پاکستان میں ہر گزرتے سال کے ساتھ گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لئے ہر سال گرمیوں میں شہریوں کی بڑی تعداد گرمی سے بچنے کیلئے پہاڑوں کا رخ کر لیتی ہے۔ اس طرح ہزاروں گاڑیاں لاکھوں روپے کا پٹرول جلاتے ہوئے جب چند لمحوں کی ٹھنڈک کے حصول کیلئے پہاڑی علاقوں میں پہنچتی ہیں تو ہر چند کلومیٹر پر کئی کئی گھنٹے طویل ٹریفک جام سے نہ صرف ان مسافروں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ان علاقوں کا قدرتی حسن بھی پیٹرول اور ڈیزل کے دھوئیں سے آلودہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں سیر کیلئے جانے والے شہریوں کی طرف سے ان علاقوں میں پھیلایا جانے والا کچرا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس طرح ہم اپنے شہروں کے ساتھ ساتھ سیاحتی مقامات کو بھی موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ مقامات میں شامل کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ہم اپنے گھروں اور گلی، محلوں میں ہر سال شجرکاری کریں تو ناصرف گرمی کی شدت میں کمی آئے گی بلکہ ہم اپنے وطن کو درپیش موسمیاتی تبدیلی کے خطرات میں بھی کمی لا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں مون سون کا موسم بہترین ہے جس میں اگر بیج بھی زمین میں دبا دیئے جائیں تو وہ قدرت کی مہربانی سے جڑ پکڑ لیتے ہیں اور چند ہی سال میں گھنے درخت بن جاتے ہیں جو ہماری آنے والی نسلوں کی زندگی کی ضمانت ہیں۔
میں یہاں فیصل آباد کی مثال پیش کرنا چاہوں گا جہاں چھوٹی بڑی فیکٹریاں تو بہت نظر آتی ہیں مگر پارک اور سبزہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ درختوں کی تعداد میں اضافے کی بجائے کمی کے باعث گرمی کے شدید موسم میں شہریوں کے لئے کوئی جائے پناہ دستیاب نہیں ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں درختوں اور سبزے کے قطعات میں کمی کی وجہ سے فضائی آلودگی اور موسم کی شدت میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گرمیوں میں شدید گرمی اور سردیوں کے موسم میں شدیدا سموگ کی وجہ سے شہری صحت کے مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں بڑھتی ہوئی آبادی بھی گرمی کی شدت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس سلسلے میں پہلے سے موجود اور نئی ہائوسنگ سوسائٹیوں کو پابند کیا جانا چاہیے کہ ہر سوسائٹی میں جتنے پلاٹ ہیں اس سے دوگنا تعداد میں درخت لازمی لگائے جائیں۔ علاوہ ازیں حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے کیلئے ہر ہائوسنگ سوسائٹی میں مجموعی رقبے کے تناسب سے پانچ فیصد یا زائد رقبے کو درختوں کا ذخیرہ لگانے کیلئے بھی مخصوص کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے افسوسناک بات یہ ہے کہ سرکاری سطح پر ہونے والی شجرکاری بھی نمائشی اقدامات تک محدود رہتی ہے جسکی وجہ سے مجموعی ماحول پر زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ علاوہ ازیں درختوں کی کٹائی بھی ایک اہم ایشو ہے کیونکہ ہر سال جتنے درخت لگائے جاتے ہیں اس سے زیادہ کاٹ لئے جاتے ہیں۔ پاکستان کی قومی جنگلات پالیسی 2021ء کے مطابق کسی بھی شہر میں کم از کم 25 فیصد رقبے پر جنگلات یا سبزے (گرین کور) کا ہونا ضروری ہے جبکہ عالمی سطح پر اس حوالے سے معیار 40 فیصد مقرر ہے لیکن ہمارے شہروں کا گرین کور پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ رواں سال پاکستان کے زیادہ تر میدانی علاقوں میں اپریل، مئی اور جون کے مہینوں میں ریکارڈ گرمی پڑی ہے۔ اس کے علاوہ طوفان اور بادو باراں کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور مئی کے مہینے میں آنے والے طوفان اور ژالہ باری سے درجنوں افراد ہلاک و زخمی اور کروڑوں روپے کی املاک کا نقصان ہوا ہے۔ قدرتی ماحول اور حیاتیاتی تنوع کو درپیش خطرات کے باعث شمال میں برف سے لپٹی چوٹیوں سے لے کر جنوبی ساحلوں پر لگے مینگروو کے جنگلات میں بھی قدرتی ماحول اور آبادیوں کو آب و ہوا کی تبدیلی اور آلودگی کی وجہ سے شدید خطرات درپیش ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ طویل عرصے سے ہم نے ترقی کے نام پر قدرتی ماحول کی تباہی پر آنکھیں بند کئے رکھی ہیں۔ آج بھی ارباب اقتدار اور شہریوں کی اکثریت حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو قومی ترقی اور سماجی فلاح و بہبود کا لازمی حصہ بنانے کی بجائے نظر انداز کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنگلات اور قدرتی وسائل کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ حیاتیاتی تنوع کو قومی پالیسی سازی، معیشت اور تعلیمی نظام کی بنیادی اکائی بنائے بغیر یہ مسئلہ حل ہونا مشکل ہے۔
اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کو روایتی طریقوں کی بجائے انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں قدرتی ماحول کے تحفظ کو ایک بوجھ تصور کرنے کے نظرئیے کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کمیونٹی بیسڈ کنزرویشن ماڈلز کو فروغ دے کر قدرتی ماحول کے تحفظ کو پائیدار بنیادوں پر یقینی بنایا جا سکے۔ مکران کوسٹل کنزرویشن پروجیکٹ اس ماڈل کی کامیابی کی ایک روشن مثال ہے جس کے تحت مقامی ماہی گیروں کو پائیدار طریقوں کو اپنانے کے لیے بااختیار بنا کر سمندری وسائل کو محفوظ کیا گیا ہے جس سے لوگوں کو روزگار بھی میسر آیا ہے۔ اسی طرح شمالی پاکستان کے برف پوش پہاڑوں میں وہ چرواہے جو کبھی خطرے سے دوچار برفانی چیتوں کو خطرے کے طور پر دیکھتے تھے اب جدید اسکیموں کی بدولت اس کے محافظ ہیں جو مویشیوں کے نقصانات کا ازالہ کرتی ہیں اور آمدنی کے متبادل ذرائع جیسے ماحولیاتی سیاحت اور دستکاری کو فروغ دیتی ہیں۔ اگر کمیونٹی کی بنیاد پر قدرتی ماحول کے تحفظ کی ایسی کوششیں بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ دیہی سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں بھی کی جائیں تو ایک ایسے پاکستان کی تشکیل ممکن ہے جہاں حیاتیاتی تنوع اور قدرتی ماحول کا تحفظ روزگار کا فروغ دینے، ثقافتی ورثے کا تحفظ اور سماجی ہم آہنگی کو مضبوط کرنیکا باعث بنے گا۔