پنجاب کی مٹی میں جو ساز دفن ہیں، وہ شاید اب سانس لینا بھول چکے ہیں۔ یہاں کبھی لفظ کا جادو ہوا کرتا تھا، یہاں گیت صرف سروں میں نہیں، جسموں میں اُترتے تھے۔ یہاں رقص، عبادت کی طرح کیا جاتا تھا۔مٹی کے ساتھ، ہوا کے ساتھ، پیڑوں کے سایوں کے ساتھ، اور محبت کے لہجوں میں لپٹے خوابوں کے ساتھ۔ مگر اب وہ رقص قفس میں ہے۔ اسکے پاؤں پر قانون کی زنجیر ہے، اسکے چہرے پر تہذیب کی پٹی بندھی ہےاور اسکی سانس پر مصلحت کا بوجھ ہے۔ پنجاب، تمہارے تھیٹر کی ٹوٹی ہوئی چوڑیاں سڑکوں پر بکھری پڑی ہیں۔لوگ کہتے ہیں، یہ فحاشی ہے۔ میں پوچھتا ہوں، کون سی فحاشی؟ وہ جو دل کی درزوں میں خوشبو بن کر اترتی ہے؟ یا وہ جو اقتدار کے کمروں میں فیصلوں کے نام پر تخلیق کے حلق پر چھری رکھ دیتی ہے؟۔ رقص، صرف اعضا کی شاعری نہیں، عورت کی صدیوں پرانی اداہے، مرد کی تھکی ہڈیوں میں زندگی کا نغمہ ہے، مظلوم کی خاموش چیخ ہے، جسے جسم کی تھرتھراہٹ سے آواز دی جاتی ہے۔ مولائے روم کہتے ہیں :رقص وہ زبان ہے جسے دل بولتا ہے، اور جسم اس کی تفسیر کرتا ہے۔آ کہ ہم رقص کریں اور آسمان کو چھو لیں،رقص کے بغیر زندگی صرف خاک ہے۔
افسوس کہ وہ رقص اب مجرم ہے۔ اس پر مقدمے ہیں، اسکے بینر پھاڑ دئیے گئے، اسکے فنکاروں کو دیواروں سے لگا دیا گیا، انکے نام ناپاک کہے گئے، ان کی ہنسی کو بے حیائی کا نام دے کر سولی چڑھایا گیا۔ یہ کون لوگ ہیں جو فن کی دھڑکن کو سیاست کی لاٹھی سے ناپتے ہیں؟ جنہوں نے حسن کو جرم سمجھا، بدن کے اظہار پر قدغنیں لگا دیں۔پنجاب کے تھیٹر کی وہ روشنیاں جو کبھی آنکھوں میں خواب بھرتی تھیں، اب وہ پولیس کی وردی کے سائے میں لرزتی ہیں۔ ہال کے اندر جہاں تالیاں گونجتی تھیں، اب خامشی نے ڈیرہ ڈال لیا ہے۔ فنکارہ کے پاؤں میں اب گھنگھرو نہیں، خوف ہے۔ اسکے چہرے پر مسکراہٹ نہیں، احتیاط کا پردہ ہے۔ اس کی ہنسی اب لمحاتی نہیں، سوچے سمجھے جملوں میں قید ہے۔ایک شاعر نے کہا تھا کہ جس معاشرے میں فنکار خاموش ہو جائے، وہاں قبرستان بولتے ہیں۔ اور میں آج دیکھتا ہوں، میرے شہر کے تھیٹر اب قبرستان ہیںان میں لفظ دفن ہیں، آہنگ دفن ہے، اور رقص کی سسکی دب گئی ہے۔ جو دھڑکن کبھی پوری قوم کو جگاتی تھی، اب وہ خود اپنی نیند سے نہ اٹھ سکے گی۔
