السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
تین خطوط کا ’’اچار‘‘
سنڈے میگزین ایک ہی نشست میں ساراپڑھ ڈالا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ سب سے زیادہ پسندیدہ سلسلہ ہے۔ ’’سینٹراسپریڈ‘‘ پر آپ کی تحریر نہ دیکھ کر تشنگی سی محسوس ہوئی۔ اگلے جریدے کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں پسندیدہ لکھاری منور مرزا موجود تھے۔ ہم اُن کا ہر مضمون بہت ہی شوق و دل جمعی سے پڑھتے ہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کو ڈیڑھ صفحے سے زیادہ جگہ دی گئی، دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ نے شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی کے تین خطوط کا اچھا اچار بنایا۔
تیسرے جریدے نے عید کی چُھٹیوں کا مزہ دوبالا کردیا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر آپ کی تحریر پڑھنے کو ملی، کافی باریک فونٹ تھا، پڑھنے میں دشواری ہوئی، لیکن رائٹ اَپ بہت خُوب صُورت تھا۔ سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ منور مرزا کا صفحہ کبھی ڈراپ نہیں ہوتا۔
ویسے یہ صفحہ جریدے کی جان ہے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ بہت اچھے انداز سے مرتّب ہوا اور ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں بھی اچھے پیغامات پڑھنے کو ملے۔ پروفیسر سیّد منصور علی خان کے پیغام سے اُن کی خیریت سے بھی آگہی مل گئی۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: چوں کہ صفحات کی تعداد بہت محدود ہے، تو کبھی کبھی فونٹ کا سائز کم کرنا پڑجاتا ہے۔ ہمیں خُود بھی قارئین کی پریشانی کا اندازہ ہے، لیکن اِس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں اور ہاں، آپ کو اپنا یہ ’’تین خطوط کا مُربّا‘‘ کیسا لگا، اگلے خط میں ضرور بتائیے گا۔
لڑکیاں بالیاں کیوں؟
’’اسٹائل‘‘ کی تحریر شعر و شاعری کا ملغوبا معلوم ہوتی ہے۔ براہِ مہربانی تحریر میں شعر و شاعری سے گریز کیا کریں اور یہ جو آپ اکثر ’’لڑکیاں بالیاں‘‘ لکھتی ہیں، تو بالیاں تو کانوں میں پہنی جاتی ہیں، لہذا صرف لفظ ’’لڑکیاں‘‘ استعمال کیا کریں، اور شہباز شریف سے کہیں کہ کراچی کی سڑکوں پر توجّہ دیں۔ منگھو پیر روڈ کا بُراحال ہے۔ پہاڑیاں، جھاڑیاں، جھیلیں، کیچڑ سب منگھو پیر روڈ پر موجود ہے۔ نیز، منگھو پیر کے گرم چشمے کے سرکاری اسکول پر بھی کچھ توجّہ دیں۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج: ہم لڑکیاں بالیاں ہی نہیں، لڑکے بالے بھی لکھتے ہیں اور آپ سمجھیں، یہ وہ لکڑی کے بالے ہیں، جو پرانےگھروں کی چھتوں پر گارڈر کے ساتھ استعمال ہوتے تھے اور گُھن لگنے سے سَروں پر بھی آ گرتے تھے۔ کوئی ایک آدھ ٹھیک نشانے پہ لگا ہوتا، تو شاید آج آپ کا دماغ بھی ٹھکانے پر ہوتا۔
فارمیٹ میں ڈھال کر
