سب بھول سکتے ہیں مگر میں احمد الجلبی کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ اپریل 2003ءمیں جب امریکی فوج نے عراق کے دارالحکومت بغداد میں صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ کیا تو میں اردن کے راستے عراق میں داخل ہوا۔ پاکستان میں جیو نیوز کی نشریات کے آغاز کو ابھی چند ماہ ہوئے تھے۔ جیو نیوز اور بی بی سی کی ٹیمیں ایک ساتھ بغداد میں داخل ہوئیں ہم سب کو بڑا اشتیاق تھا کہ صدام حسین کے کیمیائی اور ایٹمی ہتھیاروں کے ٹھکانوں تک پہنچ کر اپنی ماہرانہ رائے کا اظہار کریں لیکن بی بی سی کی لیز ڈوسیٹ سمیت کئی مغربی صحافیوں کے کچھ تحفظات تھے۔ ہم سب بغداد کے فلسطین ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک دن میں نے امریکی فوج کے ایک افسر کا انٹرویو کیا اور اس سےپوچھا کہ کیا آپ کو صدام حسین کے کیمیائی اور ایٹمی ہتھیار ملے؟ امریکی افسر نے نفی میں جواب دیا اور کہا کہ ہم بہت جلد ڈبلیو ایم ڈی (WEAPONS OF MASS DESTRUCTION) سامنے لے آئیں گے۔ جب ہم فلسطین ہوٹل کی چھت سے اپنے ویڈیو فون کے ذریعہ یہ انٹرویو اپنے نیوز روم کو بھیج رہے تھے تو برطانوی صحافی فیسک بڑی دلچسپی سے یہ انٹرویو سن رہے تھے۔ رابرٹ فیسک کو میں پہلے افغانستان میں مل چکا تھا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ امریکا کو صدام حسین کے ڈبلیو ایم ڈی کبھی نہیں ملیں گے۔ میں نے وجہ پوچھی تو فیسک نے کہا کہ دراصل ڈبلیو ایم ڈی ایک دھوکہ ہے ان کا کوئی وجود ہی نہیں۔ اگلے دن صدام حسین کے ایک مخالف عراقی لیڈر احمد الجلبی نے بغداد میں پریس کانفرنس کی اور کہا کہ بہت جلد صدام حسین کے ڈبلیو ایم ڈی دنیا کے سامنے آ جائیں گے۔ پریس کانفرنس میں رابرٹ فیسک بھی موجود تھے۔ انہوں نے احمد الجلبی سےکچھ سوالات کئے لیکن وہ جواب دیئے بغیر ہی امریکی سیکورٹی کے حصار میں موقع سے غائب ہوگیا۔ فیسک نے احمد الجلبی کو ایک انٹرنیشنل فراڈیا قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ شخص بنجمن نیتن یاہو کا عراقی ماڈل ہے۔ رابرٹ فیسک سال ہا سال سے مشرق وسطیٰ میں رپورٹنگ کر رہے تھے اور مشرق وسطیٰ کی پاور پالیٹکس کا انسائیکلو پیڈیا تھے۔ انہوںنے مجھے بتایا کہ احمد الجلبی کئی بینک فراڈکر چکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی کوالٹی یہ ہے کہ اچھی انگریزی بولتا ہے اور صدام حسین کا ہم وطن ہے لہٰذا امریکیوں کو آسانی سے بے وقوف بنا رہا ہے۔ فیسک نے کہا کہ مغربی میڈیا میں صدام حسین کے ڈبلیو ایم ڈی کا بیانیہ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نیتن یاہو نے بنایا اور پھر ستمبر 2002ء میں نیتن یاہو نے امریکی کانگریس کے سامنے حلفیہ بیان دیا کہ صدام حسین کے پاس ڈبلیو ایم ڈی ہیں اور دنیا کو ان ہتھیاروں سے سخت خطرہ ہے لہٰذا عراق پر حملہ کرکے ان ہتھیاروں پر قبضہ کیا جائے۔ نیتن یاہو 1996 سے 1999ء تک اسرائیل کا وزیر اعظم رہا تھا اور دوبارہ وزیر اعظم بننے کیلئے ڈبلیو ایم ڈی کارڈ کھیل رہا تھا۔ امریکا کو صدام حسین کے ڈبلیو ایم ڈی تو نہ ملے البتہ احمد الجلبی امریکا کے کندھوں پر بیٹھ کر پہلے عراق کا وزیر پٹرولیم اور پھر ڈپٹی وزیر اعظم بن گیا۔ کچھ عرصے بعد امریکیوں کوپتہ چلا کہ وہ ایران کے ساتھ بھی رابطے میں ہے لہٰذا اس فراڈیے کو عراق سے نکال دیا گیا۔ 2006ء میں لبنان اور اسرائیل کی جنگ کے دوران بیروت میں رابرٹ فیسک سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ فیسک کا کہنا تھا کہ جس طرح احمد الجلبی جیسے مفاد پرستوں نے امریکا کے ہاتھوں عراق کوتباہ کرایا اب نیتن یاہو جیسے مفاد پرست امریکا کو ایرا ن کے خلاف استعمال کریں گے۔ میں نے فیسک سے کہا کہ نیتن یاہو تو اب اسرائیل کا وزیر اعظم نہیں رہا۔ فیسک کو یقین تھا کہ عالمی صہیونی تحریک نیتن یاہو کو دوبارہ اسرائیل کا وزیر اعظم ضرور بنائے گی۔ فیسک بار بار نیتن یاہو کے باپ کا ذکر کرتا تھا جو گریٹر اسرائیل کا حامی تھا لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں فیسک کی عالمانہ گفتگو پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا کیونکہ میرا فوکس جنگ کی رپورٹنگ پر زیادہ تھا۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو حملے کی ٹائمنگ کے باعث مجھے رابرٹ فیسک بہت یاد آئے جو کہا کرتے تھےکہ نیتن یاہو امریکا کو ایران کے خلاف استعمال کرے گا۔ 15جون کومسقط میں ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا فائنل رائونڈ ہونے والا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو ایران پر حملے سے روکا اور کہا کہ مذاکرات کے فائنل رائونڈ کا انتظار کرو لیکن نیتن یاہو نے 13جون کو اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ 2009ءمیں اسرائیل کا دوسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد سے نیتن یاہو مسلسل ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف شور مچا رہا ہے۔ وہ 2009ء سے 2021ء تک وزیر اعظم رہا اور اس نے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے ذریعے ایران کے کئی ایٹمی سائنسدانوں کو قتل بھی کرایا۔ 2022ء میں وہ تیسری مرتبہ اسرائیل کا وزیر اعظم بن گیا۔ وہ اسرائیل کی تاریخ میں سب سے طویل مدت تک حکومت کرنے والا وزیر اعظم ہے کیونکہ اس کی پشت پر عالمی صہیونی تحریک ہے۔ اس کا باپ بینزیوں نیتن یاہو عبرانی زبان کا پروفیسر تھااور گریٹر اسرائیل کا حامی تھا۔ گریٹر اسرائیل میں پورا فلسطین، شام، لبنان اورمصر کے کچھ علاقے شامل ہیں۔ بنجمن نیتن یاہو کا دادا میلیکووسکی نیتن یاہو ایک روسی یہود ی تھا اور ربی (مذہبی رہنما) تھا جو 1924ء میں یروشلم آیا اور اس نے اسرائیل کے قیام کی تحریک شروع کی۔ بنجمن نیتن یاہو یروشلم میں پیدا ہوا لیکن اس نے امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ وہ 1967ء اور 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں حصہ لے چکا ہے اور جنگ میں زخمی بھی ہوا۔ وہ اپنے باپ اور دادا کی طرح عربوں کو فلسطین سے جلا وطن کرنے اور گریٹر اسرائیل کے قیام پر یقین رکھتا ہے اور اس مقصد کیلئے امریکا کو استعمال کرنے کی کوشش میں ہے۔ نیتن یاہو کی ہر ممکن کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح ایران کے خلاف جنگ میں امریکا کو بھی گھسیٹ لے اور اسی لئے وہ امریکی لہجے میں انگریزی بول کر امریکیوں کو یقین دلا رہا ہے کہ میں تو آپ کی جنگ لڑ رہا ہوں کیونکہ ایرانی ’’مرگ بر اسرائیل‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’مرگ بر امریکا‘‘ کا نعرہ بھی لگاتے ہیں اس لئے میں ایران کے ایٹمی ہتھیار تباہ کر رہا ہوں۔ نیتن یاہو کا خیال تھا کہ جس طرح پچھلے سال اس نے ایران میں اسماعیل ہانیہ کو قتل کردیا اور ایران اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا تو اس سال بھی ایسا ہی ہوگا اور اس نے ایران پر حملہ کردیا۔ اس حملے میں ایران کی فوجی قیادت کا آسانی سے نشانہ بن جانا ایران کی ناکامی تھی لیکن پھر ایران کا جوابی حملہ نیتن یاہو کے وہم و گمان میں بالکل نہ تھا۔ یقیناً ایران کا بہت نقصان ہوا لیکن ایرانی میزائلوں نے اسرائیل کا غرور خاک میں ملا دیا ہے۔ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان اور سعودی عرب سمیت اکثر مسلم ممالک ایران کےساتھ کھڑے ہیں۔ یاد رکھئے کہ اگر اسرائیل اس مرتبہ ایرا ن کو زیر کرنے میں کامیاب ہوگیا تو اس کا اگلا نشانہ پاکستان ہوگا کیونکہ مودی اور نیتن یاہو ایک ہیں۔ نیتن یاہو ایران سے زیادہ اسرائیل کا دشمن نکلا ہے۔ احمد الجلبی نے تو امریکا کے ہاتھوں عراق کو تباہ کرایا لیکن نیتن یاہو کی رعونت نے ایران کے ہاتھوں اسرائیل کے فوجی گھمنڈ کا جنازہ نکال دیا۔