• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میانوالی نے اپنی رُت بدلی۔دریائے سندھ کے پانی میں گندھی ہوئی مٹی نے کہا’تُو جہاں بھی پھرتا رہے، جن آسمانوں پر بھی پرواز کرتا رہے،تجھ سے میرے خمیر کی خوشبو کی چہکار ضرور اٹھے گی‘۔ عمران خان کا خمیر بھی میانوالی سے اٹھا ہے۔میانوالی ایک عجیب و غریب سر زمین کا نام ہے ۔یہ تیس میل چوڑی اور تقریباً پچاس میل لمبی ایک سرسبز و شاداب وادی ہے ۔جس کے تین اطراف میں بے آب و گیاہ پہاڑی سلسلے ہیں اور ایک طرف صحرا ہے ۔ریت ہی ریت ہے ۔دریائے سندھ پہاڑوں سے نکل کر پہلی بار جس میدانی علاقہ میں اترتا ہے وہ یہی میانوالی کی وادی ہے۔اقبال کا کہا یاد آرہا ہے کہ فطرت کے مقاصد کی نگہبانی یا مردِ کوہستانی کرتا ہے یا بندۂ صحرائی اور میانوالی کے لوگ تو صرف بندۂ صحرائی اور مردِ کوہستانی ہی نہیں مرد میدانی اور مردِ دریائی بھی ہیں یعنی جیون کے خوبصورت مقاصد کی نگہبانی کیلئے عمران خان کا انتخاب کوئی اتفاق نہیں بلکہ قدرت کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ میں ویسے ’’اتفاق‘‘ کا قائل ہی نہیں ہوں۔ میرے نزدیک کہیں بھی کوئی اتفاق نہیں ہوتا، وہی کچھ ہوتا ہے جو ہونا ہوتا ہے ۔
یعنی یہ بات آسمانوں پر کہیں طے کردی گئی تھی کہ اس زوال آمادہ قوم نے عمران خان کے پیچھے پیچھے چل کر آخر ایک دن اندھیروں بھری پستیوں سے باہر نکلنا ہے ۔اگرچہ عمران خان کے راستے میں راتوں کے پولیس مین خندقیں کھودتے پھرتے ہیں مگر وہ مسلسل شاہراہ ِ قائداعظم پر آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں یعنی نواز حکومت کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کی حالت کا اندازہ میں اپنے بہت محترم دوست عطاالحق قاسمی کے کالموں سے لگایا کرتا ہوں۔ قاسمی صاحب جب کسی شخصیت کے خلاف اُس کا نام لے کر کچھ لکھتے ہیں تو مجھے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ ’’بدمعاش‘‘ اب’’ شریفوں‘‘ کی برداشت سے باہر ہوگیا ہے وگرنہ قاسمی صاحب حتی المقدور کوشش کرتے ہیں کہ وہ صرف ایسے کالم لکھیں جن سے لوگوں کو مسرتوں کی کمک ملتی رہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید اگرچہ بہت سمجھدار شخص ہیں۔ ان کے دامن پر کرپشن کا بھی کوئی داغ نہیں دکھائی دیتا مگر حکومت کی سرگرانی اکثر ان کے چہرے سے ظاہر ہوجاتی ہے۔گزشتہ روز جب انہوں نے کہا کہ عمران خان اگلا الیکشن بھی ہار جائیں گے تو میرے جیسے سیدھے سادے لو گ بھی کھکھلا کر ہنس پڑے ۔انہوں نے اس طرف دھیان ہی نہیں دیا کہ اگر عمران خان اگلا الیکشن ہار جائیں گے تو پھر جیتے گا کون۔شاید ان کاخیال ہو کہ جس طرح پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ کو اپنی باری بڑے فراخ دلی سے دے دی ہے اسی طرح مسلم لیگ نون پھر پیپلز پارٹی کو ایک اننگ اور کھیلنے کا موقع دے گی۔پرویز رشید صاحب! ایسا ہرگز نہیں ہوگا کیونکہ پیپلز پارٹی کو آصف علی زرداری نے جہاں دفن کردیا ہے وہاں سے بلاول تو کجا اس کا نانا ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنی پارٹی کو دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا۔ ممکن ہے آپ کو آپ کے دماغ نے کہا ہو کہ الیکشن جب ہوں گے تو لوگ ایک بار پھرہمیں ووٹ دیں گے ۔تقریباً تمام حکمران جب حکومت میں آجاتے ہیں تو پھر ان کا یہی خیال ہوتا ہے کہ بس اب زندگی بھر انہوں نے ہی اقتدار میں رہنا ہے۔ان کے اس خیال کے بارے میں صرف اتنا تبصرہ ہے کہ ممکن ہے کہ کبھی پیپلز پارٹی زندہ ہوجائے مگر یہ طے ہے کہ نون لیگ کی حکومت پھر اس ملک پر کبھی مسلط نہیں ہوسکتی۔غربت ، مہنگائی ، لوڈشیڈنگ ، بھارتی حکمرانوں کی کاسہ لیسی اور ناانصافی اس حکومت کے ایسے جرائم ہیں جنہیں قوم کبھی معاف نہیں کر سکتی ۔
مستقل قریب میں قدرت نے قوم کو اس تباہ حالی سے نکالنے کیلئے عمران خان کا انتخاب کیا ہے یقیناً کسی بزرگ کی دعا قبول ہوئی ہے ۔ کسی دوائی کو ترستی ہوئی بڑھیاکی فریاد رب نے سن لی ہے ۔کسی اندھیرے گھر کے سرد چولہے پر بیٹھی ہوئی کسی ماں کی آہ فلک کو چیر گئی ہے ...مجھے پورا یقین ہے کہ لوڈشیڈنگ کی یہ رات بس اب ختم ہونے والی ہے۔ مہنگائی کی یہ سلگتی ہوئی دوپہر ڈھلنے والی ہے۔ غربت سے رہائی کا جذبہ اک شوخ پرچم میں بدلنے والا ہے۔ سونے کے قفس کی کڑیوں میں پھڑکتے ہوئے مجبور آزاد ہونے والے ہیں۔ سچ مچ جمہور کی سلطانی کا دورِ منور آنے والا ہے۔بہت جلد سچ مچ کے انتخابات ہونے والے ہیں جس میں غریب آدمی کو صرف ووٹ دینے کا حق نہیں ووٹ لینے کا حق بھی حاصل ہوگا یعنی جیون کی سہانی گھڑیوں میں دل اور طرح سے دھڑکنے والے ہیں ۔
میانوالی کی مٹی سرخرو ہونے والی ہے ۔اس وقت پوری قوم عمران خان کی آواز پر لبیک کہہ رہی ہے ۔یہ آواز اگر کسی کو سنائی نہیں دے رہی تو اسے اپنی سماعت کا علاج کرانا چاہئے ۔اگر کسی کو عمران خان کا یہ کہنا اچھا نہیں لگا کہ ’’راحیل سن لو‘‘ تو اس کے لئے عرض ہے کہ اب عمران خان کسی فردِ واحد کا نام نہیں۔ ایک زندہ و تابندہ تحریک کا نام ہے۔پاکستانی قوم کے دھڑکتے ہوئے دل کا نام ہے، اجتماعی ضمیر کا نام ہے بلکہ پوری پاکستانی قوم کا نام ہے یقیناً میانوالی کے اسی سرخیل نے فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرنی ہے ۔ اسی نے کھجور کی ٹہنی کی طرح افق کی گود میں گرتے ہوئے پاکستان کو پھر سے مطلع الفجر پر طلوع کرنا ہے ۔
تازہ ترین