دسمبر2023ء میں اپنے استاد اور جمعیت دہلی صدیقی برادری کے سماجی رہنما، شکیل احمد سے گفتگو پر مبنی ایک تحریری مسوّدہ آپ کی خدمت میں ارسال کیا تھا، جس کے جواب میں آپ نے سنڈے میگزین کی 26 مئی 2024ء کی اشاعت میں تحریر فرمایا کہ ’’اپنے طور پر کیے گئے انٹرویوز کی اشاعت ہماری پالیسی کے خلاف ہے۔
ہم اِس انٹرویو کو ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے فارمیٹ میں ڈھال کر شائع کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘ لیکن طویل عرصہ گزر جانے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ انٹرویو کہیں اِدھر اُدھر ہی ہوگیا ہے۔ ریکارڈڈ گفتگو اور اپنی یادداشت پر زور دیتے ہوئے ایک بار پھر اپنے استاد کی خدمات پر ایک طائرانہ نظر ڈالی ہے۔ اُمید ہے، اِس بار اناڑی لکھاری کی حوصلہ افزائی فرمائیں گی۔ (ڈاکٹر محمّد ارشد شمسی، کینیڈا)
ج: آپ کی سابقہ تحریر کہیں اِدھراُدھر نہیں ہوئی تھی، ہر ممکنہ کوشش کے باوجود فارمیٹ پر نہیں ڈھل سکی تھی۔ نیز، تحریر سے متعلق کچھ تحفظات بھی تھے۔ حتٰی کہ آپ کی اس تحریر کو بھی ٹریک پر لانے کے لیے ’’محنتِ شاقہ‘‘ درکار ہے۔ ہمیں تو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جولوگ سنڈے میگزین میں تحریروں کی اشاعت کےخواہش مند ہیں، آخروہ ہمارا فارمیٹ کیوں فالو نہیں کرتے۔ تحریر کا معیار اعلیٰ نہ بھی ہو، کم از کم درست فارمیٹ تو اختیار کیا جا ہی سکتا ہے۔
بدیس کی خاک
اس بار بھی ہمیشہ کی طرح دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘کے متبرک صفحات موجود تھے۔ پہلا شمارہ تو ’’عید نمبر‘‘ تھا۔ ’’تارکینِ وطن کی عید‘‘پڑھا۔ اپنوں سے دُور عید منانے والوں کی تعداد میں اس لیے اضافہ ہورہا ہے کہ پاکستان میں بے روزگاری بہت بڑھ گئی ہے۔ اگر مُلک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوجائیں، تو لوگ بھلا اپنے پیاروں کو چھوڑ کے بدیس کی خاک کیوں چھانتے پھریں۔ ’’خُودنوشت‘‘ کی تو کیا ہی بات ہے۔’’عید یا آن لائن ایونٹ؟‘‘ عمدہ مضمون تھا۔
بلاشبہ، سوشل میڈیا نے اپنوں کا لمس چھین لیا ہے۔ ہلالِ عید محبّت سے مسکراتا ہے۔ ’’اسٹائل‘‘ میں آپ کا رائٹ اَپ ’’ہیں دھنک رنگ سی لڑکیاں عید پر … جیسے اُڑتی ہوئی تتلیاں عید پر‘‘ پڑھ کے بہت لُطف آیا۔ ہار سنگھار کرتی لڑکیاں بھی مَن کو خُوب بھائیں۔ ’’پیارا وطن‘‘ میں اس بار کنول بہزاد نے بابا بھلے شاہ کی نگری، قصور کی سیر کروائی۔
ناچیز کا عید پیغام اور خط شائع کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ ’’شیخ احمد یاسین شہید، حماس اور غزہ‘‘ بے حد معلوماتی تحریر تھی۔ مضمون ’’ماحولیاتی بحران اور دینی تعلیم‘‘، بلوچستان بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈٹریڈ کے بلال خان کاکڑ کا ’’انٹرویو‘‘ زبردست تھا۔
کاکڑ صاحب نے درست فرمایا کہ نوجوانوں کو روزگار کے ذریعے ہی تخریب کاری کا ایندھن بننے سے روکا جاسکتا ہے۔ حکومتِ وقت کو اس جانب ضرور توجّہ دینی چاہیے۔ امریکی ویزے کا حصول مزید مشکل ہوگیا ہے۔ دیکھتے ہیں، ٹرمپ کی پالیسیاں مزید کیا کیا گُل کھلاتی ہیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادرشاہ بازار، بہاول نگر)
