• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صُورتِ حال جو بھی رُخ اختیار کرے، خطّے پر اثرات مدّتوں محسوس ہوتے رہیں گے
صُورتِ حال جو بھی رُخ اختیار کرے، خطّے پر اثرات مدّتوں محسوس ہوتے رہیں گے

ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ میں دونوں جانب سے اُسی قوّت کا استعمال ہوا، جس کا ماہرین برسوں سے اندازہ لگا رہے تھے۔ ایران نے ہمیشہ اسرائیل اور امریکا کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیا اور یہی حال اسرائیل کا ہے کہ وہ ایران کو اپنی بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا ہے۔ ممتاز فوجی ماہرین اِس امر پر متفّق ہیں کہ جس اسکیل پر ایران اور اسرائیل آپس میں ٹکرائے، اِس سے پہلے دونوں کے درمیان کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔

کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ یہ سطور پڑھتے وقت جنگ کیا شکل اختیار کرچُکی ہو۔ عین ممکن ہے کہ فریقین کسی معاہدے پر پہنچ چُکے ہوں، جس کے نتیجے میں بارود کی بارش رُک جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جنگ وہ صُورت اختیار کرچُکی ہو، جس کے پہلے دن سے خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے، تو اِس پس منظر میں ہم ایران، اسرائیل جنگ کے پہلے ہفتے کے واقعات کی بنیاد پر کچھ گزارشات پیش کر رہے ہیں اور یقینی بات ہے کہ بعد کے حالات و واقعات تجزیے و تبصرے کے نئے رُخ متعیّن کریں گے۔

یہ جنگ اُس وقت شروع ہوئی، جب اسرائیل نے 13 جون کو علی الصباح ایران پر ایک بہت بڑا حملہ کیا۔اس حملے میں دو سو جدید لڑاکا بم بار طیاروں نے حصّہ لیا، جن میں امریکا کے جدید ترین جے- 35طیارے بھی شامل تھے۔ نیز، اسرائیل نے حملہ آور ڈرونز کو بھی بڑی تعداد میں ایرانی فضاؤں میں داخل کیا۔ اِس پہلے حملے کی شدّت کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں ایران کا ایک اہم نیوکلیئر پلانٹ، نطنز تباہ ہوگیا، جو تہران سے 120کلومیڑ کے فاصلے پر ایک پہاڑی کے نیچے تقریباً نصف میل گہرائی میں تعمیر کیا گیا تھا۔

انٹرنیشنل ایٹمی ایجینسی کا کہنا ہے کہ اِس پلانٹ کے زیادہ تر سینٹری فیوجز، جو یورینیم افزودہ کرتے ہیں، ناکارہ ہوگئے، تاہم تاب کاری کسی خطرناک سطح تک نہیں پہنچی۔ اس کے علاوہ اسرائیل اور مغربی میڈیا،کسی حد تک خود تہران نے بھی تصدیق کی کہ حملوں میں ایران کی تمام اعلیٰ فوجی قیادت شہید ہوگئی، جس میں پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ، آرمی چیف، انٹیلی جینس چیف، سربراہ القدس فورس، فضائیہ کے سربراہ،15ٹاپ ایٹمی سائنس دان اور پلانٹ کے انجینیئرز شامل تھے۔

اِن ہلاکتوں سے ایران کا کمانڈ سسٹم بُری طرح مفلوج ہوا، تاہم جلد ہی سنبھل بھی گیا۔ اسرائیلی حملوں میں میزائل بنانے کے کارخانوں اور ایئر ڈیفینس سسٹم کو بھی خاصا نقصان پہنچا۔ ایران کے رہبرِ اعلیٰ، آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل کو وارننگ دی کہ اُسے اس جرم کی ضرور سزا دی جائے گی۔ بعدازاں، مسجد پر روایت کے مطابق سُرخ پرچم لہرا دیا گیا، جسے انتقام کی نشانی قرار دیا جاتا ہے۔

ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل پر میزائل داغنا شروع کردیئے، جب کہ اُس کے ڈرونز نے بھی اس کارروائی میں حصّہ لیا۔ اِن ایرانی میزائلز میں سے کئی ایک اسرائیل کے پانچ تہوں والے دفاعی آئرن ڈوم سسٹم کو توڑ کر تل ابیب اور دوسرے اسرائیلی شہروں میں اپنے اہداف تک پہنچنے میں کام یاب رہے اور اُنہوں نے بڑی تباہی مچائی۔ اسرائیل نے اِن حملوں میں اپنے کئی شہریوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کا اعتراف کیا، جب کہ بڑی بڑی عمارتوں کو زمین بوس ہوتے تو پوری دنیا نے دیکھا۔ 

اُدھر ایران میں خاصا جانی نقصان ہوا، جب کہ اُس کے انفرا اسٹرکچر کو بھی بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا گیا۔ جنگ کے چوتھے روز اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اُس نے تہران کی فضا پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور ساتھ ہی عوام کو شہر چھوڑنے کی وارننگ دی کہ اُس کے مطابق تہران میں پاسدارانِ انقلاب کی اہم تنصیبات ہیں۔یاد رہے، وہ ایسی ہی دھمکیاں غزہ میں بھی دیتا رہا ہے۔

تہران ایک کروڑ سے زاید آبادی پر مشتمل شہر ہے، جہاں سے شہریوں کا مکمل انخلا ممکن نہیں، البتہ عوام کی کافی تعداد محفوظ مقامات کی طرف چلی گئی۔ جواباً ایرن نے بھی اسرائیلی شہریوں کو کئی مقامات خالی کرنے کی دھمکی دی، جس پر وہاں خاصی بھگدڑ دیکھنے میں آئی۔ پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا کہ اسرائیل نے ایران کے انرجی سیکٹر کو بھی نشانہ بنایا اور کم ازکم دو ریفائنریز تباہ کردیں۔

یہ بہت ہی خطرناک صُورتِ حال تھی، کیوں کہ اس کا تعلق براہِ راست تیل سے ہے اور یاد رہے کہ ایران، مشرقِ وسطیٰ کے تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے، لیکن پابندیوں کی وجہ سے اسے تیل فروخت کرنے میں بہت سی دشواریوں کا سامنا ہے۔امریکا نے حسبِ توقّع اسرائیل کا ساتھ دیا اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کاؤنسل میں پیش ہونے والی پہلی قرارداد ویٹو کردی، جسے پاکستان نے بھی اسپانسر کیا تھا۔

جنگ کے سبب ایران اور امریکا کے درمیان ہونے والے نیوکلیئر مذاکرات بھی تعطّل کا شکار ہوگئے۔ روس اور چین سمیت بڑی طاقتوں اور اہم ممالک کی کوشش رہی کہ بات چیت کے ذریعے تنازعے کا حل نکل آئے۔ مسلم ممالک نے اسرائیلی جارحیت کی مذمّت کی اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔

ایران کی آبادی لگ بھگ نو کروڑ ہے اور اس کا دارالحکومت تہران، مشرقِ وسطیٰ کے اہم دارالحکومتوں میں شامل ہے۔ ایران ایک زمانے تک دنیا کا چوتھا بڑا تیل پیدا کرنے والا مُلک تھایہ خلیجِ فارس اور خلیجِ اومان کے ذریعے بحرِ ہند سے منسلک ہے، جب کہ اس کی آبی سرحدیں یواے ای اور اومان سے ملتی ہیں۔ مغربی اور وسط ایشیا میں اس کی زمینی سرحدیں پاکستان، افغانستان اور وسط ایشیا کے کچھ ممالک سے ملتی ہیں۔

