• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

سب دانش وَر ہوجائیں گے

’’اسٹائل کی تحریر ہمیشہ قارئین کو ایک افسانوی سی دنیا میں لے جاتی ہے۔ سُرمگیں شامیں، پُرہول اداسی، نامانوس ویرانی، یادیں، لڑکیاں بالیاں، چِڑیاں، کوئل، پت جَھڑ کا موسم، راہِ زندگی کی پگڈنڈیاں، خوشیاں، غم، گھر آنگن کی چڑیاں وغیرہ براہِ مہربانی اس قدر سنجیدگی، افسردگی کی بجائے، رائٹ اَپ میں تھوڑا طنز و مزاح لائیں۔

عوام پہلے ہی ازحد پریشان ہیں، اُس پر ایسی تحریریں پڑھ کر تو سب کے سب دانش وَر ہی بن جائیں گے۔ ویسے تو پاکستان کے عوام صرف جوتے کھانے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ ہمارا تو اُس مشہور بادشاہ کی رعایا والا حال ہے کہ ’’جناب! جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھادیں‘‘ منہگائی، کرپشن عروج پر، سرکاری نوکریاں نایاب، سڑکیں خراب، اور عوام ستّو پی کر سو رہے ہیں۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: ہمارے رائٹ اَپ پڑھ کر، آپ کی تو رہی سہی عقل بھی گُھٹنوں کی طرف جارہی ہے۔ ان تحریروں سے کسی نے دانش وَر بننا ہوتا، تو اب تک کوئی دو چارسو تو سامنے آچُکے ہوتے۔ ویسے آپ سے کچھ زیادہ کہنا، سُننا یوں بے کار ہے کہ ہمارے خیال میں اب آپ کا مرض لا علاج ہوچُکا ہے۔

کتابوں میں دَبے بیٹھے

’’سنڈے میگزین‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس نے جون ایلیا پر بہت خُوب صُورت تحریر لکھی، پڑھ کر دل خوش ہوگیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں  منور مرزا موجود تھے اور کیا ہی لاجواب تجزیہ پیش کیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نسرین اختر نینا نے پاؤلونیا نامی درخت پرمضمون لکھ کر معلومات میں اضافہ کیا۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں آپ اور آپ کی ٹیم کے نام پیغام بہت اچھا لگا۔ اگلے جریدے میں بھٹ آئی لینڈ سے متعلق معلوماتی تحریر کا جواب نہ تھا۔ منور راجپوت نے عُمدہ انداز میں سیر کروائی۔ 

’’متفرق‘‘ میں سرزمینِ ترکیہ سےمتعلق چھوٹا سا مضمون بہت پسند آیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں کلثوم پارس کی ’’تصویر‘‘ اورمنیٰ جاوید کے’’ڈھونگ‘‘ کا جواب نہ تھا۔ اور اِس مرتبہ تو اختر سعیدی بہت سی کتابوں میں دَبے بیٹھے تھے۔ تیسرے ایڈیشن کے ’’حالات و واقعات ‘‘ میں منور مرزا اور ڈاکٹر معین الدین عقیل کے مضامین پڑھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ کرن نعمان کا ’’ٹھپّا‘‘ بھی پسند آیا۔ نظم، غزلیں بھی اچھی لگیں۔ (رونق افروزبرقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: اور جِسے کتابوں کا ساتھ، جھرمٹ میسّر ہو، اُس سے زیادہ خوش بخت بھلا کون ہوگا۔

سیروں خون بڑھ جاتا ہے

مولانا زبیر وراثت کی تقسیم سے متعلق سنّتِ نبویؐ کے حوالہ جات کے ساتھ ایک فکر انگیز تحریر لائے۔ مضمون کی روشنی میں بہت سے لوگوں کواپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ غزہ المیے کی بات کروں، تو میرے خیال میں تو ساری ذمّےداری حماس ہی کی ہے کہ جنھوں نےچند اسرائیلی مار کے پورے غزہ کو آگ میں جھونک دیا۔ ہزاروں بےگناہ نہتّے معصوموں کا خونِ ناحق کس کے سَر ہے؟ ڈاکٹر قمر عباس، جون ایلیا پرسیر حاصل مضمون لائے۔ منور راجپوت تو کتابوں پر تبصرے کے ایکسپرٹ ہوگئے ہیں۔