ج: بدیس کی خاک چھاننے کے ضمن میں بڑھتی بےروزگاری کے علاوہ بڑھتی لالچ کا بھی بڑاعمل دخل ہے۔ ہمارے یہاں ہر دوسرے شخص کو راتوں رات امیر ہونا ہے اور اس کی ایک ہی راہ سُجھائی دیتی ہےکہ پردیس جا کے قسمت آزمائی جائے، حالاں کہ جس قدر محنت و مشقّت، تگ ودو وہاں جا کے کی جاتی ہے، یہاں کرلی جائے، تو یہاں بھی قسمت چمک سکتی ہے۔
خُود تسلیم کرلیا
شمارہ ہمارے سامنے ہے، رائے حاضر ہے ’’سرچشمۂ ہدایت ‘‘ میں مولانا زبیر احمد صدیقی نے وراثت کی تقسیم کے موضو ع پر شان دار مضمون تحریرکیا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘میں منیر احمد خلیلی کچھ اور حقائق سے پردے اُٹھا رہے تھے۔ ’’حالات و واقعات‘‘میں منور مرزا نے امریکا کے حالات پر ہرطرح سے روشنی ڈالی۔ کرن عباس کرن کے افسانے نے بہت افسردہ کر دیا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں میرا خط شامل نہیں تھا۔
کوئی بات نہیں، اگلے شمارے میں شامل ہوجائے گا، البتہ خادم ملک عرف بےکار ملک کا خط جگمگا رہا تھا، جس سے پورا شمارہ روشن معلوم ہوا۔ اب تو اُنہوں نے خود ہی کہہ دیا ہے ہماری اونگی بونگی باتوں کو زیادہ سیریس نہ لیا کریں۔ اگلے شمارے میں منیر احمد خلیلی نے کچھ اہم حقائق سے پردہ اُٹھایا، مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ رؤف ظفر نے پاکستانی بہن بھائی کی خون سے لکھی احتجاجی تحریک کو ایک منفرد تحریک قراردیا، واقعتاً اس کی مثال نہیں ملتی۔
’’فیچر‘‘میں منور راجپوت نے کراچی کے جزیرے، بھٹ آئی لینڈ کی کہانی بیان کی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا فیک نیوز کے بڑھتے رجحان کو مُلکی سلامتی کے لیے خطرناک قرار دے رہے تھے۔ ’’خود نوشت‘‘ تو اپنی مثال آپ ہے، لیکن کبھی کبھی اس پر ’’جہانِ دیگر کا گمان ہوتا ہے۔ کلثوم پارس نے افسانے میں دو رقیبوں کی ملاقات کروا دی، تو دُعا عظیمی نے دو محبت کرنے والے دلوں کو مِلا دیا۔ جمیل ادیب سیّد کی غزل پسند آئی۔ اور آپ کا صفحہ‘‘ میں حسبِ توقع ہمارا خط شامل تھا، بہت شکریہ۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
ج: خادم ملک خُود مان گئے کہ وہ اونگیاں بونگیاں مارتے ہیں اور اُنہیں زیادہ سیریس نہ لیا جائے، مگر آپ کا عشق وجنون ہنوز برقرار ہے کہ آپ کو ایک ’’بونگی نامے‘‘سے پورا شمارہ روشن معلوم ہورہا تھا۔
کانچ کی چوڑیوں کا اضافہ
انتہائی مؤدبانہ گزارش ہے کہ ’’آپ کا صفحہ، ہماراصفحہ، پیاراصفحہ کو ایک سے دو کردیں۔ یہ بندۂ ناچیز ہی کی نہیں، دیگر قارئین کی بھی دلی خواہش ہے۔ پھر 2025ء میں اِس محفل میں کئی نئے آنے والوں کے سبب بھی یہ ضروری ہوگیا ہے۔ سرچشمۂ ہدایت، ہیلتھ اینڈ فٹنس کو ڈیڈھ، ڈیڑھ صفحے پر لے جائیں اَور ’’ڈائجسٹ‘‘ کے بھی دو صفحات کردیں۔ جب کہ اسی طرح موصول ہونے والی ڈاک کے پیشِ نظر دوسرے سلسلوں کو بھی گاہے، بگاہے دو صفحات تک لے جایا جا سکتا ہے۔