اِس خطّے میں تیل کے علاوہ جو چیز عالمی توجّہ کے لیے اہمیت رکھتی ہے، وہ آبنائے ہرمز ہے۔ یہ آبی گزرگاہ خلیجِ فارس اور خلیجِ اومان کے درمیان واقع ہے اور اس کے راستے ایک طرف بحرِ ہند کی طرف جاتے ہیں، تو دوسری طرف بحرِ احمر سے ملتے ہیں۔ یہاں سے دنیا کا بیس فی صد تیل گزرتا ہے، اِسی لیے اِسے ’’ٹینکر گزرگاہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اپنے سب سے تنگ مقام میں یہ صرف 33کلومیٹر ہے۔ 

اس کے ایک طرف ایران کا بندر عباس ہے، تو دوسری طرف اومان ہے۔ اِسی گزرگاہ سے سعودی عرب، اومان، متحدہ امارت اور قطر کا تیل گزرتا ہے۔ ایران اپنے محلِ وقوع کے سبب یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ اِس آبنائے ہرمز کو بند کردے۔ اگر اِسے بند کیا جاتا ہے، تو اِس کا مطلب پوری دنیا سے ٹکر لینا ہے، کیوں کہ ایسے اقدامات سے یورپ، برّ ِ اعظم امریکا، پاکستان، بھارت، جنوبی ایشیاکے دیگر ممالک اور چین متاثر ہوں گے، یعنی کہ بیش تر دنیا۔

ایران میں موجودہ حکومت سے قبل بادشاہت کا نظام تھا، جو ایک زمانے میں اہم عالمی طاقت ہوا کرتی تھی، اِسے 1979ء میں ایک انقلاب کے ذریعے آیت اللہ خمینی نے اُکھاڑ پھینکا۔ آیت اللہ خمینی کی وفات کے بعد ایران میں رہبرِ اعلیٰ یا سپریم لیڈر کا منصب، آیت اللہ خامنہ ای کے پاس ہے، جن کی معاونت ایک 70رُکنی علماء کاؤنسل کرتی ہے۔

ایران میں حکومتی سیاسی نظام صدر اور پارلیمان پر مشتمل ہے۔صدارتی امیدواروں کے ناموں کی منظوری سپریم کاؤنسل دیتی ہے اور منظوری پانے والے افراد ہی الیکشن لڑ سکتے ہیں۔اِسی طرح پارلیمان کا انتخاب ہوتا ہے۔تاہم، طاقت کا اصل مرکز سپریم لیڈر ہی ہیں، جن کا ہر معاملے میں فیصلہ حتمی تسلیم کیا جاتا ہے۔

ایران کا فوجی نظام بھی دو حصّوں میں تقسیم ہے۔ ایک تو پاسدارانِ انقلاب ہے، جو براہِ راست رہبرِ اعلیٰ کو جواب دہ ہے، یہی ایران کی اصل فوج ہے، جسے آیت اللہ خمینی نے انقلاب کے بعد تشکیل دیا تھا۔ پھر ریگولر فوج ہے۔پاسدارنِ انقلاب ہی کے ذریعے ایران کے فوجی، داخلی اور خارجہ پالیسی سے متعلق امور چلائے جاتے ہیں۔ القدس فورس بھی اِسی کا حصّہ ہے، اِسی طرح ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاز حزب اللہ، حماس، یمنی حوثی اور عراق کی مسلّح تنظیمیں وغیرہ اِسی پاسدارانِ انقلاب کی زیرِ نگرانی کام کرتی ہیں۔

ایران اور اسرائیل گزشتہ سال بھی اسماعیل ہانیہ کے قتل کے بعد ایک دوسرے پر حملے کرچُکے ہیں، تاہم، وہ محدود حملے تھے، لیکن اِس بار کے حملے دونوں کے درمیان باقاعدہ جنگ کی صُورت اختیار کرگئے۔ ایران کا دعویٰ ہے کہ اُس نے ہزاروں میزائلز کے ذریعے اسرائیل کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا، جب کہ اسرائیل کا اصرار ہے کہ اُس نے نہ صرف یہ کہ ایران کا ایئر ڈیفینس سسٹم تباہ کردیا، بلکہ اُس کی اہم شخصیات اور جوہری، فوجی تنصیبات کو بھی نقصان پہنچانے میں کام یاب رہا۔

