اپنی دھرتی سے محبت کرنے والوں کا ماننا ہے کہ پاکستان کے بدترین دشمن دو نہیں تین ہیں، اسرائیل اور بھارت تو سرحدوں کے باہر سے پاکستان کی بقاء کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں لیکن تیسرا بدترین دشمن عمران خان ملک کے اندر بیٹھ کر ملک کی تباہی کی کوششوں میں ہے۔اگر تحریک انصاف کو ریاست سے کوئی ایسی گزند پہنچی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اسرائیل اور بھارت کے ساتھ کھڑے ہوجائیں اور پاکستان کا وجود دنیا کے نقشے سے مٹانے کے ایجنڈے پر لگ جائیں جو جمہوری عمل سے متصادم اور غداری کے معنی اختیار کر لیتا ہے جس کی تعریف و تشریح آئین پاکستان میں واضح ہے-اس سوال کا جواب تحریک انصاف کے شرپسندوں کے پاس نہیں کہ ریاست اور فوج سے نفرت کا منطق کیا ہے اور کیوں فوج کو دنیا میں بدنام کرنے کی زہریلی مہم چلا رکھی ہے جبکہ پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستانی افواج نے چھ گنا زیادہ عسکری طاقت کی دعویدار بھارت کو مختصر ترین وقت میں وہ دھول چٹائی جسے تاریخ رہتی دنیا تک یاد رکھے گی لیکن عمران خان کے شرپسند بریگیڈ نے پاکستان کی عسکری قوت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی اور ملک میں سپیلوں اور بچھوؤں کی صورت میں پھیلے ہوئے یوتھیوں نے یہ شوشہ چھوڑ کر بھارت کا ترجمان بننے کی کوشش کی کہ یہ معرکہ تو بری فوج نے نہیں بلکہ فضائیہ نے سر کیا ہے۔ملک دشمنی کے تعفن زدہ ذہنوں اور اسرائیلی اور بھارتی ترجمانوں کی یادہانی کے لئے یہ کہنا کافی ہے کہ ائر فورس اور نیوی بھی اسی افواج کا اہم حصہ ہیں جس کا پاکستان کی بری فوج حصہ ہے-پاک بھارت جنگ کے ایک آدھ دن پہلے ایک ’’یوتھی دانشور‘‘ صدیق جان نے بھارتی ہمخیال کو’’دانشمندانہ‘‘ مشورہ دیا کہ اگر بھارت پاکستان پرحملہ کر دے پاکستان پر بآسانی قبضہ کر سکتا ہے کیونکہ پاکستان کی نوجوان نسل عمران خان کے حکم پر بھارتی فوج کی مدد کریں گے لیکن عمران خان اور ان کی ’’بے غیرت بریگیڈ‘‘ کو پاک بھارت جنگ کے نتائج دیکھ کر بھی کوئی شرم محسوس نہیں ہوئی کہ وہ پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے بھارت اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور انہی کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں- کیا ملک دشمنوں کے اشاروں پر ناچنے والے یوتھیے اس ملک کی سلامتی کے لئے جانیں قربان کرکے پاکستان کا وقار بلند کرنے والوں کے سامنے محب وطن پاکستانی کہلانے کے حقدار ہیں یا پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کا ایجنڈا رکھنے والے دشمنوں کی صفوں میں کھڑے عمران خان اور اس کے یوتھیے؟ لیکن وہ دن دور نہیں جب تاریخ پاکستان کو مٹانے والوں کا نام و نشان مٹتا دیکھے گی- حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو پاکستانی افواج کی جانب سے بھارت کی درگت گوارا نہیں، اسی لئے وہ اپنے بھارتی اور اسرائیلی آقاؤں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوششوں میں پاکستانی افواج کے خلاف اپنے ذہن کا گند انڈیل رہے ہیں جس کا تعفن ان کے اندر ہی پھٹ سکتا ہے- اسرائیل اور بھارت کے حکم پر دنیا میں پھیلے تحریک انصاف کے شرپسندوں نے بری فوج کے اس سربراہ کے خلاف ایک بار پھر مہم شروع کی جس سے مذاکرات کے لئے عمران خان ترس رہے ہیں اور اسی عمران خان نے پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کے ذریعے فیلڈ مارشل کے دورۂ امریکہ کے دوران بھرپور مظاہرے کرنے کا حکم دیا ہے اس سلسلے میں چیئرمین پی-ٹی-آئی نے بانی کی جانب سے امریکہ میں رہائش پذیر پاکستانیوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ فیلڈمارشل کے مظاہرے کے لئے مقررہ مقام تک پہنچیں- ادھر اوورسیز پاکستانی گلوبل فاؤنڈیشن کے چیئرمین ظہیر مہر کے مطابق OPGF نے ملک کو بدنام کرنے کی اس سازش کو ناکام بنانے کے لئے فیلڈمارشل کا استقبال کرنے کی بھرپور تیاریاں کی ہیں جس کے نتیجے میں ریاست مخالف یوتھیوں کے حوصلے پست ہوگئے ہیں اور مظاہرے کے لئے نکلنے کے لئے تیار دکھائی نہیں دے رہے ہیں-بے شرم ہیں وہ لوگ جو پاکستانی روپ میں بھارت کی زبان بولتے ہیں اور ہر سطح پر ریاست اور فوج کو نقصان پہنچانا ان کے بیرونی ایجنڈے میں سرفہرست ہے جس کے تحت ریاست کو ہی نہیں اپنی ماں کو بھی ’’گندی گالی‘‘ دینے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے جس نے انہیں اپنی کوگھ میں رکھا، انہیں جنم دیا اور پروان چڑھایا۔امریکی صدر ٹرمپ نے ایک موقع پر ایک انٹرویو میں کہا تھا،’’میرے پہلے دور میں جب میں نے ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کو ایک میزائل حملے میں مروایا تھا، مجھے پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے فون کرکے کہا کہ مجھے زندگی میں کبھی اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی قاسم سلیمانی کی ہلاکت کی ہوئی۔‘‘ عمران خان کو برگزیدہ ہستی تصور کرنے والوں کے لئے یہ پیغام کافی ہے کہ یہودیت اور یزیدیت کا نظام ہے، ریاست مدینہ کا نہیں-اگرتحریک انصاف کے کیڑے مکوڑوں کے خلاف قانون اور آئین کے تحت کارروائی کی تو ایسے بچھو آزادئ اظہار رائے اور انسانی حقوق کے نام پر پھنئیر سانپوں کی شکل اختیار کر کے بھارتی اور اسرائیلی میڈیا کے ذریعے عالمی سطح پر’’پاکستان دشمن‘‘ کے طور قبولیت حاصل کرسکتے ہیں اور پاکستان دشمن قوتوں سے مفادات حاصل کرنے کے اہل قرار پا سکتے ہیں اور یہی ان کا مطمع نظر ہے۔