ابھی ایک شمارہ پورا پڑھا نہیں تھا کہ دوسرا اور پھر تیسرا بھی آگیا۔ محترم قاضی حسین احمدؒ کی پیاری بیٹی ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کی تحریر پڑھ کے تو بس دل خُون کے آنسو رودیا۔ بلاشبہ، یہ فلسطین، غزہ کے لوگ اِس دنیا کے نہیں، جنّت کے باسی ہیں۔ اسی دوران چوتھا شمارہ پڑھنے کو مل گیا۔ ؎ تُو غزل بن کے اُتر، بات مکمل ہوجائے… سرورق و اندرونی صفحات پر ماہتاب صورت عاشی خان چھائی دکھائی دی۔ اگرایک تصویر میں سن گلاسز (کالے چشمے) اور بازوؤں میں کانچ کی کچھ چوڑیوں کااضافہ ہوجاتا، تو حُسن کو چار چاند لگ جاتے۔
ہاں، ماڈل نے انگوٹھیاں بھی پہن رکھی تھیں، لیکن نہ ہی اُن کی درست تعداد کا اندازہ ہورہا تھا، نہ ہی کلر کا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ سلسلہ بھی خُوب ہے۔ ہم نے بھی ایک تحریر بھجوا رکھی ہے، جس کا کوئی اتاپتا نہیں؟ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی دونوں تحریریں بہترین تھیں۔ اور پیارے صفحے، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ میں بہترین الفاظ کا انتخاب کیا گیا۔ (محمّد صفدر خان ساغر، نزد مکّی مسجد، محلہ شریف فارم، راہوالی، گوجرانوالہ)
ج: ’’سنڈے میگزین‘‘ کل 16 صفحات کا مہین سا جریدہ ہے، آپ کی طفلانہ خواہشات پر عمل درآمد کے لیے صفحات کی تعداد کم ازکم دگنی کرنی ہوگی، تو اگر اخراجات کا بوجھ آپ اٹھانے کو تیار ہیں۔ تو ہمیں تعداد بڑھانے پر کوئی اعتراض نہیں۔
ماڈل کے حوالے سے سابقہ ارشادات پر بھی آپ کی اچھی خاصی سرزنش کی گئی تھی، لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ماشاء اللہ بلا کے ثابت قدم (عرفِ عام میں ڈھیٹ) واقع ہوئے ہیں۔ ماڈل کی انگوٹھیوں کی تعداد اور رنگ کی جان کاری کیوں ضروری تھی، قطعاً سمجھ نہیں آیا۔ اور یہ کالا چشمہ اور کانچ کی چوڑیاں بھی اگر اپنی اہلیہ کے لیے سنبھال رکھیں، تو کیا ہی اچھا ہو۔
فی امان اللہ
رسالہ موصول ہوا، سرورق کے بجائے آخر سے مطالعہ شروع کیا تاکہ ’’آگے بڑھ گئے‘‘ کا اعتراض ختم ہو۔ ورق الٹتے ہی اپنی تین چِٹھیوں کے مکسچر کو اعزازی چٹھی کے مسند پر براجمان پایا۔23؍مارچ کےحوالے سے معلوماتی مضامین سے مستفید ہوئے۔ 30؍ مارچ کے شمارے کو بھی آخری صفحے سے پڑھنا شروع کیا۔ چاچا چھکن مسندنشین تھے، مبارکاں۔چاچاجی خواہش کے باوجود راجاؤں، شہزادوں کو آرام نہیں دے سکے۔
دراصل وقت ملتا نہیں، نکالنا پڑتا ہے۔ (اَسی وی اینّے ویلے نئیں چاچا جی) معلومات کا خزانہ دینے والی ایڈیٹر کو شمائلہ نازکا چوکیدار کہنا حیران کرگیا۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘طلعت عمران نے مرتّب کیا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ بھی بہترین انداز سے ترتیب دیا گیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ثانیہ انورنے بھٹکےہوئے مسافر کواَن مول عیدی دلوادی۔ اے کاش! ہمیں بھی کوئی ایسی عیدی مل جاتی۔ ویسے یہ ثانیہ انور آپ کی بہت اچھی دریافت ہیں۔
