• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ روز سے، بلکہ کچھ راتوں سے میں عجیب و غریب خواب دیکھ رہا ہوں۔ مجھے جملہ درست کرنے کی اجازت دیجئے۔ میرے تمام خواب ایک ہی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اپنے معنی اور مفہوم میں میرے خواب عجیب کم اور غریب زیادہ ہوتے ہیں۔ اس نوعیت کے خواب زیادہ تر غریب لوگ دیکھتے ہیں۔ کچھ خواب حالات کے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے بعد بکھر جاتے ہیں۔ اس کے بعد خواب دیکھنے والے صدیوں تک پھر کبھی ایسا امیر خواب نہیں دیکھتے۔ بیٹی اور بیٹے کے پیدا ہونے کے بعد وہ لوگ خواب میں اپنی بیٹی اور بیٹےکو ڈاکٹر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے خواب کی سنہری تعبیر دیکھنے کے لئے دن رات محنت مزدوری کرتے ہیں، مگر وہ لوگ ایک بچے کی سالانہ فیس اٹھارہ لاکھ روپے نہیں دے سکتے۔ دو بچوں کی سالانہ چھتیس لاکھ روپے فیس والدین کو پاگل بنا دیتی ہے۔ ایک تحقیقی ادارے کی چھان بین کے بعد پتہ چلا ہے کہ پاگل خانوں میں زیادہ تر تعداد ایسے والدین کی ہوتی ہے جو ایک بچے کو ڈاکٹر دیکھنے کے لئے سب کچھ دائو پر لگا دیتے ہیں، مگر ایک بچے کی سالانہ اٹھارہ لاکھ روپے فیس دینے کے قابل نہیں رہتے۔ وہ اپنی عقل سلیم، ہوش مندی اور سمجھداری کھو بیٹھتے ہیں۔ اس قدر بھاری فیس کی وجہ بتانے کے بجائے حکومت وقت ان کو پاگل خانے بھجوا دیتی ہے۔ پاگل خانے پہنچ جانے کے بعد ان کو اصل حقیقت سمجھنے میں دیرنہیں لگتی۔ بیس بائیس گریڈ میں کام کرنے والے ملازم بھی بیٹی اور بیٹے کو ڈاکٹر نہیں بناسکتے۔ بیس بائیس گریڈ میں کام کرنے والا افسر ایک بچے کی سالانہ فیس اٹھارہ لاکھ روپے نہیں دے سکتا۔ اس کے لئے افسر صاحب کو کچھ دیگر قسم کے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ والدین کو آج تک سرکار کے کسی کارندے نے آگاہ نہیں کیا ہے کہ اٹھارہ لاکھ روپے سالانہ فیس دینے والے طلبہ کو طبی تعلیم دینے والے پروفیسروں اور لیکچراروں کی تنخواہ کتنی ہوتی ہے؟ ان کی تنخواہ کیا کروڑوں میں ہوتی ہے؟ جو کہ ایک طالب علم کی سرکاری فیس کے مطابق ہونی چاہئے۔ کوئی وجہ تو ہے کہ میرے بھائیو اور بہنو کہ ایک کنسلٹنٹ مریض سے پانچ منٹ مشورہ کرنے کے بعد مریض سے کم از کم پانچ ہزار سے دس ہزار روپے فیس وصول کرتا ہے۔ اٹھارہ لاکھ روپے سالانہ فیس دیکر طبی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کا حق بنتا ہے کہ ڈاکٹر بن جانے کے بعد وہ مریض سے پانچ منٹ معائنہ کے پانچ سے دس ہزار روپے فیس وصول کرے۔ ورنہ میڈیکل تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات کے مقروض والدین آسانی سے یا دشواری سے بھی قرض اتار نہیں سکتے۔

مگر میرا کیا کام طبی اور انجینئرنگ تعلیم سے۔ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ اپنے صرف بال ہیں۔ بچے نہیں ہیں۔ راستے سے بھٹک جاتا ہوں۔ یہ میری پرانی عادت ہے۔ کبھی کبھی تو اس قدر بری طرح بھٹک جاتا ہوں کہ پھر کبھی صحیح سمت کی طرف لوٹ کر نہیں آتا۔ یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔

میں آپ سے اپنے عجیب و غریب خواب کی باتیں کررہا تھا۔ ایک عرصہ سے ایک ہی نوعیت کا خواب دیکھ رہا ہوں۔ لاہور اور کراچی میں خوابوں کی تعبیر نکالنے والے متوجہ ہوں۔ ایک مرتبہ پھر سے دہرا دوں کہ میرا خواب مجھے غریب کم اورعجیب زیادہ لگتا ہے۔ منظرنگاری کی وضع قطع سے نہیں لگتا کہ ایک پھٹیچر قسم کا بوڑھا خواب دیکھ رہا ہے۔ منظر ہو بہو مغل اعظم فلم کا ایک دلکش سیٹ دکھائی دیتا ہے۔ تعجب مجھے تب ہوتا ہے جب وہاں پر مجھے مدھو بالا دکھائی نہیں دیتی۔ بیحد حیران تب ہوتا ہوں۔ جب میں خود کو دلفریب مناظر کے عکس میں دیکھتا ہوں۔ میں اکیلا نہیں ہوتا۔ ناٹے قد کی ایک شبیہ مجھے دکھائی دیتی ہے۔ شکل و صورت میں پتہ نہیںچلتا کہ شبیہ عورت کی ہے یا کسی مرد کی ہے۔ روشنی کا غیر معمولی ہیولا شبیہ کے گرد چھایا ہوا ہوتا ہے۔ میں اسے ٹھیک سے دیکھ نہیں سکتا۔ اسے دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے اور انجانا سا خوف بھی محسوس ہوتا ہے۔ پہلی مرتبہ میں نے اس سے پوچھا تھا۔ ’’کون ہو تم، اور کیا چاہتے ہو؟‘‘

اس نے جواباً کہا تھا۔ ’’میں تمہیں لینے آیا ہوں۔‘‘

اپنے وجود میں عجیب سی وحشت محسوس کی تھی میں نے۔ دنیا میں جھک مارتے ہوئے مجھے نوے برس ہونے کو ہیں۔بہت کچھ دیکھ لیا ہے۔ جو نہیں دیکھا ہے، اس کا افسوس ہے۔ دنیا مجھے کبھی اچھی لگتی ہے ، کبھی بری لگتی ہے۔ کبھی لگتا ہے،یہ اپنا جہاں ہے۔ کبھی لگتا ہے یہ پرایا جہاں ہے۔ کبھی لگتا ہے نوے برس آنکھ جھپکتے ہوئے گزر گئے ہیں۔ کبھی لگتا ہے اس دنیا میں، میں نے نوے برس نہیں، نوے صدیاں گزار دی ہیں۔ جو مجھے کہنا ہے، وہ میں نے ابھی کہا نہیں ہے۔ میں نے جو کچھ کہا ہے ، وہ مکمل نہیں ہے۔ اس میں ترمیم ہونی ہے۔میں چپ ہوں۔ میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ مگر ڈرتا ہوں۔ خوفزدہ ہوں۔ جتنے وعدے آزادی کے اظہار کے کئے جاتے ہیں وہ سب وعدے غلط نکلتے ہیں۔ کچھ کہنے کے بعد آپ کو گم کر دیا جاتا ہے۔ آپ کو اپنا سراغ تک نہیں ملتا۔ ملک الموت آپ کی تلاش میں اس دنیا میں آتا ہے، مگر مایوس لوٹ جاتا ہے۔ وہ آپ کو تلاش نہیں کرسکتا۔ تلاش ویسے بھی انکو کیا جاتاہےجو گم یا لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ منہ سے ممانعت والی بات کو اظہار کی آزادی دکھانے کے بعد آپ غائب کر دیئے جاتے ہو۔ اس کے بعد آپ ملک الموت کو بھی نہیں ملتے۔

ناٹی سی شخصیت والا شخص مجھے ملک الموت لگتا ہے۔ مگر میں فی الحال مرنا نہیں چاہتا۔ میں نے ملک الموت سے کہا کہ سرکار میں فی الحال مرنا نہیں چاہتا۔ بار بارو وٹ دے کر ایک لاجواب شخص کو پاکستان کا مستقل تا عمر پاکستان کا پریزیڈنٹ دیکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے مزید کچھ دیر جینے کی مہلت دو۔

تازہ ترین