فرّخ شہزاد نے بلوچستان اور کے۔ پی میں تخریب کاری پر اچھی رپورٹ پیش کی۔ اور… موسم، خوشبو، رنگ دھنک کے سارے منظر، ماڈل کے ساتھ بہت بھلے لگ رہے تھے۔ ’’ایک پیغام ، پیاروں کے نام‘‘ بہترین سلسلہ ہے، پڑھ کر سیروں خون بڑھ جاتا ہے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفرگڑھ)

ج: تمہارا خط دیکھ کے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ تمہارا سیروں خون کچھ ایسے ہی سلسلے دیکھ کے بڑھتا ہوگا۔

مضمون نگار مرد یا عورت؟

’’سنڈے اسپیشل‘‘ کی تحریر ’’معالجین بمقابلہ نوکر شاہی‘‘ میں مضمون نگار کا نام ہی سمجھ نہیں آیا۔ اِسی طرح مضمون ’’سائنس اور مذہب‘‘ کے مضمون نگار کے نام سے بھی اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ مرد ہیں یا خاتون؟ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ ثانی نے ’’محنت کی عظمت اور توکل‘‘ کے عنوان سے بہترین تحریر نذرِ قارئین کی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں ہمیشہ کی طرح لاجواب تجزیہ پیش کیا گیا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے دو اہم کانفرنسز کا احوال اچھے انداز سے بیان کیا۔ 

’’ہیلتھ اینڈ فنٹس‘‘ کافی وقفے کے بعد شائع ہوا۔ بہرحال، دونوں مضامین معلوماتی تھے۔ ’’ناقابلِ  فراموش‘‘ کی کمی بہت محسوس ہو رہی ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط شامل نہیں تھا، لیکن خادم ملک کا ضرور موجود تھا۔ ہاں، مگر اس بار مجھے خادم ملک کا چیمہ صاحب پر اعتراض بالکل پسند نہیں آیا۔ اگلے جریدے کی ’’رپورٹ‘‘میں سیّد خلیل الرحمٰن نے بلوچستان کے مسائل کی طرف توجّہ مبذول کروائی۔ ’’خُود نوشت‘‘ کی آخری قسط پڑھ کر دل افسردہ سا ہوگیا۔ ابھی اس سلسلے کو آگے چلنا چاہیے تھا۔

یومِ مئی کی مناسبت سے رؤف ظفر، سیدہ تحسین عابدی اور حافظ بلال بشیر کے مضامین شان دار تھے۔ ’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر ناظر محمود نے جاپان کی ترقی کے راز بیان کیے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ اور ڈائجسٹ‘‘ کے صفحات اچھے انداز سے ترتیب دئیے گئے اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں  مسلسل دوسری بار ہمارا خط شامل نہیں تھا، البتہ بےکار ملک کا خط ضرور موجود تھا۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: مضمون ’’معالجین بمقابلہ نوکرشاہی‘‘ کی لکھاری کا نہ صرف واضح نام ڈاکٹر آصفہ شاہد موجود تھا بلکہ ساتھ اُن کی مُسکراتی ہوئی تصویر بھی شایع کی گئی۔ آپ کو کیا سمجھ نہیں آیا، یہ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں اور نصرت عباس داسو اوّل تو مرد مضمون نگار ہیں، لیکن اگر وہ خاتون بھی ہوں، تو کیا فرق پڑتا ہے۔ آپ کو مطالعے میں بھی صنفی تفریق کا مسئلہ درپیش ہے۔ بھائی! آم کھانے پر فوکس رکھا کریں، پیٹر گنتے رہے، تو پھل سے محروم رہ جائیں گے۔

بھٹ آئی لینڈ چلے جاتے!!

