• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روبینہ یوسف

اپنے گھر کی طرف یہ اُن کا پہلا سفر نہ تھا۔ مگراس بار کافی مدّت بعد وہاں جانا ہو رہا تھا، تو یہ رستے، عام سے رستے نہیں، ملال کی گزرگاہیں معلوم ہورہی تھیں۔ اُن کے قدم بہت بوجھل بوجھل سے تھے۔ وہ گویا خُود کو وہاں گھسیٹتے ہوئے لے جا رہے تھے۔ سامنے لکڑی کا بڑا سا سال خوردہ دروازہ تھا۔ آج اُسے لرزتے ہاتھوں سے کھولا، تووہ بڑے کرب سے چرچرایا، جیسے اُن کی بے رُخی پر شکوہ کُناں ہو۔ 

انہوں نے اندر قدم رکھے، تو یادوں کی ایک دھنک سی اُن کے سامنے لہرانے لگی۔ اُن کی شریکِ حیات، سجیلا جو آج سے سات سال پہلے اُنہیں داغِ مفارقت دے کر جا چکی تھیں، اُن کے گھر لوٹنے کے وقت ہمیشہ پہلے دن کی دلہن کی طرح سجی سنوری اُن کا استقبال کرتی تھیں۔ نرم سی اَن چُھوئی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے جب وہ سامنے آتیں، تو اُن کی دن بھر کی تکان ایک پل میں اُڑن چُھو ہوجاتی۔ 

اُن کی شادی کے بعد پانچ برس تک اولاد نہ ہوئی تھی۔ والدہ کو اکلوتے بیٹے کی اولاد دیکھنے کی بڑی تمنّا تھی۔ وہ اکثر کہا کرتیں کہ ’’اسد کا بچّہ دیکھ لوں، پھر بے شک اللہ مجھے اُٹھا لے۔‘‘ اور اُن کے والد، حامد ریحان صدیقی ہونٹوں پر دھیمی سی مسکان لیے صرف سُنا کرتے۔ پھر ٹھیک پانچ سال بعد قدرت نے اُنہیں جڑواں بیٹیوں سے نوازا۔ امّاں کا کہا سچ ہوا اور وہ بچیوں کی پیدائش کے ایک سال ہی بعد جنت مکانی ہوگئیں۔

اسد اب آہستہ آہستہ چلتے ہوئے گھر میں داخل ہوگئے تھے۔ بغلی دروازے سے ہوتی ہوئی اُن کی نظریں گھر کے باغیچے کا طواف کرنے لگیں۔ سہمے، سوکھے پتّوں کو نوحہ کُناں گرد اُڑائے لے جا رہی تھی۔ اُجڑی کیاریاں، ٹوٹا مٹکا… یہ اِس خانماں برباد گھر کا وہ گوشہ تھا، جو کبھی قابلِ رشک ہوا کرتا تھا۔ یہاں اُنہوں نے ایک گھنی امربیل جو سجیلا کی فرمائش پر لگائی تھی، اورجو نہ جانے کب کی سوکھ کےنیچے گرچُکی تھی۔ 

اُن کی بیٹیوں نے ہوش سنبھالا، تو یہاں روزانہ گملے ٹوٹا کرتے۔ وہ باغ میں آنے والی چڑیوں، تتلیوں کے پیچھے بھاگتیں۔ کیاریوں، گملوں میں کِھلنے والا کوئی پھول اُن کے ہاتھوں میں آ کر سلامت نہ رہتا۔ اور وہ سجیلا کے لاکھ آنکھیں دِکھانے کے باوجود ہنستے رہتے۔ شریکِ حیات کی وفات کے بعد وہ دونوں بیٹیوں میں اپنی جائیداد تقسیم کرکے کینیڈا جا بسے تھے۔ سجیلا کو کینیڈا بہت پسند تھا اور اُن کا ارادہ تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ دونوں کینیڈا شفٹ ہوجائیں گے۔

اُن کی والدہ کی وفات کے بعد یہ آنگن ایک بار تب نوحہ گر ہوا، جب اُن کے والد بھی اُنہیں چھوڑ کر چل دیئے۔ پھر رفتہ رفتہ گھر، یادوں کا مدفن بنتا چلا گیا اور آج اُس منڈیر سے، جو ہمیشہ چڑیوں، کبوتروں کی چہکاروں سے آباد رہتی تھی، کسی بیوہ کی سرد، یاسیت زدہ آہیں سی سنائی دیتی محسوس رہی تھی۔ اُن کے گھر کا کچن، جہاں سے روایتی، فرمائشی پکوانوں کی اشتہا انگیز خوشبوئیں اُٹھا کرتی تھیں، بالکل اُجاڑ، ویران پڑا تھا۔ 

