اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی میں گزشتہ روز سندھ اور خیبر پختون خوا کے صوبائی بجٹ پیش کر دیے گئے ہیں جن میں درپیش مالی مشکلات کے باوجود بظاہر کوشش کی گئی ہے کہ روز افزوں مہنگائی اور غربت سے نیم جان عوام کوحتی الامکان سہولتیں فراہم کی جائیں۔ سندھ میں تنخواہ میں 12فیصد، پنشن میں 8 فیصد اضافہ، 5قسم کے محصول، چھوٹے کاروبار پر جی ایس ٹی ختم کرنے، خدمات پر سیلز ٹیکس کا استثنیٰ اور کم سے کم اجرت 37ہزار برقرار رکھنے اور اسی طرح خیبر پختون خوا میں تنخواہ 10فیصد، پنشن 7 فیصد، ماہانہ اجرت 40ہزار مقرر کرنے کے علاوہ تعلیم، صحت کے فنڈز میں اضافہ، پانچ مرلہ سےکم مکانات کیلئے پراپرٹی ٹیکس ختم اور پولیس کی سیلری پنجاب کے مساوی مقرر کر کے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے۔ دونوں صوبائی بجٹوں کے خدوخال یہ ہیں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صوبے کا34 کھرب 51 ارب روپے کابجٹ پیش کیا۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 20فیصد کٹوتی کی گئی ہے جبکہ تعلیم کے بجٹ میں 12.4فیصد اضافہ کیا گیا ہے صحت کیلئے 326.5ارب روپے اور بلدیات کیلئے 132ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ محاصل کا تخمینہ 676ارب روپے ہے اگرچہ مشکل حالات میں یہ اچھا بجٹ ہے تاہم بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس میں کراچی کے شہریوں کیلئے کوئی ریلیف نہیں۔ صحت بجٹ میں اضافہ خوش آئند ہے تاہم پرائمری ہیلتھ کیلئے رقم ناکافی ہے۔ پہلے سے اعلان کردہ تھیلیسیمیا سنٹر کا قیام ابھی تک نہیں ہو سکا۔ خیبر پختون خوا کا 2119ارب کا سرپلس بجٹ صوبائی وزیر خزانہ آفتاب عالم نے پیش کیا جس میں ترقیاتی اخراجات کیلئے 547ارب روپے مختص کیے گئے۔ صوبائی محصولات کی مد میں 129ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جس پر بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ محصولات کے اعداد وشمار میں مبالغہ آرائی کی گئی ہے۔ حکومتوں کیلئے بجٹ کو عوام کیلئے قابل قبول بنانا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے اور موجودہ معاشی حالات میں اس سے عہدہ برآ ہونا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