دو شماروں پر تبصرہ حاضرِ خدمت ہے۔ ایک میں متبرّک صفحۂ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ موجود تھا، دوسرے میں نہیں۔ ’’فلسطینیوں کا پہلا اور دوسرا انتفاضہ‘‘ اور ’’غزہ کے معصومین کے لیے انوکھا احتجاج‘‘ لاجواب مضامین تھے۔ ’’سندھ ایک بار پھر اپنے حصّے کے پانی سے محروم‘‘، سیدہ تحسین عابدی کا اچھا مضمون تھا۔ ’’بھٹ آئی لینڈ، ایک تاریخی قومی وَرثہ‘‘ پڑھا۔

اگر یہ مضمون پہلےشائع ہوجاتا، تو ہم لوگ دسمبر میں کراچی گئے تھےاور وہاں منوڑا کی سیر کی تھی، تو منوڑا کی بجائے بھٹ آئی لینڈ ہی چلے جاتے۔ ’’فیک نیوز کا بڑھتا رجحان‘‘ واقعتاً پاکستان کی سلامتی و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ اللہ پاک پاکستان کو اس عذاب سے بچائے۔ ’’خُودنوشت‘‘ کی دونوں اقساط ہی شان دار تھیں۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں اِس بار ڈاکٹر جمیل جالبی اور حافظ حسین احمد موجود تھے۔ 

دونوں ہی بہترین شخصیات تھیں۔ ’’سرزمینِ ترکیہ‘‘ سے متعلق مختصر مضمون بھی پسند آیا۔ پرنس کریم آغا خان چہارم کے بارے میں جان کے اچھا لگا۔ ’’ممکنہ ٹریڈوارمیں پاکستان کا کردار‘‘ سیرحاصل تجزیہ تھا۔ جاپان میں اسلام اور فلسطین کے موضوعات پر دو اہم کانفرنسز کا اہتمام ہوا، جان کر خوشی ہوئی۔ یقیناً ان سے دنیا بَھرمیں اچھا پیغام جائے گا۔ رونق افروز برقی کو ہماری ’’سنہری باتیں‘‘ پسند آئیں، بہت بہت شکریہ۔ ’’کہی ان کہی‘‘ کا سلسلہ کافی عرصے سے غائب ہے، اُسے بھی بحال کریں۔ (پرنس افضل شاہین، نادرشاہ بازار، بہاول نگر)

ج: بھٹ آئی لینڈ ہنوز اپنی جگہ موجود ہے۔ اگلی بار تشریف لائیں، تو وہاں کی بھی سیرفرمالیں۔

اِک اِک سطر سےسیکھنے کا موقع

’’سنڈے میگزین‘‘ کا ہر ہر شمارہ ہی لاجواب ہوتا ہے۔ ایک ایک صفحہ دِل چُھولیتا ہے۔ لگ بھگ تمام ہی مضامین خاصےمعیاری بھی ہوتے ہیں۔ ’’سرِورق‘‘ سے لےکر آپ کے خطوط والے صفحے تک، اِک اِک سطر سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ضرور ملتا ہے۔ مَیں تو اوّل روز سے جریدے کا تہہ دل سے معترف ہوں۔ (شری مرلی چند جی گوپی چند گھوگلیہ، شکار پور)

شکوہ، سو فی صد بجا

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی کا شاہ کار قلمی نسخہ ’’محنت کی عظمت اور توکّل کی حقیقت‘‘ کا نچوڑ تھا کہ زندگی جہدِ مسلسل کا نام ہے اور محنتی شخص اللہ کا دوست ہوتا ہے۔ نیز،حلال روزی کے لیے تمام ممکنہ وسائل اور مادی اسباب و ذرائع اختیار کیے جائیں۔ ’’تیل کی قیمتیں گرنے سے معیشت کو یقیناً فائدہ ہوگا‘‘، ماہر تجزیہ نگار منور مرزا ’’ممکمنہ ٹریڈ وار میں پاکستان کے کردار‘‘ کے حوالے سے رقم طراز تھے۔ ڈاکٹر عبدالستار عباسی کا کہنا بجا کہ قرآن و سنّت سے استفادے کے ساتھ بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کام یابی کے جھنڈے گاڑے جا سکتے ہیں۔ 