اُن کی بھٹکتی نگاہیں ڈرائنگ روم کے آبنوسی دروازے پر ٹِک گئیں، جو مکمل طور پر اپنی آب و تاب کھو چُکا تھا کہ شہر کے جدید علاقے میں شان دار کوٹھی بنانے کے بعد وہ شاذ ہی یہاں کا رُخ کرتے تھے۔ آہ…!! کتنی بڑی کوتاہی ہوگئی تھی اُن سے۔ اُن کے دوستوں، اُن کی فیملیز کے دَم سے اکثر وہاں کتنی رونق رہا کرتی تھی۔ اُن کا دوست، صبیح جو ناک میں بولتا تھا اوراُس کی باتوں پر وہ سب کس قدر قہقہے لگاتے تھے۔ 

زین، جو کہ ہرسال سردیوں میں اُنہیں اپنے گھر پہ ’’بڑے پایوں‘‘ کی لذیذ دعوت پر مدعو کرتا تھا۔ پھر اُن سب کا مِل کر دُور دراز کے مقامات، فارم ہاؤسز کو رونق بخشنا۔ گزرا وقت، جیسے یادوں کی ٹکسال سے پگھل پگھل کر اُن کے سامنے گررہا تھا اور وہ بس، اپنے دل کی بے قابو دھڑکنوں کا شور سُن رہے تھے۔ اُن کے زیادہ تر دوست تو قبروں میں جا سوئے تھے اور چند ایک، اُن کی طرح زیست کے درخت پہ بوسیدہ پتّوں میں ڈھلے آخری خزاں کا انتظار کررہے تھے۔

ڈرائنگ روم سے سیدھے ہاتھ پر اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے اُن کے قدم رُکنے لگے۔ سامنے کی بڑی دیوار اُن کے ماضی کے حسین لمحات کی تصویروں سے بھری پڑی ہوئی تھی۔ اُن کی شادی کے ابتدائی دنوں سے لے کر ابّا کی رحلت تک کے لمحات، پھر نازنین، شہزین کے بچپن، جوانی اور اُن کی شادیوں تک کی خاص خاص تصویروں سے سجی یہ دیوار جیسے تشنگی کا ایک عذاب لیے آئی تھی۔ اُنہوں نے آنکھوں میں آئی نمی کو انگلیوں کی پوروں سے صاف کیا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ آہ…!! خواب گاہ میں آج بھی سجیلا کی دل نواز مہک، مقدس، پوتّرسی خوش بُو خاموشی کی ردا اوڑھے سو رہی تھی۔

سب کچھ وہی تھا، مگر اب وہاں کوئی نہ تھا۔ الماری کے پٹ کھولتے ہوئے انہوں نے بمشکل خُود کو سنبھالا۔ ’’مَیں کیسی لگ رہی ہوں؟‘‘ سجیلا کی سرگوشی اُن کی سماعتوں میں رس گھول گئی۔ دبئی کے مشہور مالز دبئی فیسٹیول، سِٹی مال اور Mercato سے لیے گئے ملبوسات، فرانس کے Latoll، Evry 2 ، ایران مال کی بہترین جگہوں سے لی گئی جیولری، ترکیہ کے قالین، قطر کے گلابوں کے پرفیومز، جہاں بَھر سے لیے گئے کارپٹس، فانوس اور کچن آئٹمز، قدرت نے اُن پر اپنی عنایات کے سارے دَر کھول رکھے تھے۔ 

بیٹیوں کی شادیاں کیں اور پھر اچانک ہی سجیلا ان کو تنہا کر کے چل دیں، تو ایسا لگا، کسی طلسم ہوش رُبا کا جادو تمام ہوا۔ یہ گھر اُنہیں کاٹ کھانے کو دوڑنے لگا۔ خوشیوں کے پرند کوچ کرگئے اور اِن ہی وحشتوں سے گھبرا کے وہ کینیڈا چلے گئے۔

نازنین، شہزین کے شوہر یوں تو اچھے تھے، مگر اُن کی نظریں سُسر کی جائیداد، اثاثوں پر تھیں اور اِس گھر ’’سجیلا وِلا‘‘ پر تو وہ جانے کب سے نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ ’’اپنی محبّتوں کا گہوارہ لالچی دامادوں کے حوالے کرنا ہوگا؟‘‘ یہ تصوّر ہی اُن پر سکتہ سا طاری کردیتا۔ جب دل غم سے پھٹ رہا ہو، تو ماضی مجسّم ہو کر آنکھوں کے سامنے کیوں آ جاتا ہے؟ وہ کس دل سے امّاں کا چاندی کے پایوں والا تخت کباڑی کو بیچ دیں؟ 

افسردگی نے اُنہیں اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ بیٹیوں، دامادوں کے آئے دن کے تقاضوں سے مجبور ہو کر وہ پاکستان چلے تو آئے، مگر ماضی ایک دل فریب خواب بن کر اُن کے پیروں کی زنجیر ہوگیا۔ اگر دامادوں کی بات نہیں مانتے، تو بیٹیوں کی دل آزاری ہوگی۔ اپنے دل کی نہ مانی تو شاید…شاید سجیلا ناراض ہوجائے؟ یہی سب سوچتے اُنہیں زور کا چکر آگیا۔ مگر یہ تو ایک نہ ایک دن ہونا ہی تھا۔ جب رُوح نکل جائے، تو جنازہ تو اُٹھانا ہی پڑتا ہے۔ اُن کی بھی رُوح نکل چُکی تھی۔ سجیلا اور اپنے ماضی کی یاد کے ساتھ وہ ایک جنازہ ہی تو تھے۔

نہ جانے کتنے گھنٹے گزر گئے تھے، یک دَم فون کی بیل نے چونکا دیا۔ دوسری طرف نازنین تھی، جو اُن کی طرف سے فکرمند تھی۔ انہوں نے آواز میں بشاشت پیدا کرتے ہوئے اُسے تسلی دی۔ فون رکھ کر واپسی کے لیے قدم بڑھائے۔ گھر کو تالا لگا کے جو پلٹے، تو نگاہ سامنے کی طرف اُٹھ گئی۔ سالوں کی دھند میں بسا چہرہ آہستہ آہستہ واضح ہوتا چلا گیا۔ وہ راشدہ تھی، اُن کی کالج کے زمانےکی محبّت۔ مگر ہر چاہت کے مقدر میں وصال نہیں ہوتا، تو وہ بھی جدا ہوگئے تھے۔ راشدہ اُنہیں پہچان چُکی تھی۔ 

اب دونوں ایک دوسرے کے مقابل پرانے دِنوں کو کھوج رہے تھے۔ ’’تم کیسی ہو راشدہ…؟‘‘وہ سراپا اشتیاق تھے۔ ’’سچ بتاؤں؟‘‘ ایک تھرتھراتی سی سرگوشی اُن کے کانوں میں رس گھول گئی۔ ’’جیسا تم نے آخری بار دیکھا تھا، مَیں آج بھی ویسی ہی ہوں۔‘‘ کئی ادھوری حکایتیں، راشدہ کے لہجے کا درد بن گئیں۔ ’’ تم نے شادی…‘‘ انہوں نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ ’’کی تھی، مگر وہ غضب کا قیافہ شناس نکلا۔ 

میری آنکھوں سے دل میں اُتر کر تمھاری شبیہہ تک پہنچ گیا اور مَیں نے بھی اعتراف کرلیا… تو بس، پھر ہمارے رستے الگ ہوگئے۔‘‘ راشدہ کے یوں برملا اعتراف نے ایک لمحے کو تو اُنھیں کچھ مغرورسا کر دیا۔ اچانک ہی یوں لگنے لگا، جیسے چہار اطراف پھول ہی پھول، رنگ ہی رنگ بکھر گئے ہوں۔ وہ پھر سے زندہ ہو اُٹھے تھے۔ اُنھیں لگا، جیسےوہ بوڑھے ریٹائرڈ اسد نہیں،55 سال پہلے والے توانائیوں، اُمنگوں سے بھرپور اسد ہیں۔ 

دل سجدۂ شکر کو مچلنے لگا کہ اُنہیں تو زندگی نے سب ہی کچھ دیا تھا۔ بہت محبّت کرنے والی وفاشعار بیوی، پیاری بیٹیاں، بہترین ملازمت، خُوب صُورت گھربار۔ اور اب یہ زندگی سے ریٹائرمنٹ کا جو بھوت اُن کے سر پر سوار ہوگیا تھا، وہ بھی پل بھر میں ہوا ہوگیا، اُنھیں اندازہ ہوا کہ زندگی سے ریٹائرمنٹ کا خوف، خُود ریٹائرمنٹ سے بھی کہیں زیادہ خوف ناک ہے۔ انھوں نے راشدہ کا بڑھا ہوا ہاتھ تھاما اور پلٹ کر تالا کھولنے لگے کہ وہ ’’سجیلا وِلا‘‘ کو دوبارہ آباد کرنے کا فیصلہ کر چُکے تھے۔