(گزشتہ سے پیوستہ)
میرا خیال تھا کہ میری اس آخری پیشکش پر شیخ ادریس اگر خوشی سے اچھل نہ پڑا تو کم از کم مثبت ردعمل کامظاہرہ ضرور کرےگا مگر بالکل خلاف توقع اس بار اس نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا اور بولا ’’تمہاری بکواس ختم ہوگئی ہے یا ابھی مزید کچھ رہتی ہے؟‘‘۔مجھے اس کی اس بات پر شدید ذہنی دھچکا محسوس ہوا چنانچہ میں نے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’میں یہ سب کچھ تمہارے بھلے کے لئے کہہ رہا تھا کیونکہ تمہاری مفلسانہ زندگی پر مجھے ترس آتا ہے مگر افسوس تم نے میرے خلوص کی قدر نہیں کی۔‘‘یہ سن کر شیخ ادریس نے مسکراتے ہوئے میرے کاندھے تھپتھپائے اور بولا ’’بات یہ ہے کہ مجھے مرنے سے کوئی دلچسپی نہیں، زندگی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور میں اس نعمت کو انجوائے کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے جل کر جواب دیا ’’زندگی یقیناً اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے لیکن اس زندگی میں تمہیں اگر کوئی خوشی ملی ہو تو وہ بتائو۔‘‘یہ سن کر وہ بدبخت ایک بار پھر ہنسا اور بولا ’’کوئی ایک خوشی ہو تو بتائوں، میری زبان تو اس امر پر خدا کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتی کہ میری دونوں ٹانگیں کام کرتی ہیں، میں اپنے دونوں بازو پوری قوت سے ہلا بلکہ گھما سکتا ہوں، میری آنکھیں خوبصورت مناظر دیکھ سکتی ہیں، میں اپنے سارے کام خود کرسکتا ہوں،میری بیوی بہت اچھی ہے، اللہ نے مجھے اولاد بھی دی ہے اور وہ بہت فرما نبردار اور نیک ہے، لوگ میری عزت کرتے ہیں، میں اور میرے بچے کبھی بھوکے نہیں سوئے، ہم صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں، باقی دکھ اور محرومیاں بھی ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں لیکن میں ان کا گلہ کرنے میں لگا رہوں یا جو کچھ مجھے ملا ہے اس کا شکر اداکروں؟‘‘ مجھے شیخ ادریس پہلے بھی کبھی اتنا اچھا نہیں لگا تھا لیکن آج اس کی یہ باتیں سن کر مجھے اس سے شدید نفرت ہوگئی، یہ بات دکھ دے رہی تھی کہ جب میں زندگی سے خوش نہیں ہوں تو کسی اور کو خوش رہنے کا کیا حق ہے؟ تاہم ان لمحوں میں ، میں نے محسوس کیا کہ شیخ ادریس کو اپنی زیادتی کا احساس ہوگیا ہے کیونکہ اس نے اٹھ کر مجھے پیار سے گلے لگایا اور کہا ’’میرے دوست میں تمہارا مسئلہ سمجھتا ہوں، اس لئے تمہاری کسی بات کا برا نہیں مانتا بلکہ تمہیں بھی اگر میری کوئی بات بری لگی ہوتو مجھے معاف کردینا۔‘‘ میں اسے معاف کرنا چاہتا تھا مگر اگلے ہی لمحے اس نے ایک ایسی بات کہی جس سے ایک بار پھر میرا دل جل کر کباب ہوگیا۔ اس نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ’’انسان اگر خوش رہنا چاہے تو اسے روزانہ ایک خوشی بلکہ بہت بڑی خوشی بالکل مفت مل سکتی ہے اور اس طرح کی خوشیاں مجھے روزانہ ملتی ہیں۔‘‘ میں نےبددلی سے کہا ’’مثلاً آج تمہیں کونسی ایسی خوشی ملی ہے کہ جب تم میری طرف آئے تو معمول سےبھی زیادہ خوش نظر آ رہے تھے۔؟‘‘اس پر اس کے چہرے پر نور کی ایک جھلک سی دکھائی دی وہ کہہ رہا تھا ۔میرے دوست یہ اتنی بڑی خوشی ہے کہ مجھے اس کے اظہار کے لئے مناسب الفاظ بھی نہیں مل رہے۔ میں جب آج تمہاری طرف آ رہا تھا کہ اچانک میری نظر اپنے ڈیڑھ سالہ نواسے پر پڑی ، اس نے ابھی چلنا نہیں سیکھا تھا۔ مگر آج وہ اٹھااور میرے سامنے د و تین چار قدم چلنے کے بعد گر گیا۔ مگر اس کے بعد پھر اٹھا اور چند قدموں کے بعد پھر لڑکھڑا گیا مگر اس نے اپنی یہ کوشش جاری رکھی۔ میں بیان نہیں کرسکتا کہ اسے آج چلتے دیکھ کر مجھے اور میرے سب اہل خانہ کو کتنی خوشی ہوئی، اس خوشی میں، میں بازار سے مٹھائی لے کر آیا، ہم اہل خانہ دیر تک اپنی یہ خوشیاں سمیٹتے رہے۔‘‘
مجھے اس کی خوشی کی اوقات پر ہنسی آئی جو میں نے روک لی کیونکہ میں کبھی ہنستا نہیں ہوں، نہ کبھی مسکراتا ہوں کہ ہنسنے اور مسکرانے سے بھی معاشرے کے کھچائو میں کمی آتی ہے۔ اتنے میں شیخ ادریس واپس جانے کے لئے اٹھا، میں نے اسے روکنا چاہا کیونکہ میں ابھی اس کی اس طرح کی مزید احمقانہ خوشیوں کےبارے میں جاننا چاہتا تھا۔ بقول اس کے جن کی وجہ سے وہ ہمیشہ خوش اور پرسکون نظر آتا ہے مگر اس نے معذرت کی اور کہا مجھے جانا ہے۔ کیونکہ مجھے ہر جمعے کو مختلف اسپتالوں میں ان مریضوں کی عیادت کے لئے جانا ہوتا ہے جو لاوارث ہیں اور جن کی عیادت کے لئے کوئی نہیں آتا۔ وہ لوگ میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘
یہ سن کر میں نے اسے نہیں روکا، اس احمق شخص کو یقیناً اس کار لاحاصل سے بھی خوشی حاصل ہوتی ہوگی۔