• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: رائنہ خان

ملبوسات: راز کلیکشن بائے سلمان

آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر

کوآرڈی نیشن: محمّد کامران

عکّاسی: ایم کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

معروف صحافی، کالم نگار، ڈراما نویس، منّو بھائی سے ایک واقعہ منسوب ہے کہ ’’ایک بار ایک عورت میرے پاس آئی، جس کی آنکھیں رو رو کے سوجی ہوئی تھیں۔ اُس نے کہا کہ وہ اپنے بچّے کی گم شدگی کی خبر لکھوانے آئی ہے۔ اُس نے بتایا کہ اُس کا بیٹا سات سال کا ہے، محمّد انور نام ہے۔ مَیں نے پوچھا۔ ’’اُس نے کپڑے کیسے پہنے ہوئے تھے؟‘‘ تو کہنے لگی۔ ’’نیلے رنگ کی قمیص، پیروں میں ہوائی چپّل۔‘‘ مَیں نے پوچھا۔ ’’اور شلوار.....؟‘‘ بولی۔ ’’سفید، مگر اب تو میلی ہوگئی ہوگی۔‘‘ تب دفعتاً میرے ذہن میں آیا کہ اِس کی جگہ، اگر بچّے کا باپ یہ خبر لکھواتا تو وہ صرف سفید شلوار ہی لکھواتا۔

لیکن ماں چوں کہ روز اُسے دُھلی ہوئی سفید شلوار پہناتی ہوگی، تو اُسے فوراً یہ خیال آیا کہ سفید شلوار تو اب تک میلی ہوچُکی ہوگی۔ اِسی طرح اگر بچّے کی بہن ہوتی، تو شاید وہ بھی یہی لکھواتی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ عورت اور مرد کے سوچنے کے انداز میں بڑا واضح فرق پایا جاتا ہے اور اِسی بات نے میرے اندر، ایک نیا احساس اجاگر کیا کہ تمام تر معاملاتِ زندگی کو ایک عورت کی نگاہ سے دیکھنا بھی بہت اہم ہے۔‘‘

اِسی بات کو ایک مفکّر نے یوں بھی کہا ہے کہ ’’اگر تم حالات میں تبدیلی چاہتے ہو، تو معاملات کو ایک عورت کی نظر سے دیکھنا شروع کرو۔‘‘ جیسا کہ نام وَر امریکی لکھاری، موٹیویشنل اسپیکر، ڈ اکٹر وے ین ڈائر (Dr. Wayne Dyer) نے بارہا کہا کہ ’’جب آپ چیزوں کو دیکھنے کا انداز بدلتے ہیں، تو درحقیقت وہ ساری چیزیں ہی یک سر بدل جاتی ہیں۔‘‘ آپ چاہیں تو کسی بھی طرح یہ تجربہ خُود کرکے دیکھ لیں۔ لوگوں کے انداز، رویّوں سے لے کر موسم، اِرد گرد کے ماحول، آس پاس موجود اِک اِک شئے کو آپ اپنی مثبت و منفی سوچ، طرزِ عمل کے تحت جیسے چاہیں ڈھال، اپنا سکتے ہیں۔ 

کسی سے پرخاش ہو، شدید غصّہ آرہا ہو، تو اُس کی ساری خُوبیاں بھی، خامیاں لگنے لگتی ہیں۔ کوئی شئے دل کو نہ بھائی ہو۔ بروقت نہ مِلی ہو، لانے والے سے کوئی کَد ہو، تو پھر وہ شئےلاکھ سونا ہو، مگر جب اُسے مٹّی کرنے کی ٹھان ہی لی ہے، تو پھر مٹّی ہی ہو کر رہے گی۔ یوں ہی تو نہیں کہا جاتا کہ ’’حُسن دیکھنے والی نگاہ میں ہوتا ہے۔‘‘ اور یہ بھی کہ ’’محبوب کی خامی بھی خُوبی بن جاتی ہے۔ 

اُس کے عیب بھی ہنر معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اور..... بات اگر زن کے حُسنِ ظن، حُسنِ نظر کی ہو، تو عورت تو پھر واقعتاً اِک اِک امر سے متعلق ایک الگ ہی قیاس، تصوّر، سوچ، خیال، رائے، مشاہدہ، تجربہ، یقین، عقیدہ رکھتی ہے۔ 

بظاہر لاکھ سر ہِلا ہِلا کے دنیا سے اتفاق بھی کرتی رہے، لیکن ’’اندر خانے‘‘ وہ ہر اِک شئےکو اپنی سمجھ بوجھ، عقل و شعور، خالص نسائی جذبات و احساسات ہی کے تحت چھانتی پھٹکتی، پرکھتی ہے۔ سو باتوں کی ایک بات کہ ’’عورتوں کی باتیں، عورتیں ہی جانیں۔‘‘

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایک عورت کا اگر جیتے جی کسی چیز سے رَجّ (سیر ہونا) نہیں ہو سکتا، تو وہ ملبوسات اور لوازماتِ آرائش و زیبائش ہی ہیں۔ تب ہی تو ہم ہر ہفتے ایک سے بڑھ کر ایک بزم سجائے چلے جاتے ہیں۔ اب آج ہی کی پھولوں، رنگوں، خوشبوؤں سے لب ریز محفل دیکھ لیں۔ 


سیاہ و سُرخ کے دل نشین امتزاج میں لان کا ایک حسین تِھری پیس پہناوا ہے، تو عنّابی مائل آتشی کے ساتھ مسٹرڈ کے کامبی نیشن میں پھول دار پرنٹ کے دل رُبا انداز کا بھی جواب نہیں۔ ڈارک پِیچ رنگ پرنٹڈ لباس کی جاذبیت موسم کے ساتھ خُوب لگّا کھا رہی ہے، تو گلابی و کاسنی کی ہم آہنگی میں بھی ایک ہلکا پُھلکا، ٹھنڈا ٹھار سا اسٹائل ہے اور نیوی بلیو رنگ کے میچنگ سیپریٹس کے ساتھ پرنٹڈ ڈوریا دوپٹے کی ہم آمیزی کے تو کیا ہی کہنے۔

نہ صرف معاملاتِ حیات و ممات، اسرار و رموزِ کائنات اِک عورت کی نگاہ سے یک سر جداگانہ دکھائی دیتے ہیں، لوازماتِ حُسن و آرائش کے ضمن میں بھی وہ اپنی ایک الگ ہی نگاہ، مختلف و منفرد زاویۂ نظر رکھتی ہے۔ 

جیسا کہ اِن رنگ و انداز سے خُوب سج سنور کر، آئینے سے بےاختیار ہی مخاطب ہو کے بھی کہا جا سکتا ہے ؎ رُوح کاغذ، کلام خوشبو ہے… کیا نمایاں پیام خوشبو ہے… ہے تمہارے خمیر کی خوشبو… تم جو کہتے ہو، عام خوشبو ہے… ہم سے تحفے میں پھول کیوں کرلے… اُس کا تو اپنا نام خوشبو ہے… پھول موسم کی نذر ہوگئے سب… جس نے پایا دوام خوشبو ہے… کوئی میرے قریب آیا ہے… کیوں نہ بھیجوں سلام خوشبو ہے…بات آغاز پھول سے ہوگی…بات کا اختتام خوشبو ہے۔