اسرائیل نے ایک ہفتہ پہلے کسی جواز کے بغیر ایران کیخلاف جس فوجی جارحیت کا آغاز کیا تھا، ایران نے ابتداء میں بھاری نقصان اٹھانے کے بعد بھرپور جوابی کارروائی شروع کرکے، جس کے نتیجے میں صہیونی ریاست مسلسل تباہ کاریوں کا ہدف بنی ہوئی ہے، اسرائیلی حکمرانوں اور ان کے سرپرستوں کو یہ حقیقت باور کرادی کہ وہ دشمن کے لیے نرم چارہ نہیں بلکہ لوہے کا چنا ہے جسے زیر کرنے کی کوشش خود اس کیلئے ناقابل تلافی بربادی کا سبب بن سکتی ہے جبکہ جنگ کی طوالت اور اس کا دائرہ وسیع ہونے کی صورت میں پوری دنیا براہ راست یا بالواسطہ اس کے منفی اثرات و نتائج کی لپیٹ میں آسکتی ہے۔اس امر کے ادراک کا نتیجہ ہے کہ جنگ کے آغاز میں جو مغربی طاقتیں اس کی روک تھام کیلئے کسی فوری اقدام کے بجائے محض تماش بین بنی ہوئی تھیں یا ایران کو جلد مکمل ہزیمت سے دوچار کرنے کی خاطر خود جنگ کے میدان میں کودنے کی تیاری کرتی دکھائی دے رہی تھیں، وہ بھی اب جنگ رکوانے کے لیے متحرک نظر آرہی ہیں۔ تادم تحریر دستیاب اطلاعات یہ ہیں کہ ایران کے جوہری پروگرام پر جمعے کو جنیوا میں مذاکرات ہورہے ہیں جس میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزراء خارجہ شریک ہوں گے۔برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایران کیخلاف فوجی کارروائی سے پیچھے ہٹ جائیں۔روسی اور چینی صدور نے بھی متنبہ کیا ہے کہ تنازع میں امریکی فوجی مداخلت کے نتائج سنگین اور ناقابل تصور ہوں گے چنانچہ وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف براہ راست کارروائی کا معاملہ دو ہفتوں کیلئے مؤخر کردیا ہے۔روسی صدر نے یہ بھی بتایا کہ دوست ملک ایران نے اب تک روس سے کسی قسم کی مدد نہیں مانگی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایرانی حکومت اور قوم اللہ کی مدد ونصرت پر یقین رکھتے ہوئے کئی بڑی طاقتوں کی لے پالک صہیونی ریاست کے امن دشمن اور شرپسندانہ منصوبوں کو ناکام بنانے کیلئے بے مثال جرأت و دلیری سے سرگرم جہاد ہے۔ اس امر کا واضح ثبوت ایرانی حکومت کا یہ مؤقف ہے کہ اسرائیلی حملے رکنے تک وہ کوئی بھی مذاکرات نہیں کرے گی جبکہ اسرائیل کے خلاف ایرانی کارروائیاں مسلسل زیادہ تباہ کن ہوتی جارہی ہیں۔ گزشتہ روزایران نے اسرائیل پر اب تک کا سب سے بڑا حملہ کیا جس میں اسرائیلی فوجی کمانڈ اینڈ انٹیلی جنس ہیڈکوارٹرز اور اسٹرٹیجک مراکز کو نشانہ بنایا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ بھی ایران کو مذاکرات میز پر لانے کیلئے پس پردہ طور پر کوشاں ہے ۔ برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق تین سفارت کاروں نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے شروع ہونے کے بعد امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی جانب سے ابتدائی رابطے کے نتیجے میں ان کے اور ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے درمیان متعدد بار فون پر بات چیت ہوئی ہے تاکہ اس بحران کا سفارتی حل تلاش کیا جا سکے تاہم ایرانی وزیر خارجہ نے واضح کردیا ہے کہ جب تک اسرائیل حملے نہیں روکتا، تہران مذاکرات کی میز پر واپس نہیں آئے گا۔امریکہ کی جانب سے پیش کی گئی اس تجویز کا ایران نے کوئی جواب نہیں دیا کہ یورینیم افزودگی ایران سے باہرقائم کردہ ایک علاقائی کنسورشیم میں کی جائے۔ تاہم تہران سے قریبی تعلق رکھنے والے ایک علاقائی سفارت کار نے خبر ایجنسی کو بتایا کہ ایرانی وزیر خارجہ نے وٹکوف سے واضح طور پر کہا ’اگر واشنگٹن اسرائیل پر دباؤ ڈالے کہ وہ جنگ بند کرے تو تہران جوہری معاملے میں لچک دکھا سکتا ہے‘۔ ہوشمندی کا تقاضا ہے کہ امریکہ ایران کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے اسرائیل کو جنگ بندی پر تیار کرے اور پھر معاملات کا تصفیہ مذاکرات کی میز پر کیا جائے تاکہ کرہ ارض کو ایسی خوفناک جنگ سے محفوظ رکھا جاسکے جس کی تباہی کا تصور بھی ممکن نہیں۔