بلوچستان کی پسماندگی اور زبوں حالی کے خاتمے کیلئےمختلف ادوار کی حکومتوں نے اپنے اپنے فہم کے مطابق کئی منصوبے بنائے۔ اعلانات کئے اور خواب دکھائے۔ صدر آصف علی زرداری اپنے پہلے دور حکومت میں آغاز حقوق ِبلوچستان کے نام سے کئی ترقیاتی پروگرام سامنے لائے لیکن بلوچستان جیسا تھا ویسا ہی رہا کہ اس وسیع و عریض رقبے والے صوبے کے مسائل ان منصوبوں کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ اور مشکل تو نہ تھے مگر عملی اقدامات کے متقاضی تھے ایسے میں عوامی جمہوریہ چین نے ون بیلٹ اینڈ ون روڈ اقتصادی راہداری (سی پیک) نظریہ پیش کیا اور اس پر عملدر آمد کا بیڑا اٹھایا۔ گوادر کی عظیم الشان بندرگاہ اس کی زندہ علامت ہے۔ اسکے ثمرات خطے کے دوسرے علاقوں کے علاوہ اس سے زیادہ بلوچستان کو ملنے والے ہیں۔
کچھ فلاحی تنظیموں نے بھی اپنے اپنے وسائل کے مطابق اس صوبے میں تعمیر و ترقی کے راستے دکھائے جن پر اگرچہ سست روی مگر ثابت قدمی سے کام ہورہا ہے۔ ان میں بلوچستان اکنامک فورم کا نام سب سے نمایاںہےچین کے سی پیک کی 12ویںاور بلوچستان اکنامک فورم کی 33ویں سالگرہ حسن اتفاق سے ایک ہی روز یعنی 22مئی کو کراچی میں ایک پروقار سیمینار کی صورت میں منائی گئی جس کے مہمان خصوصی گورنر بلوچستان شیخ جعفر خان مندوخیل تھے اور اسکے مشترکہ اہتمام کی ذمہ داری کراچی میں چینی قونصل خانہ اور بلوچستان اکنامک فورم نے نبھائی۔ سیمینار کا موضوع تھا بلوچستان کی اقتصادی خوشحالی اور اس کیلئے سرمایہ کاری، گورنر کے علاوہ سابق وزیراعلیٰ میر جان محمد جمالی، سابق سینیٹر نوابزادہ سیف اللہ مگسی ،چینی قونصل جنرل یانگ ڈونگ، بلوچستان اکنامک فورم کے جواں ہمت سربراہ سردار شوکت عزیز پوپلزئی اور دوسری ممتاز شخصیات نے خطاب کیا اور بلوچستان کے معاشی اور سماجی مسائل و معاملات پر روشنی ڈالی اور انکے حل کی تجاویز بھی پیش کیں جو فکر انگیز بھی تھیں اور قابل عمل بھی۔ چین کے اقتصادی راہداری منصوبے کی اہمیت پاکستان میں سب پر، بلکہ پوری دنیاپر عیاں ہےاور کئی ممالک اس کا حصہ بننے کے آرزو مند ہیں۔
صرف بھارت جو پاکستان بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردی کا سرپرست ہے، چین و پاکستان دشمنی میں اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ سی پیک کے پہلو بہ پہلو بلوچستان اکنامک فورم بھی صوبے کی اقتصادی ترقی اور سرمایہ کاری میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ ایک تھنک ٹینک بھی ہے اور بزنس اور اقتصادی پالیسی کا فورم بھی۔ اس کے مددگاروں میں بہت سی قومی و کثیر القومی بڑی کمپنیاں اور گروپ شامل ہیں۔
اس کا قیام مئی 1997ء میں عمل میں لایا گیا۔ فورم کے پروگرام میں قومی و بین الاقوامی برادری کو بلوچستان میں تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع سے آگاہ کرنا، بزنس ایگزیکٹو ز اور تنظیموں کو صوبے میںموجود تجارتی مواقع سے فائدہ اٹھانے اور آپس میں قریبی رابطے استوار کرنے کی ترغیب دلانا، کانفرنسز، سیمینارز اور ٹریڈ مشنز کا اہتمام کرنا حتیٰ کہ دوسرے ملکوں کے تجارتی دورے کرکے صوبے کیلئے وسائل پیدا کرنا بھی شامل ہے۔
اس حوالے سے امریکہ کا دورہ کرنے والے ایک مشن میں شریک ہونے کا مجھے بھی موقع ملا اور اپنی آنکھوں سے فورم کے سربراہ اور ان کے رفقائے کار کی کارکردگی دیکھنے کو ملی۔ فور م کے صدر سردار شوکت عزیز پوپلزئی بلوچستان کے فرزند سرزمین اور بہت اچھی شہرت کے حامل قبیلے کی ممتاز شخصیت ہیں۔ ان کے والد سردار عبدالعزیز خان تقسیم ہند سے قبل دو صوبوں کے گورنر رہے۔ سردار شوکت عزیز کا مطمح نظر ذاتی فوائد کی بجائے قومی فلاح ہے۔انہوں نے بلوچستان کے وسیع قدرتی وسائل، اسٹرٹیجک محل وقوع اور انسانی سرمائے کا ادراک رکھتے ہوئے کئی غیر معمولی اقدامات کئے جن سے اندرونی اور بیرونی وسائل بروئے کار لانے میں مدد ملی اور مقامی آبادی اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا۔
انہوں نے اس امر کو ملحوظ رکھا کہ ترقیاتی منصوبے نہ صرف اقتصادی طور پرقابل عمل ہوں بلکہ حقیقی معنوں میں عوام کیلئے سوددمند بھی ہوں۔ ان کی کوششوں سے توانائی ، کان کنی، زراعت، ماہی گیری اور سیاحت سمیت کئی شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع اجاگر ہوئے۔ ان کی اصول پرستی اور شفافیت کی بدولت کئی بڑے منصوبے کامیابی سے ہمکنار ہوئے اور غیر ملکی سفارت کاروں اور بین الاقوامی اداروں کی توجہ بلوچستان کی دولت اور اس کے باسیوںکے کام آنے لگی۔ ان کی کوششوں سے یہاں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو فروغ ملا۔ ہنر مند افرادی قوت کی تربیت کےمراکز قائم ہوئے اور سماجی و اقتصادی عدم مساوات کے خاتمے کی راہ ہموار ہوئی۔ بلوچستان کے قبائلی معاشرے اور بیرونی دنیا میں قربت انہی کی جدوجہد کا ثمر ہے۔ سردار شوکت عزیز پوپلزئی کئی لحاظ سے سے حقیقی معنوں میں بیرونی دنیا میں بلوچستان کے سفیر کا درجہ رکھتے ہیں۔ اندرون اور بیرون ملک ان کا حلقہ احباب بہت وسیع اور پاکستان کے دوستوں پر مشتمل ہے جو بلوچستان میں خاموشی اقتصادی انقلاب لانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔چینی قونصل خانے نےانہیں سیمینار کے اہتمام میں شریک کرکے انکی عملی اہمیت کا اعتراف کیا ہے۔