میرے لئے کسی کو خوش دیکھنا ایک بہت مشکل کام ہے۔ چنانچہ مجھے جب کوئی شخص خوش نظر آتا ہے تو میرے دل پر چھریاں چلنے لگتی ہیں بلکہ مجھے تو وہ لوگ بھی زہر لگتے ہیں جو ساری عمر زندگی کے مشکل رستوں پر چلتے ہیں مگر ان کے دلوں میں زہر نہیں پلتا اور نہ وہ یہ زہر کسی اور کے دل میں پلتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ وہ مایوس ہونے کی بجائے خود بھی بہتر مستقبل کے لئے کوشش کرتے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی مایوس نہیں ہونے دیتے۔ میرے نزدیک اس قسم کے لوگ جو ہر وقت خوش نظر آئیں اور ہر طرح کے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں مجھے اپنے ذاتی دشمن لگتے ہیں کیونکہ جب مجھے زندگی میں کوئی خوشی نہیں ملی تو کسی اور کو یہ خوشی کیوں ملے؟۔ جب میں اپنے ہم عصروں کے خود سے آگے نکل جانے کی وجہ ان کی پبلک ریلیشن بتاتاہوں تو یہ کون ہوتے ہیں جو اپنی ناکامیوں کو کسی دوسرے کے کھاتے میں ڈالتے اور مایوس ہو کر بیٹھ جانے کی بجائے مسلسل اپنے اور دوسروں کے راستے کے کانٹے صاف کرنے میں لگے رہتے ہیں، کیا یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ مجھ سے بہتر انسان ہیں؟ میں ایسا کبھی نہیں ہونے دوں گا۔
گزشتہ روز شیخ ادریس میرے پاس آیا تو حسب معمول وہ بہت خوش تھا یہ ان ہزاروں لاکھوں احمقوں میں سے ایک ہے جو بلاوجہ خوش رہتے ہیں۔ مجھے اس کا خوش رہنا کبھی سمجھ نہیں آیا کیونکہ نہ وہ کسی اونچے عہدے پر فائز ہے، نہ اس کے بڑے لوگوں سے تعلقات ہیں، نہ اس کا کوئی بینک بیلنس ہے بلکہ وہ اے جی آفس میں ایک معمولی سپرنٹنڈنٹ ہے اور اوپر سے یہ بدنصیب رشوت بھی نہیں لیتا۔ سو مجھ سے اس کا خوشی سے تمتماتا چہرہ دیکھا نہیں گیا۔ میں نے یہ فیصلہ کیا کہ آج میں اسے خون کے آنسو رلوا کر یہاں سے بھیجوں گا۔ چنانچہ میں نے اس کے بیٹھنے کا انتظار بھی نہیں کیا اور اس سے اس کی خوشی کی وجہ بھی جانے بغیر نہایت سنجیدگی سے پوچھا ’’شیخ ادریس! تم مر کیوں نہیں جاتے؟‘‘ میرے لہجے کی سنجیدگی اور سوال کی گھمبیرتا سے شیخ ادریس تھوڑی دیر کے لئے پریشان سا نظر آیا جس پر مجھے دلی خوشی ہوئی مگر پھر وہ سنبھل کر بولا ’’تم کیوں چاہتے ہو کہ میں مر جائوں۔‘‘ میں نے جواب دیا ’’کمال ہے تمہیں پتہ ہی نہیں کہ مرنے میں کتنے مزے ہیں۔‘‘ اس دوران شیخ ادریس ایک بار پھر اپنے ہشاش بشاش موڈ میں واپس آ چکا تھا، ہنس کر بولا ’’مجھے تو پتہ نہیں تم بتائو۔‘‘ میں نے کہا ’’یار تم جیسا آدمی جو معاشرے کے لئے بالکل غیر اہم ہے، مرنے کی صورت میں ایک دم اہم ہو جاتا ہے۔ خاندان والے، محلے والے، دفتر والے اور جان پہچان والے اس روز اس کا ذکر کرتے ہیں، اس کی موت کے حوالے سے اس کے چرچے ہوتے ہیں، لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کی اچھائیاں تلاش کرتے ہیں، کیا یہ معمولی بات ہے؟ جب تم مروگے تو لوگ تمہیں اپنے ہاتھوں سے نہلائیں گے، حالانکہ تم ساری عمر بنکاک جانے کی خواہش کرتے رہے مگر تمہاری وہ خواہش تمہاری غربت کی وجہ سے پوری نہیں ہوئی۔‘‘