عید اور ہلالِ عید کی نسبت سےارسلان، گوہر اعظمی اور ڈاکٹر عزیزہ کی غزل، نظمیں خُوب تھیں۔ ڈاکٹرصاحبہ کی خواہش بجا، مگر مایوس لوگ یوں بھی سوچتے ہیں۔ ؎ اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں۔ ’’پیارا وطن‘‘ میں کنول بہزاد اچھی تحریر لائیں۔ ’’حالات وواقعات‘‘ میں منورمرزا یمن کے حوثی قبائل پرامریکی حملوں کی پیش گوئی کررہے تھے، اور وہ شروع ہو چُکے ہیں۔
اسرائیلی درندے پورے مشرقِ وسطیٰ کو روندنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ہم جو غزہ، لبنان و یمن کی تباہی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، ہم سے بھی ضرورسوال ہوگا۔ ’’سینٹراسپریڈ‘‘ میں لڑکیوں بالیوں، بچّوں کی خوشی کی بہت شان دار انداز اور انتخابِ اشعار سے ترجمانی کی گئی۔ بلاشبہ، عید پراِن کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ بڑوں کا تو عیدی بانٹتے بانٹتے ہی بجٹ عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے۔
ہمیں نمازِعید سے قبل مسجد میں تقریر کا شرف حاصل ہوا تو آپ نے رمضان کی رحمتوں، برکتوں سے متعلق جو رُوح پرور اسکرپٹ لکھ رکھا تھا، اُس کے ابتدائی فرمودات سے استفادہ کیا، تقریر خوب سراہی گئی۔ عشرت فاطمہ نے’’عید ضیافت‘‘کا خُوب اہتمام کیا۔ خُود نوشت میں ذوالفقار چیمہ کو زیادہ مشاہرے کی کشش موزمبیق لے گئی۔کیا یہاں کےحالات سدھر گئےتھے، جو وہ مُلک چھوڑ گئے، ایک ڈاکٹر عبد القدیر خان تھے، بہترین آسائشیں چھوڑکر یہاں چلے آئے۔
اگر وہ پاکستان کوایٹمی طاقت نہ بناتے تو آج بھارت کی غلامی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ معذرت کے ساتھ، چیمہ صاحب کی خدمات اور کارکردگی سے 25ویں قسط تک احترام و عقیدت کوجوبُت بنا تھا، وہ ٹُوٹ گیا۔ رابعہ فاطمہ عید کی روایتی خوشیاں یاد کروارہی تھیں، رؤف ظفر تارکینِ وطن کے غم والم کی داستان لیے آئے۔ ثانیہ انور نےاپریل کے اہم عالمی ایام کا جائزہ لیا۔’’عالمی یومِ ضمیر‘‘تو غزہ، کشمیر برما وغیرہ میں مرکھپ کے دفن ہوچُکا۔
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمد ثانی نے اسلام اور دیگر مذاہب کی عیدوں کا اچھا موازنہ پیش کیا۔ سرِورق پر پہنچے تو پلیٹیں شیرخُرمے سے آدھی خالی ہوچُکی تھیں۔ لیجیے، یہ ہم نے خُود ہی دو ہفتوں کے جرائد کا مکسچر پیش کردیا ہے کہ آپ کو زحمت نہ اُٹھانی پڑے۔ دُعا ہے، پرنٹ میڈیا کی زبوں حالی دُور ہو اور ہمیں جلد ڈھیر سارے اوراق کا میگزین پڑھنے کو ملے۔ (شہزادہ بشیر محمد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: شاباش! اگلی بار تین جرائد کی معجون تیار کرنے کی کوشش کیجیے گا۔ ویسے آپ کی شخصیت تو گویا تضادات کامجموعہ ہے۔ ایک طرف ثانیہ والی عیدی بھی چاہیے، دوسری طرف مسجد میں تقریر، یہ بھی شُکر ہےکہ تقریر میں ہمارے رائٹ اَپ سے استفادہ کیا، ثانیہ انور کےافسانےسےنہیں،وگرنہ ہمارے یہاں تو سیدھا تیل چھڑک کر آگ ہی لگا دیتے ہیں۔ یقیناً ایسےکئی ایک واقعات خُود آپ کی یادداشت میں بھی محفوظ ہوں گے۔
