• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر ایک کے پسندیدہ ترین پھل، پَھلوں کے بادشاہ، آم کا سیزن جوبن پر ہے اور ہر چھوٹا، بڑا اِس سے خُوب لُطف اندوز ہورہا ہے۔ پاکستان، دُنیا میں آم کی پیداوار کے اعتبار سے چوتھا بڑا مُلک ہے اور یہاں انواع و اقسام کے آم پیدا ہوتے ہیں۔پاکستان میں عام طور پر آم کے پودے گرم علاقوں میں کاشت کیے جاتے ہیں اور آم کے درخت کا صرف پھل ہی نہیں، پتّے، چھال، حتیٰ کہ پھل کے چھلکے اور گٹھلی تک مختلف مصارف میں استعمال ہوتے ہیں۔

پاکستانی آم دُنیا بھر میں نہ صرف برآمد بلکہ بےحد پسند بھی کیے جاتے ہیں، جب کہ ان کھٹے، میٹھے آموں کے بےشمار فوائد بھی ہیں۔ ویسے اس شان دار پھل کو بہت سے طریقوں سے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

مثلاً براہِ راست کھانے کے علاوہ مختلف میٹھے پکوانوں، آئس کریمز کی تیاری میں استعمال ہوتاہے، تو اِس سے مختلف اقسام کے اچار، مربّے، چٹنیاں وغیرہ بھی بنائی جاتی ہے، جب کہ آمیزے یا شیک کی صُورت میں بھی بکثرت استعمال ہوتا ہے۔

آم کے طبّی فوائد

٭روزانہ ایک آم کھانے سے نظامِ ہاضمہ اور دل کے مختلف امراض کے علاوہ کینسر جیسے موذی مرض سے تحفّظ حاصل ہوسکتا ہے۔

٭ آم ایک غذائیت سے بھرپور پھل ہے، جس میں چکنائی، کولیسٹرول اور سوڈیم کی بہت کم مقدار پائی جاتی ہے، جب کہ اس میں وٹامن بی 6کے علاوہ وٹامن اے، سی اور وٹامن ای کی اچھی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے۔ 

علاوہ ازیں، اس میں پوٹاشیم، میگنیشیم اور تانبےکی بھی بڑی مقدارموجود ہوتی ہے، جو صحت کے لیے انتہائی مفید ہے۔ نیز، یہ پھل ہائی بلڈپریشر کے مریضوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔

٭آم میں کوئرسیٹن، آئسوکوئرسیٹرن، اسٹرلگن، فیسٹن، گالک ایسڈ اور میتھائل گلٹ جیسے قدرتی کیمیکلز پائے جاتے ہیں، جو بریسٹ کینسر سمیت ہر طرح کے کینسرز کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ طبّی ماہرین کے مطابق آم میں موجود اینٹی آکسیڈنٹ، آنتوں اور خون کے کینسر کے خطرات کم کرتا ہے، جب کہ گلے کے غدود کے کینسر کے خلاف بھی یہ مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ ہارورڈ یونی ورسٹی کے ماہرین کے مطابق آم، بڑی آنت کے سرطان کے خلاف ایک اہم ہتھیار ثابت ہوا ہے۔

٭ کم زور افراد کے لیے بھی آم انتہائی مفید پھل ہے، کیوں کہ یہ وزن بڑھاتا ہے۔ پھر یہ وزن میں اضافے کے لیے استعمال ہونے والی دیگر غذاؤں کی نسبت ایک آسان خوراک ہے۔ عام طور پر 150 گرام وزنی آم میں 86 کیلوریز پائی جاتی ہیں، جو آسانی سے جسم میں جذب ہو جاتی ہیں۔

٭ آم خوراک ہضم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے، جب کہ بُھوک بھی بڑھاتا ہے۔ آم میں موجود ریشے، جنہیں ’’فائبرز‘‘ کہا جاتا ہے، آنتوں کی صفائی کے علاوہ آنتوں کے ورم کے خطرے کو بھی کم کرتے ہیں۔

٭ آم، حاملہ خواتین کی صحت کے لیے بھی انتہائی مفید ہے کہ یہ جسم میں وٹامنز اور آئرن کی مقداربڑھانے کی قدرتی صلاحیت رکھتا ہے۔

٭ یہ پھل چہرے کی خُوب صُورتی میں بھی اضافہ کرتا ہے، اِس کا گُودا جِلد پر لگانے سے متعدّد جِلدی امراض ختم ہوجاتے ہیں۔ نیز، اِس کا گُودا چہرے پر لگانے سے نہ صرف جِلد کی نمی برقرار رہتی ہے، بلکہ رنگت بھی صاف ہو جاتی ہے۔