اِس ضمن میں مختلف میڈیا ذرایع کے حوالے سے اب تک جو خبریں سامنے آئیں، اُن کے مطابق اسرائیلی انٹیلی جینس نے باقاعدہ حملوں سے قبل ایران میں اپنے ڈرون بیسز بنائے، جب کہ کمانڈ سسٹم میں بھی اپنے لوگ داخل کیے۔جب فضا سے حملے شروع ہوئے، تو اِن ڈرون بیسز سے ایران کے اندر اہداف کو نشانہ بنایا گیا، جن میں فوجی اور میزائل اڈوں کے ساتھ شخصیات بھی شامل تھیں، جن کا ایران کے دفاعی نظام میں اہم ترین کردار تھا۔

اندرونی جاسوسی سے متعلق خبریں تواتر سے میڈیا میں آرہی ہیں اور ایران کی طرف سے کوئی تردید بھی سامنے نہیں آئی، بلکہ اسرائیلی حملوں کے بعد جس برق رفتاری سے ایران میں موساد کے جاسوسی نظام کے خلاف کارروائیاں شروع ہوئیں، اُن سے تو اِن خبروں کی ایک طرح سے تصدیق ہی ہوتی ہے۔

اسرائیل کے وزیرِ اعظم، نیتن یاہو نے اپنی تقریر میں کہا کہ اِن حملوں کا مقصد ایران کی جوہری صلاحیت کا خاتمہ ہے، لیکن بعد میں وہ حکومت کی تبدیلی کی بھی باتیں کرنے لگے۔ اسرائیل جنگ کے دوران یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا رہا کہ اُس کی لڑائی ایرانی حکومت اور اُس کی اعلیٰ قیادت سے ہے، وہاں کے عوام سے اُسے کوئی مسئلہ نہیں۔ اِسی لیے فضائی دفاع پر کنٹرول کے دعوے کے بعد اعلان کرتا رہا کہ عام شہری تہران شہر چھوڑ کر چلے جائیں۔

اسرائیلی حملوں سے پہلے امریکا اور ایران کے درمیان نیوکلیئر ڈیل پر مذاکرات ہو رہے تھے، جسے حملوں نے شدید نقصان پہنچایا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایران یورینیم افزودگی کی اُس سطح تک پہنچ گیا ہے کہ بم بنانا چند ہفتوں یا مہینوں کی بات تھی۔ یہی بات امریکا کے صدر ٹرمپ بھی کہتے رہے۔ یاد رہے، اُنہوں نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ایرانی رہبرِ اعلیٰ کو ایک خط لکھا تھا، جس میں مذاکرات اور ڈیل کی پیش کش کی گئی تھی، لیکن یہ واضح کیا گیا تھا کہ ایران کو جوہری بم بنانے کی بالکل بھی اجازت نہیں ہوگی۔ 

اور یہ بات ایران نے پہلی نیوکلیئر ڈیل میں مانی بھی تھی، جب اس نے یورینیم افزودگی کو پانچ فی صد تک لانے کی یقین دہانی کروائی تھی کہ اِتنی یورینیم سے ایٹم بم نہیں بنایا جاسکتا، جب کہ اُس نے موجود افزودہ یورینیم روس کو دینے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ لیکن ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں اسے ایک ناقص ڈیل کہہ کر معاہدہ ختم کردیا۔ دوسری ٹرم کے شروع ہی سے وہ ایرانی قوم کی تعریف کرتے آرہے ہیں، اُنہیں ڈیل کی پیش کش بھی کرتے رہے، لیکن جوہری بموں کے بغیر۔

اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ایسا نہیں ہوا، تو ایران کو شدید نقصان پہنچے گا، جو بعدازاں اسرائیلی حملے کی شکل میں سامنے آگیا۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اُنہیں اِس حملے کا پہلے سے پتا تھا، لیکن اس سے امریکا کا کچھ لینا دینا نہیں۔لیکن پھر کہا کہ یہ اسرائیل کا حقِ دفاع ہے اور امریکا اُس کے ساتھ کھڑا ہے۔باقی مغربی ممالک کا بھی تقریباً یہی مؤقف رہا۔ جب کہ روس نے اپنے بیان میں جنگ بندی پر زور دیا اور یہی بات چین نے کہی۔

پاکستان نے اسرائیلی حملے کی شدید مذمّت کی اور کہا کہ ایران کو یواین چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت حقِ دفاع حاصل ہے۔عرب، تُرکیہ اور دیگر مسلم ممالک کا بھی کم و بیش یہی مؤقف رہا۔ ذرا گہرائی میں جاکر دیکھیں، تو عرب ممالک کو پہلی نیوکلیئر ڈیل پر تحفّظات تھے اور وہ ایٹمی ایران قبول کرنے کو تیار نہیں۔ بہرحال، حالیہ جنگ میں مسلم دنیا عملی طور پر کچھ نہیں کر سکی اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اُس کے ایران سے بھی تعلقات ہیں اور امریکا سے بھی۔

سب کا شروع ہی سے جنگ کو بڑھنے سے روکنے کا مطالبہ رہا، اسے اب کوئی بھی معنی پہنائے جاسکتے ہیں۔ بھارت کے ایران سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور اسرائیل سے بھی۔ ایران کا چابہار پورٹ بھارت نے بنایا اور وہی اُسے پچیس سالہ لیز پر چلا رہا ہے۔ ایران پر پابندی کے باوجود وہ اُس سے تیل بھی خریدتا رہا۔ تاہم، حالیہ جنگ میں ایران سے فاصلے پر رہا، بلکہ عالمی فورم پر ایک قرارداد میں اُس کا ساتھ دینے سے بھی گریز کیا۔

بھارت کا آئرن ڈوم فضائی دفاعی سسٹم اسرائیل اور روس نے مل کر تیار کیا۔چین اور روس کے اسرائیل سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سفارتی کوششوں میں کون کہاں کھڑا ہے۔روس نے ثالثی کی پیش کش بھی کی، لیکن اِس ضمن میں اُس کی اخلاقی پوزیشن کم زور ہے، کیوں کہ وہ یوکرین جنگ پر امریکا اور تُرکیہ کی پیش کشیں ٹھکراتا رہا ہے۔

ایران، اسرائیل جنگ نے نہ صرف اِن دونوں ممالک، بلکہ بڑی طاقتوں، مشرقِ وسطیٰ اور مسلم ممالک کو ایک پریشان کُن اور تشویش ناک صُورتِ حال سے دوچار کردیا ہے۔ کچھ کو اِس جنگ کے فوجی و سیاسی اثرات خود تک پہنچنے کا خدشہ ہے، تو کئی ممالک، جن کا ایران اور مشرقِ وسطیٰ کے تیل پر انحصار ہے، تیل کی بڑھتی قیمتوں کے خوف میں مبتلا ہیں کہ وہ پہلے ہی یوکرین جنگ کی منہگائی سے بمشکل سنبھلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پھر ایران کے کم زور ہونے سے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن جس طرح اثرانداز ہوگا، وہ خطّے میں بہت سی تبدیلیوں کا سبب بن سکتا ہے۔ ایران گزشتہ 45برسوں سے مشرقِ وسطیٰ اور خطّے میں بہت فعال رہا ہے۔ پھر اس کی پراکسیز بھی عراق، یمن، لبنان، خلیج اور فلسطین تک پھیلی ہوئی ہیں۔یوں ایران کی فوجی کم زوری یا رجیم چینج سے بہت پیچیدہ صُورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ جنگ کا نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو، تاہم مشرقِ وسطیٰ میں اس کے اثرات عرصے تک محسوس کیے جائیں گے۔