میری اس بات سے شیخ کچھ حیران سا ہوا اور بولا ’’مجھے تمہاری بات سمجھ نہیں آئی، میں نے تو بنکاک جانے کی کبھی خواہش ہی نہیں کی، اور فرض کرو اگر کی بھی ہوتی تو اس کا دوسروں کے ہاتھوں نہلائے جانے سے کیا تعلق ہے؟ اس پر میں نے اسے جھاڑ پلائی اور کہا تم اپنے تعلقات کی کمی کو ہر بات میں کوئی تعلق تلاش کر کے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش نہ کیا کرو۔
دراصل کسی بات کا جواب نہ دینا ہو تو اس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ دوسروں کو دفاعی پوزیشن میں ڈال دو چنانچہ شیخ ادریس پر بھی یہ حربہ کارگر ہوا اور وہ اپنا سوال بھول کر بولا ’’اچھا چھوڑو تم مجھے مرنے کے کچھ مزید فائدے بتائو۔‘‘ اس بار اس کے لہجے سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ میری باتوں سے خوفزدہ یا پریشان نہیں ہے بلکہ وہ الٹا ان باتوں کو انجوائے کررہا ہے۔ چونکہ مجھ سے کسی کی خوشی دیکھی نہیں جاتی لہٰذا مجھے اس کے یوں مزے لینے کا دکھ ہوا۔ مگر میں نے ہمت نہ ہاری اور اسے مرنے پر قائل کرنے کے لئے کچھ مزید INCENTIVE دیتے ہوئے کہا ’’تمہیں اچھی طرح نہلانے دھلانے کے بعد تمہیں سفید رنگ کا زیرو میٹر سوٹ پہنایا جائے گا، یہ ون پیس سوٹ عربی اسٹائل کا ہو گا اور تم پر بہت جچے گا۔ پھر تمہارے اہل خانہ تمہارے سر ہانے بیٹھ جائیں گے اور تمہارا نام لے لے کر بین ڈالیں گے۔ سچ بتائو تمہیں زندگی میں کبھی اتنی اہمیت ملی ہے؟‘‘ ۔
اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا نہیں؟ مجھے ایک بار پھر اس کی یہ ہنسی زہر لگی۔ مگر میں نے اپنا دل چھوٹا نہ کیا اور اسے مرنے پر آمادہ کرنے کے لئے اپنی کوشش جاری رکھتے ہوئے کہا ’’تمہیں اتنے سال سروس کرتے ہوئے ہو گئے ہیں لیکن تم اپنی بیٹیاں ہی بیاہتے رہے اپنے آرام کے لئے تم کار تو کیا ایک موٹر سائیکل بھی نہ خرید سکے۔‘‘ اس پر شیخ ادریس نے اثبات میں سر ہلایا تو میں نے کہا ’’لیکن جب تم مرو گے تو سواری تمہارے لئے کوئی پرابلم نہیں رہے گی، چار لوگ تمہاری چارپائی کو کاندھوں پر اٹھائے تمہیں خود میانی صاحب چھوڑکر آئیں گے بلکہ کئی معززین تمہاری چارپائی کو کاندھا بھی دیں گے۔ کیا تم نے اپنی زندگی میں کبھی اس عزت افزائی کا سوچا ہے؟‘‘۔ (جاری ہے)