ایران کے میزائل حملوں نے اسرائیل کی عسکری برتری کے خول میں دراڑ ڈال دی۔ ان حملوں میں نہ صرف کئی حساس فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، بلکہ کچھ دفاعی نظام عارضی طور پر ناکارہ بھی ہوگئے، جن میں آئرن ڈوم کی ناکامی خاص طور پر قابلِ ذکرہے ۔
ایران کے حملے گہرائی اور ہدف بندی کے ساتھ کیے گئے، جس کے نتیجے میں بعض ایئربیسز، ریڈار سسٹمز اور لاجسٹک مراکز کو شدید نقصان پہنچا۔ اس کے ساتھ ہی، اسرائیلی عوام میں خوف کی ایک نئی لہر دوڑ گئی، پناہ گاہوں کی طرف بھاگتے شہریوں کی تصاویر دنیا بھر میں پھیل گئیں، اور اسرائیل کی’’ناقابلِ تسخیر‘‘ساکھ کو ایک نفسیاتی دھچکا لگا۔ ایران نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ جواب دے سکتا ہے ۔
جیسے بجلی کسی گناہ گار درخت پر گرتی ہے، ویسے ہی حملے ایران کی چھت پر برسائے گئے۔ بیچ میدان میں امریکہ بھی اتر آیا — اپنے خوابوں کی شمشیر تھامے، اپنے زعمِ فتح میں چور۔ خواہش یہ تھی کہ تہران کی گلیوں سے اذان کا سُر رخصت ہو، اور فردو کی زمین سے یورینیم کے خواب چھین لیے جائیں۔ مگر نہ آسمان جھکا، نہ مٹی ہاری۔ اسلامی حکومت، جیسے کوئی صدیوں پرانا درخت ہو، اپنی جڑوں سمیت قائم رہی — نہ صرف قائم، بلکہ بیدار۔ فردو ، جہاں کہتے ہیں زیرِزمین ایٹمی راز دفن ہیں ۔ وہاں کی خاموشی ہی سب سے بڑی گواہی ہے۔ کوئی تصویر، کوئی دھواں، کوئی چیخ، کوئی چمک… کچھ بھی نہیں۔دراصل جنگ شروع ہوتے ہی ایران کو اندازہ ہوگیا تھاکہ ٹارگٹ ایٹمی پروگرام ہے۔سو اس نے فردو خاموشی سے خالی کردیا تھا۔
ایران نے جواباً العدید ،عین الاسد اور اربیل کی چھاتی پر اپنے میزائل برسائے، تو یہ صرف آتش اور دھماکے نہیں تھے،ایک آزاد قوم کا گرجتا ہوا اظہارتھا۔ ہینگرز، ڈرون اسٹیشنز اور کمانڈ پوسٹس خاک ہوئے، اور پینٹاگون نے جو پہلے خاموش رہا، آخرکار مان گیا کہ سو سے زائد امریکی فوجی ذہنی چوٹ کا شکار ہو چکے ہیں ۔ وہ زخم جن سے خون نہیں بہتا، مگر ریاستیں تھرّا جاتی ہیں۔
پہلی بار، دہائیوں بعد، امریکہ کی عسکری برتری کے طلسم پر ایران نے پتھر پھینکا اور وہ طلسم چکنا چور ہوا۔ خلیجی حلیف ہراساں ہوئے، سیٹلائٹ انٹیلی جنس مشکوک ہوئی، اور عراق کی پارلیمان نے واشنگٹن کے بوٹوں سے زمین چھیننے کا اعلان کیا۔ میدان جنگ سے ہٹ کر، میز پر جھکتا ہوا امریکہ ہم سب نے دیکھا۔ ایران نے خون بہائے بغیر عزت کے تاج کو جھکا دیا اور سامراج کی پیشانی پر ایسی لکیریں ڈال دیں جو نہ ٹیکنالوجی سے مٹیں گی، نہ بیانیے سے۔
تل ابیب نے واشنگٹن کوفردو پر بمباری پر آمادہ کرلیا ۔ اس کی کوشش رہی کہ وہ کسی طرح امریکہ کوپوری جنگ میں جھونک دےلیکن تاریخ سازش کی نہیں، سچ کی فصیل پر لکھی جاتی ہے۔ حملہ ہوا، ٹرمپ کے اپنے حلقوں سے ایک چیخ اٹھی کہ یہ کیا کیا۔یہی وہ موڑ تھا جہاں ٹرمپ نے ایک جملے کی قیمت پر کئی بم واپس جیب میں ڈال لیے۔سیاسی عقل مندی کا شاہکار یہ تھا کہ وہ جنگ کے دہانے پر جا کر پیچھے ہٹا،یعنی تلوار چلانے کے بعد، خود ہی زخم پر مرہم رکھ دیا۔یعنی حالیہ آتشیں پنجہ آزمائی کا آخری ورق کوئی دہلتا ہوا ’’سیز فائر‘‘ نہیں، ایک نظریاتی اذان ہے جس کی بازگشت دنیا کی ان گلیوں میں بھی سنائی دی جہاں پابندیاں بھوک کی طرح برس رہی تھیں۔
امریکہ وہ دیو ہے، جو صدیوں سے زمین پر اپنے بوٹوں کی دھمک سے دنیا کے جغرافیے بناتا اور مٹاتا آیا ہے ۔اب سانسوں میں تھکن لیے، اپنے ہی نقشے پر جھکا بیٹھا ہے۔اُسےاندازہ ہو گیاہے کہ ایران کوئی خیمہ نہیں جسے ہوا سے اڑایا جا سکے۔وہ اک درخت ہے جس کی جڑیں افلاک میں نہیں ،زمیں کے لبِ خاموش میں پیوست ہیں۔امریکہ اور اسرائیل چاہتے تھے کہ ایران کی چھاتی پر کاری ضرب لگے، مگر ان کی انٹیلی جنس نے رپورٹوں پر سوالیہ نشان لگا دیے۔ پھر جو کچھ ہوا وہ جنگ بندی کے نام پر تاریخ میں محفوظ ہوچکا ہے ۔ سب نے دیکھا کہ جنگ کی میز سے اٹھ کر جانے والا ایران نہیں، امریکہ اور اسرائیل تھے۔
انہوں نے ایران کے ساتھ وہی منظرنامہ دہرانا چاہا جو وہ عراق اور شام میں کامیابی سے ترتیب دے چکے تھے۔حکومتوں کی بساط الٹنا، معاشرتی ڈھانچے کو پاش پاش کرنا، اور قوموں کو خانہ جنگی کی دھول میں دھکیل دینا۔ مگر ایران نہ بغداد تھا، نہ دمشق سو ایران کی ریاستی ساخت، نظریاتی بنیاد اور عوامی ہم آہنگی سے اُن سازشوں کی کمر توڑ دی جو باہر سے تھوپی گئیں۔ نہ حکومت گری، نہ قوم بکھری ایران اپنی جگہ ایستادہ رہا، اور غاصب قوتیں ایک بار پھر شکست خوردہ تاریخ کے ایک نئے باب میں دفن ہو گئیں۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ جنگ بندی سفارتی دباؤ سے ہوئی اس دباؤ کی بنیاد میں چین کی معاشی کشش اور روس کی عسکری حکمت کاری شامل تھی۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اگر امریکہ اور اسرائیل کی انگلی بارود پر تھی، تو چین اور روس نے اُن کی کلائی پر سفارت کی گرفت مضبوط کر رکھی تھی۔اور یہ بھی ایران کی کامیابی ہے ۔