’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں مُسکراتے چہرے کے ساتھ ڈاکٹر آصفہ شاہد نے خُوب ہی اینٹری دی۔ اُن کا شکوہ سو فی صد بجا تھا کہ مسیحاؤں کو روبوٹ نہ سمجھا جائے۔ نصرت عباس داسو نے بھی اپنے قلمی پارے سے یہی سمجھانے کی کوشش کی کہ سائنس اور مذہب ایک دوسرے سے متصادم نہیں۔ ’’رپورٹ‘‘ میں ڈاکٹر معین الدین عقیل یہ خوش خبری لائے کہ جاپان میں اسلام کے مطالعے، تحقیق وجستجو کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ’’خُودنوشت‘‘ میں ذوالفقار احمد چیمہ نے سیاسی منظر نامے کے کچھ اور رُخ وا کیے۔

’’سنیٹر اسپیریڈ‘‘ میں  ماڈل ہیر علی کو سامنے پاکر ایڈیٹر صاحبہ کا قلم بھی خُوب ہی چہکا۔ ڈاکٹر محب مصطفیٰ کا مضمون ’’دورانِ حج صحت کی حفاظت کیسے کریں؟’’ بہت ہی معلوماتی، مفید مضمون تھا۔ حافظ حسین احمد کے اوراقِ زندگی پسند آئے۔’’ڈائجسٹ‘‘ میں کرن نعمان کا ’’ٹھپّا‘‘ ماریانہ ٹرینچ سے متعلق نسرین اختر نینا کی معلومات اور جمیل ادیب سیّد کی نظم ’’لڑکیاں‘‘ سب ہی لاجواب کاوشیں تھیں۔ 

اپنی طرز کے منفرد لکھاری، منور راجپوت کا نئی کتابوں پر ماہرانہ تبصرہ تو سنڈے میگزین کی آن، بان، شان ہے۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ اس بار رانا محمد شاہد کے نام رہا، بہت خوب۔ باقی خطوط بھی بہترین تھے۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

معلومات و تفریح کا خزانہ

یُوں تو ہر’’سنڈے میگزین‘‘ ہی بےمثال، لاجواب ہوتا ہے۔ ہر تحریر جان دار، بے حد معلوماتی، مگر اس ہفتے تو کمال ہی ہوگیا۔ منور راجپوت کا فیچر ’’بھٹ آئی لینڈ‘‘ گُلناز محمود کی کاوش، ’’ڈاکٹرجمیل جالبی کی یادداشتیں، سرزمینِ ترکیہ پر مضمون، سلیم اللہ صدیقی کی پرنس کریم آغا خان پر تحریر،’’ڈائجسٹ‘‘ کی نگارشات ’تصویر‘‘، ’’ہم زاد‘‘، ’’ڈھونگ‘‘ سب ہی ایک سے بڑھ کر ایک تھیں۔ پورا جریدہ ہی گویا معلومات و تفریح کا خزانہ تھا۔ ایسے عُمدہ جریدے کی تیاری پر مبارک باد قبول فرمائیں۔ (بابرسلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)

ج: حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ۔

                          فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

خطوط لکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مرزا غالب کہتے ہیں۔ ’’مَیں تنہائی میں صرف خطوط کے بھروسے جیتا ہوں یعنی جس کا خط آیا، مَیں نے جاناکہ وہ شخص تشریف لایا۔‘‘کچھ خطوط لکھنے والے کے لیے بہت اہمیت کا سبب بن جاتے ہیں۔ مثلاً اعزازی چِٹھی یا جیسے سائرہ بی بی کو بچپن، اسکول کے زمانے سے خطوط لکھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ 