٭ یہ پھل دماغی صلاحیت بڑھانے میں بھی مددگارثابت ہوتا ہے، کیوں کہ اِس میں بڑی مقدار میں پائے جانے والے وٹامنز دماغ کی بہترین نشوونما کرتے ہیں، جب کہ اِس میں موجود گلوٹامائن یادداشت کے لیے مفید ہے۔

٭ آم کی زیادہ مٹھاس کی وجہ سے پہلے سمجھا جاتا تھا کہ یہ ذیابطیس کے مریضوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، لیکن اب نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ یہ پھل ذیابطیس کے مریضوں کے لیے انتہائی مفید ہے، کیوں کہ اس میں پائے جانے والے منرلز اور وٹامنزکی بڑی مقدار آسانی سے جسم میں جذب ہو کر خون میں گلوکوز کو معتدل رکھتی ہے۔

پاکستان میں آم کی معروف اقسام میں چونسا، سندھڑی، انوررٹول، لنگڑا اور دُسہری شامل ہیں، جب کہ ان کے علاوہ بھی کئی اقسام کے آم پیدا ہوتے ہیں۔

چونسا: صوبہ پنجاب کے علاقے، رحیم یار خان سے شروع ہونے والی آم کی اِس مشہور قسم کا نام شیرشاہ سوری کے نام پر رکھا گیا، جس نے ہندوستان کے علاقے، بہار میں ہونے والی ایک لڑائی میں مغل بادشاہوں میں سے ایک، ہمایوں کو شکست دی تھی۔ 

چونسا پورے سوری قبیلے کا پسندیدہ آم تھا اور یہ پاکستانی آموں کی سب سے مشہور قسم ہے۔ چونسا آم اپنی حیرت انگیز مٹھاس اور ذائقے کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دُنیا میں بہت مقبول ہے۔ لوگوں کی اکثریت اس مزے دار آم کو اپنے انگوٹھوں سے نرم کرکے براہ ِراست اس کا رس چوس کر یا خام حالت میں کھانا پسند کرتی ہے۔

سندھڑی: سندھڑی آم کی ابتدا پاکستان کے ضلع، میر پورخاص سے ہوئی۔ اس آم کی شکل بیضوی اور جلد چمکیلی اور پیلے رنگ کی ہوتی ہے۔ یہ انتہائی خوش بُودار آم، ذائقے کی علامت ہے، جو عام طور پر میٹھا ہی ہوتا ہے، لیکن فصل کی ابتدا کے موسم میں تھوڑا سا تُرش ہوتا ہے، اِس لیے اسےمکمل پکنے پر کھایا جائے، تو ہی اصل لُطف آتا ہے۔

آم کی اس قسم کو سندھ میں پیدا ہونے کے باعث ’’سندھڑی‘‘ کہا جاتا ہے۔ سندھڑی آم، خام حالت میں کھانے کے علاوہ شیک، آئس کریمز، اور اسموتھیز بنانے میں استعمال ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اِس آم کی جِلد چھیلنے کے بعد کیوبز کی شکل میں کاٹ کر کھاتے ہیں۔

انوررٹول: آم کی اِس قسم کا نام انورالحق سے منسوب ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہندوستان کے صوبے اُترپردیش کے ضلع باغ پت میں یہ آم کاشت کرنے والا پہلا شخص تھا۔ انوررٹول آم کو اس کی لذّت اورمانگ کے باعث ’’آموں کا بادشاہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اس کی کاشت بنیادی طور پر پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ہوتی ہے۔

لنگڑا: یہ آم پہلی بار ہندوستان کے شمالی حصّے، وارانسی (بنارس) میں کاشت کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس آم کی اولین کاشت کرنے والا شخص لنگڑاکرچلتا تھا، تو اسی لیے آم کو بھی ’’لنگڑا‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ اس آم کی جِلد پکنے کے بعد بھی سبز رہتی ہے، لیکن اندر سے اس کا رنگ نارنجی اور ذائقہ غیرمعمولی ہوتا ہے۔

دُسہری: پاکستان میں پیدا ہونے والے آموں کی ایک مقبول قسم دُسہری ہے۔ اِس کی جڑیں اُن باغات سے شروع ہوئیں، جن کا تعلق ہندوستان کے علاقے، لکھنؤ کے نوابوں سے تھا۔ یہ آم انتہائی میٹھا ہوتا ہے اور اس چھوٹے سے آم سے لُطف اٹھانے کا بہترین وقت جولائی کے پہلے تین ہفتوں کے درمیان کاہے، جب کہ اس کے علاوہ نیلم، فجری، سرولی، مالدہ اور طوطاپری سمیت دیگر کئی اقسام کے آم بھی پاکستان میں پیدا ہوتے ہیں۔