آج میں آپ کو ایک بہت پرانی کہانی سنانے جا رہا ہوں۔ کہانی سنانے سے پہلے میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ آپ کو کہانی سنانے کیلئے میں علی گڑھ نہیں جا رہا۔ میں کہیں بھی نہیں جارہا۔ یہیں سے جہاں پر فی الحال میں ہوں، بیٹھ کر کہانی سنانے جارہا ہوں۔ پھر وہی غلطی کربیٹھتا ہوں۔ میں کہیں نہیں جا رہا۔ جہاں ہوں، وہیں سے کہانی سنانے جارہا ہوں۔ مگر یقین جانیے میں کہیں نہیں جارہا۔ یہ وہ جانا اور آنا ہے، جو اپنی جگہ بیٹھے ہوئے آپ سرانجام دیتے ہیں۔
بہت پرانی کہانی ایک بہت پرانے ملک پرانے لوگوں کے بارے میں ہے۔ آپ حیران ہونگے کہ پرانے دور کا ملک اور اس ملک کے پرانے لوگ آج بھی اقوام عالم کے سرخرو ممالک کی صف اول میں موجود ہیں اور اعلیٰ معیار کی ضمانت ہیں۔
حالانکہ میں بہت پرانے ملک، بہت پرانے ملک کے پرانے لوگوں کی کہانی سنارہا ہوں۔ مگر پھر بھی ڈرتا ہوں۔ خوف زدہ ہوں۔ پتا نہیں چلتا کہ کہانی کے کس موڑ پر ارباب اختیار کو طیش آجائے اور آپ کو غائب کرادیں۔ اس ے بعد نہ ہوں گے آپ، نہ ہوگی پرانے دور کی کہانی اور نہ ہوگا پرانے دور کی کہانی سنانے والا۔ اس نوعیت کی ذہنی کیفیت کب اور کیوں ہوتی ہے؟ جواب جانتے ہوئے بھی میں کچھ کہنے سے گریز کرتا ہوں۔ میں خاموش رہنا چاہتا ہوں۔ میں بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میں خوفزدہ ہوں۔ ڈرا ہوا ہوں۔ سہما ہوا ہوں، کیا میں نے کسی قسم کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ تفتیش کے مختلف مراحل سے گزرا ہوں۔ تاریک کوٹھڑیوں میں پڑے پڑے وقت اور وقت کے لمحوں سے بے خبر اور لاعلم ہوچکا ہوں۔ یا میں اذیت کے ایسے ایسے روح فنا کردینے والے ادوار سے گزرا ہوں کہ دوبارہ اس دنیا میں آنے کے خوف سے کانپ اٹھتا ہوں۔
جی نہیں، میرے ساتھ ایساکچھ نہیں ہوا۔ میں پیدائشی طور پر ڈرپوک ہوں۔ میں نے ڈر ڈر کر زندگی گزاری ہے۔ خوف میری رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے۔ میں کسی قسم کے جوکھوں میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ اگر کہیں کچھ غلط ہو رہا ہو، میں آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ بزدل ہوں۔ کمینہ ہوں۔ نالائق لوگوں کو اقتدار کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان دیکھ کر چپ رہتا ہوں۔ منہ سےکچھ نہیں کہتا۔ بھڑوں کے چھتوں سے چھیڑچھاڑی نہیںکرتا۔ تنہائی کے جنگلوں میں سوچتا ہوں کہ میں اس قدر ڈرپوک کیوں ہوں۔ بزدل کیوں ہوں۔ میں نے کس قسم کے معاشرے میں پرورش پائی ہے؟
اپنے کائرتا کے قصے سنا کر میں آپ کو بور کرنا نہیں چاہتا۔ میں میلے میں گم ہوگیا ہوں۔ ڈھونڈنے والے کبھی مجھے تماشائیوں میں تلاش کرتے ہیں اور کبھی مجھے تماشوں میں تلاش کرتے ہیں۔ میں کسی کو نہیں ملتا۔ جیب میں بند دروازے کی چابی رکھ کر بھول جانیوالے سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں کی جاتی۔ آپ پرانے ملک، پرانے ملک کے پرانے لوگوں کے قصے سنیے، اپنے ہی گھر کے بند دروازے کے باہر بیٹھ کر سوچنے والے کو بھول جایئے۔