یہ جو ’’اخلاقیات‘‘ کے سپاہی ہیں، وہ نہیں جانتے کہ رقص ایک عورت کا وہ احتجاج ہے جو کسی عدالت میں درج نہیں ہوتا، جو کسی قانون کی شق میں محفوظ نہیں، مگر جو صدیوں سے گواہی دیتا آیا ہے کہ جسم بھی ایک زبان ہے، اور کبھی کبھی یہی زبان سب سے سچی ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ جسم کی نمائش ہے، میں کہتا ہوں یہ روح کا بیان ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ شرمناک ہے، میں کہتا ہوں یہ دیکھنے والے پر منحصر ہے۔ میرے نزدیک تو وہ ایک مقدس لمحہ ہے جہاں انسان خود کو بھول کر کائنات کا حصہ بن جاتا ہے۔ حکومت کی دیوارپر ایک قانون لکھا ہے: ’’فحاشی کے خلاف کریک ڈاؤن‘‘۔ میں اس دیوار کے نیچے کھڑا ہو کر چیختا ہوں:’’یہ فحاشی نہیں، یہ فن ہے!‘‘۔ اور اگر تم فن سے ڈرتے ہو، تو شاید تم خود فحاشی ہواس بے حس نظام کی، اس مردہ ضمیر کی، جو تخلیق سے خائف ہو، اور محبت سے خوفزدہ۔ یاد رکھو، ایک معاشرہ جب فن کے خلاف اعلانِ جنگ کرتا ہے، تو وہ دراصل اپنے خوابوں کیخلاف خنجر اٹھاتا ہے۔ وہ قومیں جو اپنے رقاصوں کو مجرم بناتی ہیں، انکے بچوں کے جھولے خالی رہ جاتے ہیں، ان کے گیتوں سے لفظ بھاگ جاتے ہیں، اور انکے چہرے لفظ ’’ثقافت‘‘ کو پہچاننا بھول جاتے ہیں۔
بالی جٹی نے کہا تھا کہ ’’میں جب مروں تو مجھے، موسیقی اور رقص کے ساتھ دفن کرنا مگر ابھی زندہ ہوں۔ ابھی صرف یہ مانگتی ہوں کہ جینے دو، سُر میں، گیت میں، بدن کی حرکت میں، محبت کی بازگشت میں سانس لینے دو ‘‘۔دوستو رقص کو مت بند کرو، دھڑکنوں کو روکنے سے موت واقع ہو جاتی ہے اور اب تو بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ گیا ہے۔ فحاشی اب کسی اسٹیج کی اوٹ سے نہیں جھانکتی، نہ وہ کسی گھنگھرو کی جھنکار میں چھپی ہے، نہ وہ کسی تھیٹر کے پردے میں۔ اب وہ ہر ہاتھ میں ہے ایک چمکتا ہوا مستطیل آئینہ جو ہماری آنکھوں کے سامنے، ہماری روح کے پیچھے، ہر وقت روشن ہے۔ موبائل کی اس خاموش اسکرین پر جو بٹن دباؤ، وہاں بدن عریا ںکھڑا ہے بے شرمی کے ہزار چہرے لیے، ہنستے، لبھاتے، بگاڑتے۔ اب فحاشی وہ عکس ہے جو بچے کے نرم ذہن میں بے دردی سے ٹھونس دیا گیا ہے، جو عورت کے وقار پر طنز بن کے گرتا ہے، جو نوجوان کے خوابوں کو لہو رنگ کر دیتا ہے۔ اب یہ کوئی پردہ نہیں جسے چاک کیا جائے، یہ تو ہوا ہے جو ہر سانس کے ساتھ اندر اترتی ہے، اور اندر سے ہمیں بدل دیتی ہے۔ فحاشی اب وہ گالی ہے جو سستی شہوت نے تہذیب کے چہرے پر لکھ دی ہے، اور حیرت ہے کہ ہم ابھی تک رقص کے خلاف فتوے لکھ رہے ہیں۔ زمانہ بدل چکا ہےسو اب چادر نہیں، آنکھوں کو اوڑھنی چاہیے۔ پردے جسموں پر نہیں، اس برہنہ وقت کی سوچ پر پڑنے چاہئیں۔ آگے بڑھو، اور پہلے دل کی اسکرین صاف کرو، تب ہی کوئی مہذب دنیا ممکن ہے۔