* آئی ایم ایف اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں منہگائی کی شرح ڈبل ڈیجٹ سے کم ہوکر سنگل پر آچُکی ہے، لیکن میرے خیال میں یہ رپورٹس سو فی صد جھوٹی ہیں۔ پاکستان کے کس شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا کرایہ کم ہوا ہے؟ اسٹاک ایکسچینج کے پوائنٹس میں اضافے کو آپ پوری مُلکی معیشت کی ترقی نہیں کہہ سکتے۔
ہماری تو معیشت چلتی ہی قرضے اور امداد پرہے۔ پرانے قرضے اُتارنے کےلیے بھی نئے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ منور مرزا درست فرماتے ہیں ایک جانب عوام ’’وکٹم کارڈ‘‘ استعمال کرتے ہیں، دوسری جانب اِن لیڈرز کو یہی عوام منتخب کرتے ہیں۔ اُن کا یہ فرمانا بھی درست ہے کہ حزب اللہ بےشک ایک طاقت وَر ملیشیا ہے، لیکن اِس کے نام نہاد بیس سالہ دورِ حکومت نے لبنانی عوام کو کیا دیا؟ اِسی طرح ایران اور شمالی کوریا پر لگنے والی تمام معاشی پابندیاں بھی صرف وہاں کےعوام ہی بھگت رہے ہیں۔ (محمد کاشف، کراچی)
* پچھلی بار کی اچھے بچّوں والی ای میل اور اُس کے بعد ایک لمبی چُھٹی کے بعد میری تنقید والی انرجی بحال ہوچُکی ہے۔ رونق افروز کے خط کے جواب سے معلوم ہوا کہ’’ڈائجسٹ‘‘ کے لیے میرٹ سخت کر دیا گیا ہے، لگتا ہے، میرے مسلسل احتجاج سے افاقہ ہوا ہے۔
خیر، آج کی ای میل کا مقصد اُس ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا ہے، جو ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہو رہی ہے۔ اِس ضمن میں چندنکات پیشِ خدمت ہیں۔ اوّل، ای میل والوں کا نام وپتا ویسے ہی تفصیلاً درج نہیں ہوتا، اُس پرسال نامے سے اِن کا ذکر سِرے سے مِنہا کر دیا گیا۔ شائستہ اظہر کی چِٹھی کو باقاعدہ سراہا جاتا ہے، لیکن عروبہ غزل کی ’’ای میل آف دی ائیر‘‘کی کوئی توصیف نہیں۔
بےچارے ای میل نگاروں کی میلز کا تو کوئی عنوان بھی نہیں ہوتا، مطلب ہم بےگھر، بےٹھکانہ ہی نہیں، بے عنوان بھی ٹھہرے۔ میری ایک ای میل کے جواب میں کہا گیا کہ ’’ہمارے پاس ہر بات کا مدلّل جواب ہوتا ہے، مگر جگہ کی تنگی آڑے آتی ہے۔‘‘ ہماری مانیں، ہمّت کر کے گوشہ برقی خطوط کا سائز مستقل بڑھا دیں۔ ایک تو صفحے پر، ایک چوتھائی سے کم جگہ، پھر’’دعوتِ عام‘‘ کا بلاک بھی اِسی میں فِٹ۔ آخر ہم کب تک ایک اقلیت کے طور پر رہیں گے؟ (مشرقی لڑکی، الرحمان گارڈن، فیز ٹو، لاہور)
ج: تمھیں اتنی سی بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ یہ سلسلہ ’’باقاعدہ خطوط نگاری‘‘ کی متروک ہوتی روایت کے احیاء کے لیے شروع کیا گیا۔ ای میلز کے لیے نہیں۔ اُن کا تو ویسے ہی دَور دورہ ہے۔
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk