• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

7؍جون 1981ء کی شام چار بجے امریکہ ساختہ F-15 اورF-16جنگی جہازوں نے اسرائیل سے اڑان بھری اور بغداد کے قریب عراق کے جوہری پلانٹ کو تباہ کردیا ۔بعد ازاں دعویٰ کیا گیا کہ صدام حسین ایٹم بم بنانے کے منصوبے پر کام کررہے تھے ۔یہ وہ دور تھا جب پاکستان بھی ایٹمی طاقت بننے کی کوشش کررہا تھا۔جب افغان جہاد ختم ہوگیا اور امریکی حکام نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں تو پاکستان کا ایٹمی پروگرام آنکھوں میں کھٹکنے لگا۔کئی بار یہ منصوبہ بنایا گیا کہ پاکستان کے نیوکلیئر پلانٹس پر حملہ کرکے انہیں ناکارہ بنادیا جائے تاکہ ایٹم بم بنانے کے خواب حقیقت کا روپ دھارنے سے پہلے ہی چکنا چور ہو جائیں ۔سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ مرزا کے مطابق 1990ء میں جب بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں تو امریکہ، اسرائیل اور بھارت نے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنیکا منصوبہ تیار کیا۔ دراصل یہ منصوبہ پہلی بار اندراگاندھی کے دور میں سامنے آیا اور انہوں نے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز پر حملہ کرنے کی منظوری بھی دیدی تھی تاہم بعد ازاں جب راجیو گاندھی نے حکومت سنبھالی تو یہ منصوبہ التوا کا شکار ہوگیا۔ بعدازاں جب پاکستان میں بینظیر بھٹو جبکہ بھارت میںوشواناتھ پرتاب سنگھ وزیراعظم تھے تو یہ خواہش پھر سے انگڑائی لینے لگی۔ قبل ازیں 1988ء میں پاکستان اور بھارت دوطرفہ معاہدے پر دستخط کرچکے تھے کہ ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہیں کیا جائیگا اور ہر سال جوہری پلانٹس کی فہرست بھی ایک دوسرے سے شیئر کی جارہی تھی۔ مگر درونِ خانہ پاکستان پر مہلک وار کرنے کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں۔ پاکستان کے خفیہ اداروں نے اس خوفناک سازش کا سراغ لگالیا اور تمام تفصیلات حاصل کرلیں۔ مئی 2025ء میں پاک بھارت کشیدگی کے دوران آسام کے وزیراعلیٰ Himanta Biswa Sarmaاس خفیہ منصوبے پر عملدرآمد نہ کرنے کو بھارتی قیادت کا تاریخی بلنڈر قرار دے چکے ہیں۔ انکے علاوہ بھی کئی اہم شخصیات اس طرح کے منصوبے کا اعتراف کرچکی ہیں۔ بہرحال خفیہ اداروں کی طرف سے وزیراعظم بینظیر بھٹو کو بتایا گیا کہ کب اسرائیلی جنگی جہاز اُڑے ،پاکستان کی سرحد کے قریب منڈلاتے ہوئے صورتحال کا جائزہ لیا اور پھر جمن نگر اور اُدھم پور ایئر بیس پر لینڈ کرگئے۔ بینظیر بھٹو نے پاکستانی سفیر کے ذریعے بھارتی حکومت کو پیغام بھیج کر خبردار کیا کہ اس طرح کی مہم جوئی کی حماقت نہ کریں ورنہ ہم ایسا جواب دینگے کہ دنیا یاد رکھے گی۔پاک فضائیہ کے شاہینوں کو احکامات دیئے گئے کہ اس قسم کے خطرے کی صورت میںF-16جنگی جہازوں کے ذریعے فدائی مشن پر بھارت کا رُخ کریں ،یہ سوچ کر روانہ ہوں کہ واپس نہیں آنا ۔بھارت کے تمام ایٹمی اثاثوں کو تباہ و برباد کردیں ۔1988ء میں ہونیوالے معاہدے کے تحت حکومت پاکستان کے پاس بھارت کی تمام ایٹمی تنصیبات کی فہرست موجود تھی۔ صورتحال کی نزاکت کے پیش نظر امریکی حکام متحرک ہوئے اور یوں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کرنے کا منصوبہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑ گیا۔ جب بھارت نے 11اور پھر13مئی 1998ء کو پوکھران میں ایٹمی دھماکے کردیئے اور اسکے جواب میں پاکستان نے جوہری صلاحیت کا مظاہرہ کرنا تھا تو تب بھی یہ خدشہ موجود تھا کہ اسرائیل اور بھارت کی فضائیہ ایک مشترکہ آپریشن کے ذریعے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنا سکتی ہیں تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ مگر اس وقت کی عسکری اور سیاسی قیادت نے پاکستان دشمنوں کے ان ناپاک ارادوں کو ناکام بنا دیا۔ یہ سب باتیں ایران پر اسرائیلی جارحیت کے تناظر میں یاد آئیں کیونکہ گزشتہ ماہ پاکستان کو بھی بھارت کی طرف سے اسی نوعیت کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم ایک واضح فرق یہ ہے کہ پاکستان نے دشمن کے اِرادوں کو خاک میں ملا دیا مگر ایران کو ناقابل تلافی نقصان اُٹھانا پڑا۔آپ کو یاد ہوگا،ا س سے پہلے امریکہ نے جنرل قاسم سلیمانی کو نشانہ بنایا ،پھر اسماعیل ہانیہ کو شہید کردیا گیا مگر اسکے جواب میں محض علامتی اور ملامتی نوعیت کے میزائل حملوں کے سوا کچھ نہ کیا جاسکا۔ لیکن اب تو ایران کی ساری قیادت ہی ترنوالہ ثابت ہوئی۔ ایرانی فوج کے سپہ سالار جنرل محمد باقری، پاسداران انقلاب کے کمانڈر انچیف جنرل حسین سلامی ،خاتم الانبیاء ہیڈ کوارٹر کے کمانڈر میجر جنرل غلام علی راشد ،ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر جنرل امیر علی حاجی زادہ اور کئی نمایاں جوہری سائنسدان اسرائیلی حملوں میں جاں بحق گئے۔ یہ خفت اُٹھانے کے بعد ایران نے اسرائیل پر میزائل حملوں کے ذریعے دہشت تو پھیلائی لیکن جس طرح تہران میں قیادت کو چن چن کر مارا گیا اس طرح اہم اسرائیلی شخصیات کو نشانہ نہ بنایا جاسکا۔ میں اتوار کی صبح جب یہ کالم لکھ رہا ہوں تو ایران کے حوالے سے نہایت پریشان کن خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔بلاشبہ ہماری دعائیں اور ہمدردیاں برادر اسلامی ملک ایران کیساتھ ہیں ،پاکستان نے عالمی سطح پر اسرائیلی جارحیت کیخلاف نہایت واضح ،دوٹوک اورسخت موقف اختیار کیا ہے لیکن سبق آموز بات اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ جب آپ فہم و فراست اور حکمت و دوراندیشی سے اپنی طاقت مجتمع کرنے کے بجائے محض بیان بازی اور جذباتیت پر انحصار کرتے ہیں تو یہی انجام ہوتا ہے۔آج مجھے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس ہورہا ہے ،اپنی قیادت کی معاملہ فہمی اور سیاسی تدبر کا اِدراک ہورہا ہے۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر اشفاق احمد اور کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان سمیت تمام جوہری سائنسدان تو پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے پر مبارکباد کے مستحق ہیں ہی مگر ذوالفقار علی بھٹو سے میاں نوازشریف تک وہ سب سیاسی قائد ہمارے محسن ہیں جنہوں نے عالمی دبائو کا سامنا کرتے ہوئے اس منزل کے حصول کو یقینی بنایا۔ ہماری فوج ،ہمارے خفیہ اداروں نے نجانے کتنے ہی ایسے منصوبوں کو خاک میں ملایا جنکا مقصد پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنا تھا۔ اگر ایران ایٹم بم بنا چکا ہوتا تو اسرائیل کسی صورت حملہ کرنے کی ہمت نہ کر پاتا۔ اقبال کے الفاظ مستعار لیں تو

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

تازہ ترین