برصغیر کے نام وَراداکار دلیپ کمار کو خط لکھ دیا۔ کچھ ہی دنوں بعد موصوف کا جوابی خط، دستخط شدہ تصویر اور شکریہ کے ساتھ موصول ہوا اور وہ خط سائرہ بی بی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوگیا۔ 

اسی طرح 1970ءکی بات ہے کہ ہمارے ملک کے کیڈٹ کالج، حسن ابدال کے ایک تربیت یافتہ فوجی جوان کو ہوابازی اور خلائی مہمّات سے عشق تھا۔ امریکا کے نیل آرمسٹرنگ اور ساتھیوں کو مباک باد کا خط لکھ دیا، جو کہ 1969 ءمیں چاند تسخیر (اپالو 11کے ذریعے )کرچُکے تھے۔ 

کچھ ہی دنوں بعد جواب موصول ہوا۔ خط کے آخر میں نیل کے راکٹ میں ہم رکاب ساتھیوں کے بھی دستخط موجود تھے اور وہ فوجی جوان بعد ازاں، قیصر طفیل (ریٹائرڈ) کہلائے، جنھوں نے جنگوں میں بھی حصّہ لیا۔ عید ایڈیشن کے ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں آپ لکھتی ہیں۔ 

’’عید تو لڑکیوں بالیوں اوربچّوں کی ہوتی ہے‘‘ ویسے آپ جب بھی لکھتی ہیں، کمال ہی لکھتی ہیں۔ ایسی بامحاورہ شاعرانہ تحریریں کم ہی دیکھی جاتی ہیں۔ منور مرزا بھی ’’حالات و واقعات‘‘ میں جو کچھ لکھتے ہیں، خُوب ہی لکھتے ہیں۔ بہترین، لاجواب تجزیہ ہوتا ہے۔ کنول بہزاد نے بابا بلھے شاہ کی نگری، قصور کا احوال رقم کیا، سیر حاصل معلومات حاصل ہوئیں۔

ہم تو اب تک قصور کو صرف ملکہ ترنم نور جہاں ہی کےحوالے سے جانتے تھے، مگر افسوس اب وہاں صرف ایک علامتی تختی لگی رہ گئی ہے۔ پاکستان پولیس سروس کے ’’رول ماڈل‘‘ ذوالفقار احمد چیمہ کی داستانِ حیات سے کئی سیاست دانوں، وڈیروں، جرنیلوں، بیورو کریٹس، وزرائے اعظم اور صدور سے متعلق حیران کُن انکشافات سامنے آئے۔ 

ہم نے یہ ’’خودنوشت‘‘ تاریخ سےسبق سیکھنے کےلیےنہایت دل چسپی اور عمیق نگاہی سے پڑھی۔ یاد رکھیے، تاریخ یادوں کا بوجھ نہیں، رُوح کی روشنی ہوتی ہے۔ ہم تاریخ کو نہیں، تاریخ ہمیں بناتی ہے۔ عشرت جہاں کی تحریر عُمدہ ہے، جب بھی پڑھی، اچھا لگا۔ اسی طرح طارق بلوچ صحرائی کی تحریروں میں بھی ہمیشہ گہرائی محسوس کی۔ 

سُنا ہے، آپا بانو قدسیہ مرحومہ اُن کی حوصلہ افزائی کیا کرتی تھیں۔ اِسی طرح کی حوصلہ افزائی آپ بھی بزم کے لکھنے والوں، ہم جیسے نوآموز لکھاریوں کی تحریروں کو اکثر خوب سجا سنوار کر کرتی رہتی ہیں۔ 

