزرا کے بارے میں سرتاج عزیز کا خیال ہے کہ نہ تو انہیں Hawkکہا جاسکتا ہے اور نہ ہی Doveقرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کیلئے سرتاج عزیز نے Hovesکی اصطلاح استعمال کی ہے جسکا مطلب ہے کہ وہ نہ تین میں تھے نہ تیرہ میں۔ اس وقت کے وزیر خارجہ گوہر ایوب نے اپنی کتاب Glimpses into the corridors of powersمیں’’امن کی فاختائوں‘‘کو بے نقاب کیا ہے۔ اُنکا دعویٰ ہے کہ سرتاج عزیز ہی نہیں، چوہدری نثار علی خان، بیگم عابدہ حسین اور مشاہد حسین سید بھی ایٹمی دھماکوں کے مخالف تھے۔ بہرحال بحث و تمحیص کے بعد فیصلے کا اختیار وزیراعظم کو دیدیا گیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ایک طرف بھارتی قیادت کی جانب سے اشتعال انگیز رویہ اختیار کیا جا رہا تھا، ایل کے ایڈوانی اور بھارتی وزیراعظم واجپائی ایٹم بم گرانے کی دھمکیاں دے چکے تھے اور دوسری طرف ایٹمی دھماکے نہ کرنے کیلئے عالمی دبائو بڑھتا جارہا تھا۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے نواز شریف کو پانچ مرتبہ ٹیلیفون کر کے ایٹمی دھماکے نہ کرنے کو کہا اور پانچ ارب ڈالر کی معاشی و فوجی امداد کی پیشکش کی۔ اس پیشکش کو ٹھکرانا آسان نہ تھا کیونکہ معاشی اعتبار سے پاکستان شدید مشکلات کا شکار تھا۔ ایٹمی دھماکوں کی صورت میں نہ صرف معاشی پابندیاں لگتیں بلکہ آئی ایم ایف سے ملنے والا 2ارب ڈالر کا قرضہ بھی منسوخ ہوجاتا جس سے صورتحال مزید بگڑ جاتی۔ امریکی صدر نے پاکستان کو ایٹمی دھماکوں کے ممکنہ نتائج سے آگاہ کرنے کیلئے نائب وزیر خارجہ اسٹروب ٹالبوٹ کو پاکستان بھیجا، جنہوں نے اپنی کتاب Engaging India میں اعتراف کیا ہے کہ حکومت پاکستان نے کسی قسم کا دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا جواب دینے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ 18مئی 1998ء کو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر اشفاق احمد کو ایٹمی دھماکوں کیلئے گرین سگنل دیدیا گیا۔ 28مئی 1998ء کو دوپہر تین بجکر سولہ منٹ پر چاغی کے پہاڑوں سے تکبیر کی صدا گونجی اور پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا۔ وزیراعظم نوازشریف نے 28مئی کو یوم تکبیر کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران ہمیں اندازہ ہوا کہ ایٹم بم کاحصول ناگزیر تھا اسی لئے یوم تکبیر کو بھرپور انداز میں منایا گیا مگر فراخدلی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سب افراد کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہئے جنہوں نے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنایا۔

تازہ ترین