ملک کی سیاست اس وقت ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں دوست اور دشمن کی پہچان مشکل ہو چکی ہے۔ ہر جماعت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، مگر کچھ جماعتوں نے اپنی سیاست کو اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے جہاں قومی مفاد پسِ پشت چلا گیا ہے اور ذاتی مفاد کو وطن سے بھی مقدم سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حالیہ حرکات اور بیانات نے عام شہری کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا واقعی یہ جماعت ملک کی بہتری کے لیے سیاست کر رہی ہے یا پھر اسے کسی بیرونی ایجنڈے کے تحت چلایا جا رہا ہے؟
پاکستان کے اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش، نوجوان نسل کو بغاوت پر اکسانا، بیرون ملک بیٹھ کر ملک کے خلاف پروپیگنڈہ، اور اپنے کارکنان کو اداروں سے ٹکرانے پر اُکسانا — یہ سب کچھ صرف اختلافِ رائے یا سیاسی مخالفت نہیں کہلا سکتا۔ یہ وہ طرزِ عمل ہے جو ماضی میں ہمارے دشمن ملک اپناتے رہے، اور آج بدقسمتی سے وہی رویہ ایک پاکستانی سیاسی جماعت اپنا رہی ہے۔
تحریکِ انصاف کے رہنما بار بار ریاستی اداروں، افواجِ پاکستان، عدلیہ، اور پولیس کے خلاف ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جو کسی دشمن ملک کے میڈیا میں بھی کم ہی سننے کو ملتی ہے۔ کیا یہ حب الوطنی ہے؟ کیا پاکستان کے نوجوانوں کو یہ سکھایا جانا چاہیے کہ جو ادارے ملک کے تحفظ کی ضمانت ہیں، انہیں گالیاں دیں؟ یہ کیسا انقلاب ہے جو صرف توڑ پھوڑ، گالم گلوچ اور ملکی ساکھ کی تباہی پر مبنی ہو؟
گزشتہ چند سالوں میں تحریکِ انصاف کی قیادت نے دنیا کے سامنے پاکستان کا منفی چہرہ دکھانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ کبھی انسانی حقوق کا بہانہ، کبھی اظہارِ رائے کی آزادی کا نعرہ، اور کبھی سیاسی انتقام کا ڈھونگ ان سب کے ذریعے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کیا گیا۔ ملک میں رہ کر ملک کی خامیاں بیان کرنا ایک حد تک قابلِ قبول ہوتا ہے، لیکن بیرونِ ملک جا کر اپنے ہی وطن کو ظالم، جابِر اور فاشسٹ ریاست کہنا دراصل ایک منظم ایجنڈے کا حصہ دکھائی دیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر واقعی تحریکِ انصاف ایک قومی جماعت ہے تو پھر اس کا بیانیہ قومی کیوں نہیں؟ ریاستی اداروں سے دشمنی کس ایجنڈے کا حصہ ہے؟ کیا سیاسی مفاد کے لیے ہم ملک کی ساکھ داؤ پر لگا دیں؟ کیا اقتدار میں نہ آنے کی صورت میں ملک کو ہی بدنام کرنا درست ہے؟
ایک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کا میڈیا سیل سوشل میڈیا پر مسلسل ایسے پیغامات پھیلا رہا ہے جو نوجوانوں کو ریاست کے خلاف اُکساتے ہیں۔ ان پیغامات میں افواجِ پاکستان کو نشانہ بنایا جاتا ہے، عدلیہ کو برا بھلا کہا جاتا ہے، اور یہاں تک کہ پاکستان کے وجود پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ آزادیِ رائے کے نام پر ہو رہا ہے، مگر درحقیقت یہ آزادی نہیں، بلکہ بدنیتی ہے۔
اس جماعت نے احتجاج کے نام پر سرکاری عمارتوں کو جلایا، یادگاریں مسمار کیں، پولیس اہلکاروں پر حملے کیے، اور عوامی املاک کو نقصان پہنچایا۔ ان واقعات نے دنیا بھر میں پاکستان کے بارے میں کیا تاثر دیا؟ کیا یہ سب کسی دشمن ملک کے کارندے کر رہے تھے یا وہ افراد جنہوں نے پاکستان کا پرچم ہاتھ میں اٹھا رکھا تھا مگر دل میں نفرت کا زہر بھرا ہوا تھا؟
تحریکِ انصاف اگر واقعی پاکستان کی خیرخواہ ہے تو اسے اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ سیاسی اختلاف، احتجاج، تنقید — یہ سب جمہوریت کا حصہ ہیں، مگر دشمنی، نفرت، اور ادارہ جاتی جنگ کسی بھی طور پر سیاسی عمل نہیں۔ اگر کوئی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ صرف وہی محبِ وطن ہے، باقی سب غدار ہیں، تو یہ سوچ خود ایک بڑی گمراہی ہے۔
پاکستان کے حالات پہلے ہی نازک ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، دہشت گردی اور عالمی دباؤ ان سب سے ملک دوچار ہے۔ ایسے میں ایک بڑی جماعت کا ریاستی اداروں سے مسلسل محاذ آرائی کرنا ملک کے لیے زہر قاتل بن چکا ہے۔ اب وقت ہے کہ عوام بھی یہ سمجھیں کہ محض نعرے لگانے، ویڈیو بنانے اور سوشل میڈیا پر جنگ جیتنے سے نہ ملک بنتا ہے، نہ نظام چلتا ہے۔
قوم کو چاہیے کہ وہ سیاسی شعور کے ساتھ ساتھ قومی شعور بھی اپنائے۔ ہمیں ان جماعتوں سے سوال کرنا ہوگا جو اقتدار کی خاطر ملک کو تباہ کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔ یہ وقت جذباتی نعروں کا نہیں، بلکہ حقیقت کو پہچاننے کا ہے۔ ملک رہے گا تو سیاست بھی ہو گی۔ اگر ملک ہی نہ رہا تو تمہارے جلسے، تمہاری تقاریر اور تمہارے سوشل میڈیا ٹرینڈز بھی کسی کام کے نہیں ہوں گے۔