اس ضمن میں آپ کا ایک جواب دل چُھوگیا کہ ’’یہ ہمارا انداز نہیں، فطرت، مزاج ہے اور فطرت بھلا کب بدلتی ہے۔‘‘ قصّہ مختصر، ’’عید ایڈیشن‘‘ کی تمام تحریریں، مضامین حددرجہ معلوماتی تھے۔ اُمید ہے، ٹیکساس میں رہنے والے کوئی صاحب قرات نقوی کی مٹکا ڈھونڈنے میں ضرور کچھ مدد کریں گے۔ چاچا چھکن اس دفعہ اعزازی چٹھی کےمستحق ٹھہرے، چوں کہ جریدے کے میرٹ پر ہمیں قطعاً کوئی شک و شبہ نہیں، تو یقیناً چاچاجی دلی مبارک باد کے حق دار ہیں۔ (محمّد ادریس سلیمان، سعدی ٹاون، کراچی)

ج: آج آپ مبارک باد کے مستحق ٹھہرے اور یقین رکھیے کہ آپ کا اعتماد واعتبار سو فی صد برحق ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* مَیں ایڈیٹر صاحبہ کی تحریریں بےحد شوق سے پڑھتا ہوں کہ لکھنے کا انداز بہت ہی خُوب صُورت ہے۔ سچ کہوں، تو اتوار کے دن کا زیادہ بےچینی سے انتظار بھی اِسی لیے رہتا ہے۔ ( ثناء االلہ سید، اسلام آباد)

ج: ذرہ نوازی ہے آپ کی۔

* شمارہ بوجھل دل، سر درد کے ساتھ بستر پر بیٹھے بیٹھے پڑھ ڈالا۔ گرین پاسپورٹ پر رپورٹ پڑھ کےوہ زمانہ یاد آگیا، جب امریکی شہریت نہیں ملی تھی اور ہم چُھٹیوں میں میکسیکو جایا کرتے تھے، تو مجھے خُود کو پاکستانی بتاتے ہوئے شرم سی آتی تھی کہ سب عجیب نظروں سے دیکھتے تھے۔ خیر، ذوالفقار چیمہ کی ’’خُود نوشت‘‘ کی یہ قسط تھوڑی بورنگ لگی کہ مجھے سیاست سے کوئی دل چسپی نہیں۔

’’اسٹائل‘‘ میں آپ کا رائٹ اَپ پڑھ کے کہیں پڑھی ایک چھوٹی سی نثری نظم یاد آگئی ؎ وہ ’’کتنے ہفتوں، کتنے مہینوں، کتنے سالوں سے… بازاروں میں میچنگ ڈھونڈنے والی پاگل سی لڑکی… اگلے ہفتے اُس کی بےجوڑ شادی ہے۔‘‘ دل سے بےاختیار دُعا نکلی کہ اللہ بیٹی دے، تو ساتھ اچھے نصیب بھی دے۔ ساحر کا گیت ”بابل کی دُعائیں لیتی جا“ پڑھ کے دل جُھوم جُھوم اٹھا۔ 

نادیہ سیف کی ’’آئیں، خاکہ بنائیں‘‘بےکارسی تحریر تھی کہ آرٹ دیکھ کے سیکھا جا ہی نہیں سکتا۔ ہاں، ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں تین سہیلیوں کی کہانی بہترین تھی۔ اگلا میگزین رنگ بدلتے درختوں، ہوا کے شور میں پڑھا۔

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ایک بارپھر قومِ فرعون پہ مختلف عذابوں کا ذکر تھا، دل کانپ گیا۔ حافظ بلال کفایت شعاری کا درس دے رہے تھے۔ رؤف ظفر ’’جبری مشقّت کے شکار بچّوں‘‘ سے متعلق تفصیلی رپورٹ لائے۔’’اسٹائل‘‘ کی ماڈل بس ایویں سی تھی۔ پڑھ کے بھی مزہ نہیں آیا، اشعارکی بہت کمی محسوس ہوئی۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)

ج:تمھاری خزاں میں لکھی ای میلز، بہار بھی گزر جانے کے بعد شایع ہورہی ہیں۔ وہ کیا ہے کہ’’اظہار بھی مشکل ہے، کچھ کہہ بھی نہیں سکتے…‘‘

قارئینِ کرام کے نام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk