ہندؤوں کی قدیم کتاب رگ وید میں، جسے ہندو مت کی بنیادی کُتب میں شمار کیا جاتا ہے، ایک کہانی ہے، پہلے وہ کہانی پڑھتے ہیں، باقی بات بعد میں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ راجہ ہریش چندر کی کئی بیویاں ہونے کے باوجود کوئی بیٹا نہ تھا، جس کی وجہ سے وہ خاصا پریشان رہتا تھا۔ ایک رات اُس کے محل میں کسی درویش نے قیام کیا، ایسے دانا شخص کو رِشی کہا جاتا ہے، رِشی کے مشورے پر راجہ نے دیوتا ورُن سے بیٹے کیلئے دعا کی اور وعدہ کیا کہ وہ اپنے پہلے بیٹے کو دیوتا ورُن کے نام پر قربان کر دے گا۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ راجہ کے ہاں بیٹا پیدا ہو گیا جس کا نام روہیت رکھا گیا۔ ورُن دیوتا نے بار بار راجہ کو اپنے وعدے کی یاد دہانی کروائی لیکن راجہ مختلف حیلے بہانوں سے بیٹے کی قربانی کو ٹالتا رہا۔ جب روہیت بڑا ہوا تو اُسے بھی اپنی قربانی کے قصے کا علم ہو گیا چنانچہ وہ قربانی سے بچنے کیلئے چھ سال تک جنگل میں بھٹکتا رہا، اِس غم میں اُس کا باپ راجہ ہریش چندر ایک بیماری میں مبتلا ہو گیا۔ جنگل میں آوارگی کے دوران روہیت کو ایک غریب برہمن ملا جس کے تین بیٹے تھے۔ روہیت نے برہمن کو سو گائیں تحفے میں دیں اور کہا کہ بدلے میں وہ اپنے تینوں بیٹوں میں سے کسی ایک کو روہیت کی جگہ قربانی کیلئے پیش کر دے۔ برہمن اپنے سب سے بڑے بیٹے کو چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا جبکہ اُس کی بیوی سب سے چھوٹے بیٹے کے لیے دیوانی تھی، سو بالآخر قرعہ منجھلے بیٹے کے نام نکلا اور برہمن اسے بیچنے/ قربان کرنے پر راضی ہو گیا۔ منجھلے بیٹے کو قربانی کے چبوترے پر لا کر کھمبے سے باندھ دیا گیا، اور پجاریوں نے، جن میں اُس کا اپنا برہمن باپ بھی شامل تھا، نے قربانی کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اُن ڈرامائی لمحات میں ایک رِشی وہاں موجود تھا جس نے منجھلے لڑکے کو آزادی کیلئے مختلف دیوتاؤں سے دعا کرنے کا مشورہ دیا۔ لڑکے نے ورُن، اَگنی، ساوتر، اِندر اور دیگر دیوتاؤں سے خلوصِ نیت کے ساتھ دعائیں کیں، بھَجن پڑھے (جن میں سے کچھ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ رگ وید میں موجود ہیں)۔ اُس کی عقیدت اور خلوص سے خوش ہو کر دیوتاؤں نے مداخلت کی، اُس کے بندھن کرشماتی طور پر ڈھیلے پڑ گئے اور اُسے قربانی سے معافی دے دی گئی، اُدھر راجہ ہریش چندر بھی اپنی بیماری سے شفا یاب ہو گیا۔ میرا خیال ہے کہ اِس کے بعد سب ہنسی خوشی رہنے لگ گئے ہوں گے۔
ہم مسلمان پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں اور یہ عبادت بھی ہم سے پہلی اُمّتوں پر بھی فرض تھی، یہ بات قرآن سے ثابت ہے، مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کیلئے دعا مانگی: کہ ’’اے میرے پروردگار! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا۔‘‘ (سورۃ ابراہیم، آیت 40)۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کوہِ طور پر کلام کیا تو انہیں سب سے پہلا حکم نماز کا دیا: ’’بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری عبادت کرو اور میری یاد کیلئے نماز قائم کرو۔‘‘ (سورۃ طہٰ، آیت 14)۔ بنی اسرائیل کی عبادات میں بھی سجدوں اور قربانیوں کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو نماز کا حکم دیا:’’اور (اللہ نے) مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے جب تک میں زندہ رہوں۔‘‘ (سورۃ مریم، آیت 31)۔ انجیل میں بھی حضرت عیسیٰ اور انکے حواریوں کے سجدہ کرنے اور دعا مانگنے کا ذکر ملتا ہے۔ موجودہ اسلامی شریعت میں پانچ وقت کی نماز فرض ہے، جبکہ پچھلی امتوں پر پانچ وقت کی نماز اس ترتیب سے فرض نہیں تھی، بعض روایات کے مطابق بنی اسرائیل پر دن میں دو وقت کی نماز فرض تھی، صبح اور شام۔ یہودی روایات (تلمود) میں بھی تین نمازوں کا ذکر ملتا ہے جن کے اوقات حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ تورات میں زکوٰۃ کا تصور بھی موجود ہے، جسے ’’عُشر‘‘ (Tithe) کہا جاتا ہے، یعنی پیداوار یا آمدنی کا دسواں حصہ جو مسکینوں، یتیموں اور پردیسیوں کیلئے مخصوص ہوتا تھا۔ اور روزوں کے بارے میں تو وہ سورۃ البقرہ کی آیت 183 بہت مشہور ہے کہ ”اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے اُمّتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ۔‘‘ اور حج کے بارے میں بھی ہم جانتے ہیں کہ اہلِ مکّہ کعبے کا طواف کیا کرتے تھے لیکن اسلام کے بعد اُس کا طریقہ کار بدل دیا گیا۔
مدعا یہ ہے کہ نماز، روزہ، حج، زکوۃ، قربانی، یہ تمام عبادات اور رسوم و رواج کسی نہ کسی شکل میں اسلام سے پہلے بھی رائج تھے، نہ صرف ابراہیمی ادیان میں بلکہ ہندو مت جیسے مذاہب میں بھی۔ بے شک اسلام نے اِن عبادات میں ایک خاص قسم کا نظم پیدا کیا اور انہیں اصل شکل اور روح کے ساتھ نافذ کیا، لیکن تاریخی طور پر یہ عبادات نئی نہیں، دنیا کے مختلف مذاہب کے پیروکار، اِن میں سے کچھ عبادات پر، اپنے اپنے طریقہ کار کے مطابق آج بھی کار بند ہیں، لہٰذا کسی ایک مذہب کا ماننے والا کسی دوسرے مذہب کے پیروکار کو اُس کی کسی رسم یا عبادت کی بنیاد پر برتری یا کمتری کا طعنہ نہیں دے سکتا۔ مثال کے طور پر عید الاضحیٰ کے موقع پر مسلمانوں کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں جانوروں کو ذبح کرتے ہیں، بھارت میں تو اِس مرتبہ باقاعدہ قربانی کے خلاف مہم چلائی گئی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود ہندو مت میں اِس رسم کی تاریخ ملتی ہے، اور آج کا انڈیا، جو گاؤ ماتا کی پُوجا کرتا ہے، دنیا میں گائے کے گوشت کا چوتھا بڑا برآمد کنندہ ہے۔ دوسری طرف بہت سے مسلمان ایسے ہیں جو ابراہیمی مذاہب کے بارے میں قدرے نفرت انگیز رویہ رکھتے ہیں جو کہ سراسر قرآنی تعلیمات کے منافی ہے۔ یہ لوگ قرآن کی اُس آیت کا حوالہ دیتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے جبکہ یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ اِس آیت میں اشارہ اُن یہودی قبائل کی طرف تھا جنہوں نے میثاقِ مدینہ کی پاسداری نہیں کی تھی، اگر یہود و نصاریٰ کے بارے میں یہ حکم آفاقی ہوتا تو ہم ہر نماز میں ’آلِ ابراہیم‘ پر درود و سلام نہ بھیجتے! اور یہ آلِ ابراہیم کون ہیں؟ ہمارے فرسٹ کزن، وہی اہلِ کتاب جن سے نکاح جائز ہے۔
آج کی دنیا تعاون اور اتحاد پر چلتی ہے، اِس کی چھوٹی سی جھلک ہم نے حالیہ پاک بھارت جھڑپ میں دیکھی، چین کے اتحاد سے ہمیں جو فائدہ پہنچا وہ دنیا کے سامنے ہے۔ لہٰذا اگر ہم مذہب کی بنیاد پر داخلی اور خارجی سطح پر فرد اور اقوام کو مختلف خانوں میں بانٹتے رہیں گے اور اِس زعم میں مبتلا رہیں گے کہ ہم اعلیٰ و ارفع ہیں اور باقی لوگ کمتر، تو بطور قوم اِس کا نقصان سب سےزیادہ ہم کو ہو گا۔ باقی جو مزاجِ یار میں آئے!