پرانا ملک ایسا ہی تھا۔ بلکہ ہے۔ جیسا آپ کا ملک ہے۔ اتنی سی بات کرنے کے بعد میں سوچ میں مبتلا ہوگیا ہوں کہ میں اپنے ملک کا نام تک لیتے ہوئےکانپ کیوں جاتا ہوں؟ اپنے ملک اور ملک کے سربراہوں کی بات کرتے ہوئے دل کیوں کانپ جاتا ہے؟ مجھے کپکپی کیوں لگ جاتی ہے؟ میں تو کبھی نہیں کہتا کہ میرے ملک میں مہنگائی عروج پر ہے۔ میرے ملک کے اٹھاسی فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہیں۔ منفی باتیں میرے ملک اور ملک کے حکمرانوں کو بدنام کرنے کے لئے کی جارہی ہیں۔ ہمارے ہاں سب اچھا ہے۔ کچھ بھی خراب نہیں ہے۔ یہ غلط ہے کہ ایم بی بی ایس کے ایک سال کی فیس اٹھارہ لاکھ روپے ہے۔ آپ چونک جائیں گے سن کر کہ ہمارے ہاں پرائمری سے اعلیٰ تعلیم تک تعلیمی نظام مفت ہے۔ آپ ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں۔ آپ انجینئر بننا چاہتے ہیں۔ آپ پی ایچ ڈی کی ڈگری لینا چاہتے ہیں، آپ سے کسی قسم کی فیس نہیں لی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم مفت ہے اور ہمارے ملک کے سوفیصد لوگ پڑھے لکھے ہیں ۔ آپ دیرینہ دشمن کے پروپیگنڈہ پر کان مت دھرا کریں۔
دشمن کو منہ توڑ جواب دیںاور بتائیں کہ ہمارے ہاں ملک کے چپے چپے پر اسپتالوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ انیس سو سینتالیس سے آج تک حکومتوں نے ملک کے ہر فرد کے مفت علاج معالجے کا مکمل بندوبست کر رکھا ہے۔ دشمن کی بیہودہ باتوں پر توجہ مت دیا کریں۔ آپ ملک کے سائنسدانوں اور تخلیقی اور اختراعی صلاحیتوں کے قصے سنیے اور آسمانوں کی طرف دیکھئے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ روز اول سے ہمارا ملک سائنس اور ٹیکنالوجی میں صف اول کے ممالک میں شامل تھا۔ قدرت نے جہاں ہمیں بیش بہا معدنیات سے نوازا ہے، ہمیں صاحب فہم جوہر، اور غیر معمولی قابلیت والے ذہین اشخاص میں بھی خود کفیل کیا ہوا ہے۔ ہماری تاریخ پر ان کے کارناموں کی مُہر لگی ہوئی ہے۔ ایک مرتبہ دشمن کی حرفتوں کی وجہ سے ہماری زمینیں ویران ہوگئی تھیں۔ ہمارے سائنس دانوں نے ایسی کھادیں بنائیں کہ بیج بونے کے بعد ایک ہفتہ کے اندر زمین سے گیہوں، چاول، سبزیاں اور فروٹ پھوٹ پڑتے ہیں۔ دنیا میں جہاں جہاں بھوک اور افلاس ہے، ہم ان کا پیٹ پالتے ہیں۔ ایک مرتبہ ملک میں بیروزگاری بڑھ گئی تھی۔ ہمارے ذہین سائنس دانوں نے ایسے ایسے بم چلائے کہ آنکھ جھپکتے ملک کے چپےپر ملیں، کارخانے، فیکٹریاں لگ گئیں۔ درآمدی، برآمدی اور بین الاقوامی بیوپار کے وسائل کھل گئے۔ روزگار کے اتنے ذرائع کھل گئے کہ لوگ کم پڑ گئے۔