• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لا علمی کہاں تک جا پہنچی ہے اس کا اندازہ مورخہ 25 جون 2025ء کو روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحے میں وجاہت مسعود صاحب کے ایران سے متعلق لکھے گئے مضمون سے ہوا۔ موصوف نے خوبصورتی سے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔

ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ ایران کی سرزمین پر برطانوی سامراج کیخلاف علم بغاوت بلند کرنیوالے بھی ایک مجتہد آیت اللہ شیرازی تھے جنہوں نے 1888ؤمیں سامراجی معاہدوں کے خلاف کامیاب تحریک چلائی تھی۔ جو’’تحریک تحریم تمباکو‘‘کے نام سے تاریخ میں موجود ہے اور اس وقت بھی ایرانی قوم اپنے علماء کے پیچھے کھڑی تھی پھر دوسری تحریک 1940ءکے عشرے میں آیت اللہ شہید حسن مدرس نے برطانوی پٹھو رضا شاہ پہلوی کے خلاف چلائی تھی اور انھیں قتل کردیا گیا تھا۔ پھر ایک تحریک شمالی ایران یعنی مازندران آور گیلان میں روسی قبضے کے خلاف مرزا کوچک خان جنگلی نے چلائی تھی کیونکہ یہ تحریک جنگلی علاقوں میں تھی لہٰذا اسے نہضت جنگل یعنی تحریک جنگل کا نام دیا گیا ۔ یہ بھی ایک عالم دین تھے اور روسیوں نے ان کا سر قلم کر دیا تھا۔ گیلان کے دارالحکومت رشت میں ان کا مزار اور گھر دونوں آج بھی روحانی طاقت کا مظہر ہیں۔

جناب، ڈاکٹر مصدق کی تحریک پوری پڑھیں تو آپ کو علم ہوگا کہ وہ کبھی شاہ کیخلاف کامیابی ،چاہے وقتی ہی سہی ،حاصل نہیں کرسکتا تھا اگر آیت اللہ کاشانی اس کیساتھ نہ ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس انقلاب کی ناکامی کے بعد مصدق کو صرف قید ہوئی جبکہ نواب مجتبٰی صفوی سمیت درجنوں علماء کو فائرنگ اسکواڈ کے حوالے کیا گیا۔1963 ءمیںجب شاہ ایران نے امریکہ اور اسرائیل سے ذلت آمیز معاہدے کئے تو امام خمینی کی تحریک وجود میں آئی اور سب سے پہلے قربانی دینے والا طبقہ علماء کا تھا۔ اس تحریک کے آغاز میں ہی سینکڑوں علماء اور دینی طلبا کا قتل عام کیا گیا ، پھر ساری ایرانی قوم اپنے علماء کے پیچھے ہر شہر میں نکل آئی۔ تاہم شاہ کی افواج نے درندگی کے ساتھ چالیس سے پچاس ہزار لوگوں کا قتل عام کیا اور 1964ءکے اس قتل عام کے بعد امام خمینی کو ملک بدر کردیا گیا۔ امام خمینی ترکی سے ہوتے نجف پہنچے وہاں سے انکی تقاریر اور پیغامات ایران پہنچتے رہے اور یہ تحریک جڑیں پکڑتی رہی، اس دوران ساواکیوں (ساواک شاہ کی خفیہ ایجنسی ) نے نجف میں امام خمینی کے بڑے بیٹے آیت اللہ مصطفیٰ خمینی کو قتل کروا دیا۔ اسی دوران ڈاکٹر شریعتی کو لندن میں قتل کر دیا جاتا ہے، ادھر ایران میں کیونکہ بائیں بازو کی جڑیں عوام میں نہیں تھیں اس لئے تودہ پارٹی سمیت تمام بائیں بازو کے دھڑوں نے اسی امام خمینی کی تحریک کے پردے میں پناہ لی اور تحریک کے دھارے میں شامل ہو گئے، اس امید پر کہ ملائوں سے تو نظام نہیں چلے گا اور انقلاب کی کامیابی کے بعد انقلاب پر ہمارا قبضہ ہو گا۔ امام خمینی انقلاب سے پہلے ہی بعد کا نظام بھی ترتیب دے چکے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں نظام چلانے والوں کا لشکر بنا چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب کے بعد بہشتی اور مطہری جیسوں کا قتل بھی انقلاب کو نہ گرا سکا۔ آپ نے ان خیانتکاروں اور غداروں کی موت کا ذکر کیا۔ لیکن آپ یہ بھول گئے کہ انہی غداروں کی وجہ سے اوائل انقلاب ہی میں ایران کا صدر محمد علی رجائی اور وزیراعظم جواد باہنرکو شہید کیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کے 72 ارکان شہید کئے جاتے ہیں، لیکن انقلاب قائم رہتا ہے۔ انہی خیانت کاروں کی وجہ سے ایران پر جنگ مسلط کی جاتی ہے اور صدر بنی صدر اور وزیر خارجہ صادق قطب زادہ جیسے امریکی ایجنٹوں کے سبب آغازِجنگ میں ایران کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ لیکن ان دونوں خیانت کاروں کے فرار اور انجام کے بعد ایران کی جنگ میں کامیابیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ نے جن ترقی پسندوں کی موت پر اظہار افسوس کیا ہے وہ ترقی پسند نہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے ایجنٹ تھے۔

تودہ کے پارٹی سربراہ نورالدین کیانوری سمیت کسی بھی ایسے شخص کو پھانسی نہیں دی گئی جو نظام کا مخالف ضرور تھا لیکن کسی بیرونی طاقت کا ایجنٹ نہیں تھا ان میں سے اکثر صرف نظر بند کئے گئے اور اکثریت آزاد رہی۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ ایران اسرائیل جنگ میں تودہ پارٹی کے بچے کچھے افراد نے اپنی حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔

اور آخر میں آپ نے اپنے کالم میں کہا کہ ایران کو اس جنگ میں شکست ہوگئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نوشتہ دیوار بھی پڑھنے سے عاجز ہیں۔ ایسے میں جب ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل پر شکست کا سوگ طاری ہے اور ایران کے عوام اپنی رہبری اور فوج کی فتح کا جشن منا رہے ہیں۔ ٹرمپ اور نتن یاہو کی شکست کا اعلان خود ان کے ملکوں کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کر رہا ہے ۔اسرائیل اور امریکہ جو اہداف لے کر ایران پر حملہ آور ہوئے تھے وہ تین تھے۔1۔ ایران کو جوہری پروگرام کو بند کروانا۔ کیا ایسا ہوا؟۔ جواب نہیں۔2۔ ایران میں رجیم کو تبدیل کرنا ۔ کیا ایسا ہوا؟۔ جواب نہیں۔3۔ ایران کی سپریم قیادت کا خاتمہ۔ کیا ایسا ہوا؟۔ جواب نہیں۔اب جناب کالم نویس خود غور فرمائیں کہ آپ کا کالم پیشوائیت کے حوالے سے لاعلمی پر مبنی تھا یا کوئی دانستہ کاوش؟

تازہ ترین