پاکستان کے نئے مالی سال کا وفاقی بجٹ دس جون کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کیلئے حکومتی تیاریاں حتمی مراحل میں داخل ہوگئی ہیںاور ہر سال کی طرح کچھ حلقوں کی جانب سے دفاعی بجٹ پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، کچھ تجزیہ نگار معاشی صورتحال، بیرونی قرضوں اور سماجی شعبوں کی زبوں حالی کو جواز بناتے ہوئے دفاع کیلئے مختص بجٹ پر سوالات اُٹھا رہے ہیں۔کیا ہمیں دفاع کیلئے مختص رقم میں کٹوتی کرتے ہوئے قومی بجٹ تشکیل دینا چاہیے؟ اس سوال کا جواب کھوجنے کیلئے ہمیں تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنا ہوگا۔ زمانہ قدیم کی سپر پاور رومن سلطنت معاشی طور پر بہت مستحکم تھی لیکن اپنی دفاعی صلاحیتوں میں کمی کے باعث آخرکار زوال پذیر ہوگئی۔ ایک زمانے میں عباسی خلافت کا دارالحکومت بغداد علم و ہنر کا گہوارا تھا جسے تعلیم، تجارت، سائنس اور ثقافت کے عالمی مرکزکی حیثیت حاصل تھی لیکن وہ منگولوں کے ہاتھوں تباہی سے دوچار ہوگیا۔ چین میں ژونگ بادشاہت کے دور میں کاغذی کرنسی متعارف ہوئی، اس زمانے میں چین اپنی معاشی طاقت اور سفارتی تعلقات کے بل بوتے پر زراعت اور صنعت میں عالمی لیڈر سمجھا جاتا تھا،تاہم غیرملکی جارحیت کا مقابلہ نہ کرنے کے باعث ژونگ بادشاہت کا چین سے خاتمہ ہوگیا۔ موجودہ اٹلی کے شہر وینس کو ماضی میں بحیرہ روم کی سب سے بڑی تجارتی قوت سمجھا جاتا تھا لیکن کمزور دفاع کے باعث نپولین بوناپارٹ کی زیرقیادت فرانسیسی فوج نے اسے فتح کرلیا۔ مغلوں کے دورِ اقتدار میں ہندوستان کو اپنی ترقی و خوشحالی کے باعث سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا،مغل بادشاہوں کی شان و شوکت کا مقابلہ کرنے سے دنیا کی ہر سلطنت قاصر تھی لیکن پھر تاریخ بتلاتی ہے کہ ترقی و خوشحالی میں سب سے آگے مغل جدید دفاعی صلاحیتوں میں پیچھے رہ جانے کے باعث سات سمندر پار سے آئےانگریزوں کے ہاتھوں اپنا تخت و تاج گنوابیٹھے اورہندوستان اگلے دوسو سال تک غلامی کی بیڑیوں میں جکڑ دیا گیا۔صدیوں تک تین براعظموںمیں حکومت کرنے والی سلطنتِ عثمانیہ پہلی جنگ عظیم میں شکست کھاکر صفحہ ہستی سے مِٹ گئی ۔ رواں ماہ پاک بھارت سرحدوں پر رونماء ہونے والے تصادم کے دوران ساری دنیا نے اس حقیقت کا ادراک کیا کہ بہترین پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی حامل افواجِ پاکستان نےجدید ہتھیاروں، تکنیکی مہارت اور موثر فیصلہ سازی کی بدولت ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بناڈالا۔آج عصرِ حاضر میں دفاعی شعبے کی قومی سلامتی، وقار،جغرافیائی استحکام اورمعاشی ترقی و خوشحالی کیلئے کلیدی کردار کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ برس 2024ءمیں دنیا بھر کےعالمی دفاعی اخراجات کا مجموعی حجم 2.718 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ گیا، عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ امریکہ اور سویت یونین کے مابین سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سب سے بڑا سالانہ اضافہ ہے،سپرپاور امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ دفاع پر خرچ کرنے والا ملک ہےجس نے997 بلین ڈالرز کی خطیر رقم جنگی اخراجات کیلئے مختص کی جبکہ دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت چین کےدفاعی اخراجات 314 بلین ڈالرز ہےجس میں تیزی سے اضافہ جاری ہے، روس یوکرین کے ساتھ جاری عسکری تنازع کے باعث اپنا دفاعی بجٹ149 بلین ڈالرز تک لے گیا، اسرائیل کا دفاعی بجٹ 46.5 بلین ڈالر جبکہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت86.1 بلین ڈالرزمختص کرکے جنوبی ایشیامیں سب سے زیادہ مالیت کا دفاعی بجٹ کا حامل ہے، پاکستان کا دفاعی بجٹ صرف 10.2بلین ڈالرز تک ہی محدود رہ سکاجو عالمی دفاعی اخراجات کا لگ بھگ 0.4فیصد ہے۔دفاعی بجٹ میں پاکستان سے کہیں زیادہ اربوں کی خطیر رقم مختص کرنے والے نمایاں ممالک میں آسٹریلیا، جنوبی کوریا، جرمنی، جاپان، سعودی عرب، فرانس اور برطانیہ وغیرہ شامل ہیں، اسی طرح نیٹو ممالک اپنے جی ڈی پی کا کم از کم دو فیصد دفاع پر خرچ کرنے کے پابند ہیں،تاہم مذکورہ ممالک دفاعی اخراجات میں اضافے کا مقصد جنگ نہیں بلکہ جنگ سے بچاؤبتاتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ زمانہ قدیم سے لیکر دورِ جدید تک کسی بھی خودمختار ملک کی سلامتی کا دارومدار اسکی مضبوط دفاعی صلاحیتوں پر ہوتا ہے،عالمی و علاقائی سطح پر کسی بھی ملک کی عسکری صلاحیت اسکے اثر و رسوخ کا تعین کرتی ہے، مضبوط دفاعی طاقت رکھنے والے ممالک کے موقف کو ہمیشہ سے اہمیت دی جاتی ہے اور وہ عالمی اتحادوں، امن مشن اور انسانی ہمدردی کی مہمات میں قائدانہ کردار ادا کرنےکی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ آج ہماری صفوں میں موجود کچھ عاقبت نا اندیش عناصر دفاعی بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ پاکستان کو روزِ اول سے سرحدی کشیدگی کا سامنا ہے ،پاکستان کے باسیوں پر آزادی کے فوراََ بعد جنگ مسلط کردی گئی ،ہم پر1965 میںرات کی تاریکی میں حملہ ہوا ،1971 میں ہمارا مشرقی حصہ الگ کردیا گیاگیا، مئی 1998 میں ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم ظاہر کیے گئے، پلوامہ اورپہل گام حملے کی آڑ میں ہماری قومی خودمختاری کو نشانہ بنانے کی جسارت کی گئی۔میرا دفاعی بجٹ پر تنقید کرنے والوں سے سوال ہے کہ اگر پاکستان خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھتے ہوئے جوہری طاقت، جدید میزائل ،جنگی جہازوں اور عسکری تکنیکی قوت کا موثر توڑ نہ کرتا تو ہماری قومی بقاء و خودمختاری کب تک قائم رہتی؟میں سمجھتا ہوں کہ آج ہماری بھرپورعسکری قوت کا خوف ہی ہمارے پڑوسی کومکمل جنگ مسلط کرنے سے باز رکھے ہوئے ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جدید ہتھیار، جنگی جہاز، جوہری صلاحیت اورمیزائل ڈیفنس سسٹمز میں مسلسل سرمایہ کاری جاری رکھیں بلکہ ہمیں اپنے دفاعی بجٹ کا بڑا حصہ سائبر کمانڈز، خلائی فورسز اور مصنوعی ذہانت کے جدید میدانِ جنگ کیلئے بھی مختص کرنا چاہیے، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ دفاعی شعبہ صرف سیکورٹی ہی نہیں بلکہ ملکی معیشت کی ترقی اور سفارتی تعلقات کی بہتری کا ذریعہ بھی ہے اوردفاع میں سرمایہ کاری کا فائدہ کسی ایک مخصوص ادارے کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو ہوتا ہے۔ میری نظر میں مضبوط افواجِ پاکستان کی بدولت ہی پاکستان امن کا گہوارا بن سکتا ہے،ہم اپنے ہمارے پیارے وطن کا دفاع ناقابلِ تسخیر بناکر نہ صرف قومی ترقی ، اقتصادی خوشحالی اور سفارتی میدان میں کامیابیاں اپنے نام کرسکتے ہیں بلکہ پاکستان قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز پر قابو پاکرعالمی امن کے قیام کیلئے بھی قائدانہ کردار ادا کرسکتا ہے۔ پاکستان ہمیشہ زندہ باد۔۔۔!