افغان طالبان کے کمانڈر سعید اللہ سعید نے بدھ کے روز کابل میں پولیس اہلکاروں کی پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب میں فتنتہ الخوارج کیلئے جو واضح اور دوٹوک انتباہ جاری کیا، اسے افغانستان اور پاکستان ہی نہیں پورے خطے کے امن ، استحکام اور ترقی کے حوالے سے اہم پیش رفت کہا جاسکتا ہے۔ افغان کمانڈر نے واضح کیا کہ امیر کے حکم کیخلاف کسی بھی ملک، بالخصوص پاکستان میں لڑنا جائز نہیں، اس عمل کو فساد تصور کیا جائے گا۔ برسراقتدار عبوری حکومت کے اہم عسکری عہدیدار کا کہنا تھا کہ مختلف گروہوں میں شامل ہوکر بیرون ملک جہاد کرنے والے حقیقی مجاہد نہیں۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ حملے کرنے والے افراد کو مجاہد کہنا غلط ہے ، جہاد کا اعلان کرنا یا اجازت دینا صرف ریاستی امیر کا اختیار ہے ، کسی گروہ یا فرد کا نہیں، اگر ریاستی قیادت پاکستان نہ جانے کا حکم دے چکی ہے تو اسکے باوجود وہاں جانا نافرمانی تصور کیا جائے گا۔بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستی قیادت اس باب میں حکم جاری کرچکی ہے جس پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے گا۔ کمانڈر سعید اللہ سعید کے بموجب اپنی انا یا گروہ کی وابستگی کی بنیاد پر کیا گیا جہاد شریعت کے مطابق فساد تصور کیا جائے گا۔ دفاعی مبصرین مذکورہ انتباہ کو پاکستان کے داخلی سلامتی، قومی بیانیے اور عالمی سطح پر سفارتی موقف کو مضبوط بنانے کے ذریعے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان وہ ملک ہے جو افغانستان سے محبت اور افغان عوام سے یکجہتی کا کھل کر اظہار کرنے کے نتائج دو جنگوں کے اثرات کی صورت میں برداشت کرچکا ہے۔ پہلی بار سودیت یونین کی مسلح مداخلت کے بعد افغان عوام کی مزاحمتی تحریک اور پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کے سرحد پار آنے کی صورت میں جو کیفیت نمایاں ہوئی اس میں اسلام آباد کو افغانوں سے یکجہتی کی سزا کئی حوالوں اور زائویوں سے ملی۔ دوسری بار نائن الیون کے واقعہ کی بنیاد پر امریکہ کی جنگی کارروائی اور واشنگٹن کی کی زیر قیادت نیٹو افواج کے افغانستان پر تسلط سے پیدا ہونے بحران کے جھٹکے تھے جن سے مہاجرین کی نئی آمد سمیت کئی معاشی، سماجی اور بین الاقوامی نوعیت کے مسائل ابھرے ۔ پاکستان کی سہولت کاری میں دوحہ مذاکرات اور بالآخر واشنگٹن طالبان معاہدے کی صورت میں یہ مسئلہ نمٹ گیا۔ غیر ملکی افواج کی بحفاظت واپسی اور افغان طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کو خطے میں امن و استحکام کے نئے دور کے آغاز کے طور پر دیکھا گیا مگر افغان بحران کے دوران نئی دہلی کی حکومت اپنے متعدد قونصل خانوں کو پاکستان میں باہر اور اندر سے دہشت گردی کے نیٹ ورک منظم کرنے کے لئے استعمال کرکے جو پراکسی وار مسلط کرچکی تھی اس نتیجے میں وطن عزیز کو 90ہزار افراد کی جانوں کے اتلاف سمیت وہ نقصانات برداشت کرنا پڑے جن کی تفصیل طویل ہے۔تحریک طالبان پاکستان، داعش سمیت افغا نستان میں موجود اور وہاں سے دراندازی کرنے والے گروپ پاکستان سمیت خطے کے ممالک کے لئے ہی نہیں، خود افغانستان کے امن و استحکام کے لئے بھی خطرہ ہیں۔ افغان کمانڈر کے بدھ روز سامنے آنے والے اعلان سے قبل یہ خبر آچکی ہے کہ افغان وزیر خارجہ کی چین میں پاکستانی وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی ہے جبکہ بیجنگ، اسلام آباد ، کابل سہ فریقی کانفرنس کے فیصلے کے بموجب سی پیک منصوبے میں افغانستان بھی شامل ہے۔ پاکستان میں کئی ماہ سے دہشت گردوں کے خلاف جاری سخت آپریشن کے بھرپور نتائج بھی اس عرصے میں نمایاں ہوئے۔ جولائی کے مہینے میں کابل میں متوقع پاکستان، چین، افغانستان سہ فریقی کانفرنس کے تناظر میں پڑوسی ملک کی جانب سے آنے والے اشارے اسلام آباد اور کابل سمیت پورے خطے کیلئے اچھے دنوں کی امید ہیں۔ ان کا سب کو خیرمقدم کرنا چاہئے۔