جنابِ وزیراعظم کو اس ردِعمل کے اظہار کی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے اِسے بلاوجہ اہم بنادیا۔ اس کے لئے رانا ثناء اللہ کافی تھے زیادہ سے زیادہ عابد شیرعلی۔ میڈیا میں ایک نئے ’’لندن پلان‘‘ کے حوالے سے بہت شور تھا۔ ماضی میں بھی لندن میں سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں ایسی ملاقاتیں اور ایسی میٹنگز جو ایک دُنیا کی نظروں کا مرکز بنتیں اور نتیجہ بھی ’’کھودا پہاڑ‘‘ والا نہیں ہوتا تھا۔ زیادہ دور نہیں جاتے، مئی 2006میں،تب میاں صاحب جدہ میں جلاوطنی کے پانچ سال گزار کر لندن میں مقیم تھے، انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاقِ جمہوریت (چارٹر آف ڈیموکریسی) سائن کیا۔ اے آرڈی میں شامل جماعتوں نے بھی اس کی توثیق کر دی ۔ جولائی 2007 میں نوازشریف کی دعوت پر لندن میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں قاف لیگ اور ایم کیو ایم کے سوا پورے ملک کی سیاسی قیادت موجود تھی، قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمٰن، عمران خان اور اسفند یارولی بھی۔ بے نظیر صاحبہ لندن میں موجود ہونے کے باوجود تشریف نہ لائیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت مخدوم امین فہیم نے کی تھی۔ شیریں رحمٰن لیپ ٹاپ پر محترمہ کو لمحہ بہ لمحہ کارروائی سے آگاہ کرتی رہیں۔ دو روز بعد آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل پائی۔ اسے اے آرڈی کی ایکسٹینشن کہہ لیں لیکن پیپلز پارٹی اس میں شامل نہیں تھی۔ لندن، متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین کو درپیش بعض سنگین مسائل کے حوالے سے بھی خبروں میں رہتا ہے۔ حالیہ دنوں میں نوازشریف حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس کے حوالے سے لندن گرما گرم خبروں کا موضوع تھا۔ ابھی چند ہفتے قبل نوازشریف حکومت کے لئے راوی ہر طرف چین لکھ رہا تھا۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی اپنی حکومت۔ سندھ میں پیپلزپارٹی ، بلوچستان میں ڈاکٹر مالک کے زیرِقیادت کولیشن اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف (جماعتِ اسلامی اور عوامی اتحاد کے اشتراک سے) برسراقتدارہے۔ وفاق اور صوبوں میں تعلقات مثالی ہیں۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ جناب پرویز خٹک گزشتہ دنوں لاہور آئے اِن کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کو وفاق سے کوئی شکایت نہیں۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان ایسے خوشگوار تعلقات کی مثالیں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کم کم ہی ملتی ہیں۔ نوازشریف اس سے قبل بھی ایک منفرد مثال قائم کرچکے تھے۔ جب 11مئی کے عام انتخابات کے بعد، مسلم لیگ(ن) دیگر جماعتوں اور آزاد ارکان کے اشتراک سے خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کا قیام روکنے کی پوزیشن میں تھی اس کے لئے مولانا فضل الرحمٰن کے پاس پورا منصوبہ موجود تھا لیکن نواز شریف نے سیاسی خود غرضی کے بجائے تدبر و دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت سے تحریکِ انصاف کو حکومت سازی کا موقع دیا۔ خود کو جینوئن اپوزیشن قرار دینے والے عمران خان 12مارچ کو بنی گالہ والے فارم ہاؤس میں، نوازشریف کا خیر مقدم کر رہے تھے۔ کسی پروٹوکول کے بغیر اس ملاقات کا ماحول نہایت دوستانہ تھا۔ جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی سمیت عمران کے سینئر سیاسی رفقاء بھی موجود تھے۔ اس بے تکلف ملاقات میں دہشت گردی سمیت مختلف مسائل کے علاوہ بنی گالہ فارم ہاؤس کی جانب آنے والی سڑک کی خستہ حالی، فارم ہاؤس کے سامنے سی ڈی اے کے پارک سے تجاوزات کے خاتمے اور اس کی تزئین و آرائش پر بھی بات ہوئی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدلنے لگا۔ مشرف کیس کے حوالے سے سول آرمی ریلیشن شپ میں تلخی کی خبریں عام ہونے لگیں۔ ڈکٹیٹر کے خلاف خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق کی گفتگو کو فوج کی توہین قرار دیا جانے لگا۔ اس دوران آرمی چیف کا ایک فقرہ ’’ہم اپنے ادارے کا احترام کریں گے‘‘ تبصروں اور تجزیوں کا نیا موضوع بن گیا۔ 19اپریل کو حامد میر پر قاتلانہ حملے نے حالات و معاملات کو ایک اور رُخ دے دیا۔ جیو، جنگ گروپ اور حکومت کو بریکٹ کر کے فوج سے اظہارِ محبت کے مظاہرے ہونے لگے۔ جیو کے مارننگ شو میں ایک قوالی کے بعد جیو مخالف مہم میں مذہبی رنگ بھی شامل ہو گیا۔ اس ساری مہم میں جنگ ، جیو گروپ اور حکومت کو بریکٹ کر دیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ اس مہم میں وہ عناصر اور وہ چہرے پیش پیش ہیں جو صحیح یا غلط ، اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ بعض ریٹائرڈ حضرات ٹاک شوز میں طوفان اُٹھانے لگے۔ ابھی گزشتہ رات ایک صاحب کہہ رہے تھے، پاکستان میں چار مارشل لا آچکے تو کیا ہوا؟ تھائی لینڈ میں گزشتہ 32برسوں میں یہ بارہواں مارشل لا ہے۔ (پاکستان میں 5ویں مارشل لا کا جواز؟) ادھر فوجی قیادت گوادر سے لے کر کراچی آپریشن تک، ہر اہم میٹنگ میں وزیراعظم کے شانہ بشانہ نظر آرہی تھی لیکن افواہ ساز فیکٹریاں اپنے کام جاری رکھے ہوئے تھیں۔
عمران خان صاف شفاف الیکشن سسٹم اور چار حلقوں میں انگوٹھوں کی تصدیق کے لئے میدان میں نکل آئے ہیں۔ کینیڈا والے ’’شیخ الاسلام‘‘ کی بے تابی پھر لوٹ آئی ہے۔ کرپشن سے پاک نظام اور حقیقی جمہوریت کے قیام کے لئے چوہدری صاحبان کا اضطراب بھی دیدنی ہے۔ اس کے لئے ان کی نظریں ’’شیخ الاسلام ‘‘ کی طرف اُٹھیں۔ کینیڈا کا ویزہ ملنے میں تاخیر تھی۔ ادھر ایک ایک دن بھاری گزر رہا تھا۔ ’’شیخ الاسلام ‘‘ کینیڈا سے لندن آرہے تھے، طے پایا چوہدری برادران بھی لندن پہنچ جائیں ، عمران خان اپنے بچوں سے ملنے اور شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ مہم کے لئے لندن میں تھے اور الطاف بھائی کا تو یہ 1992 سے دوسرا گھر ہے۔ اس صورتحال کو یار لوگ اپوزیشن کے گرینڈ الائنس کی جانب پہلا قدم قرار دے رہے تھے لیکن فی الحال اس پہاڑ سے جو کچھ برآمد ہوا ہے، وہ کرپٹ پولیٹیکل سسٹم اور موجودہ حکومت (جسے ’’شیخ الاسلام‘‘ غیر آئینی قرار دیتے ہیں) کے خاتمے کے لئے عوامی انقلاب کی ’’نوید‘‘ ہے جس کے لئے جناب ’’شیخ الاسلام‘‘ جولائی کے بجائے جون میں پاکستان تشریف لارہے ہیں۔
کیا دلچسپ منظر ہوگا جب کرپشن سے پاک نظام کی انقلابی جدوجہد میں، فائیو اسٹار کنٹینر میں جناب ’’شیخ الاسلام‘‘ کے ایک جانب بڑے چوہدری صاحب اور دوسری جانب چھوٹے چوہدری صاحب ہوں گے۔ لندن کی ملاقاتوں میں مشرف کے وکیل جناب خالد رانجھا بھی موجود تھے۔ اب پاکستان میں شاید احمد رضا قصوری بھی انقلابی کارواں کا حصہ ہوں۔ عمران خان فی الحال اس مہم جوئی کا حصہ نہیں۔ البتہ ان کا سیاسی حلیف فرزند لال حویلی ، شیخ الاسلام کے کنٹینر میں نظر آسکتا ہے۔ مشرف کے یہ سارے وفادار ، کیا انقلاب برپا کریں گے؟