جہاں پاکستان لازوال نعمتوں سے مالامال ہے وہاں پر دنیا کے ٹاپ ٹین Disaster Prone آفت اور ماحولیاتی تبدیلی کے شکار ممالک میں بھی شامل ہے۔ پاکستان نصف صدی سے زائد عرصہ سے مسلسل قدرتی آفات کی زد میں ہے۔کبھی زلزلوں نے بستیاں اجاڑیں تو کبھی سیلابوں نے گائوں اور شہر بہا دیئے۔ایک وقت میں مین میڈMan Made یعنی انسانی کوتاہیوں کے سبب تباہی آئی تو دوسرے وقت بے پروائی اور بے احتیاطی نے شدید نقصان کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے ان سانحات سے کچھ سیکھا؟ بدقسمتی سے ہماری قومی یادداشت محدود ہے۔ جب تباہی آتی ہے تو سارا ملک سوگوار ہو جاتا ہے، ٹی وی چینلز، اخبارات اور سوشل میڈیا پر ہمدردی، دعائیں اور عارضی اقدامات دیکھنے کو ملتے ہیں مگر جیسے ہی دوچار دن گزرتے ہیں، ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ متاثرین اپنی زندگی کی شکست و ریخت میں اکیلے رہ جاتے ہیں اور باقی قوم ایک نئے واقعے کے انتظار میں مصروف ہو جاتی ہے۔
دنیا نے ان تباہیوں اور بربادیوں سے سبق سیکھا ہے۔ جاپان نے زلزلوں سے لڑنا سیکھا، ترکی نے آگ سے امن کی راہ نکالی، بنگلہ دیش نے سیلاب سے ہم آہنگی پیدا کی۔ مگر ہم… صرف دعائوں اور افسوس کے سہارے زندگی گزارتے چلے جا رہے ہیں۔وقت آ چکا ہے کہ ہم اجتماعی سطح پر خود کو تیاری، آگاہی اور منصوبہ بندی کے اصولوں کے مطابق ڈھالیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیمی نصاب سے ہی قدرتی آفات، ماحولیاتی خطرات اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت دینا ہوگی۔ مقامی حکومتوں کو نہ صرف وسائل مہیا کرنا ہونگے بلکہ انہیں فعال اور ذمہ دار بھی بنانا ہوگا۔ ہسپتال، اسکول، سڑکیں اور دیگر بنیادی ڈھانچے اس طرز پر بنائے جائیں جو زلزلوں اور سیلابوں کا سامنا کر سکیں۔ ہر گائوں، ہر محلے میں ایک ایسا مرکز ہو جو ہنگامی صورت حال میں فوری مدد فراہم کر سکے۔پاکستان کے شمالی علاقے، اپنے قدرتی حسن، سرسبز وادیوں اور بلند و بالا پہاڑوں کی وجہ سے ہر سال لاکھوں سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں تاہم یہی علاقے حالیہ برسوں میں شدید موسمی تغیرات اور اچانک آنیوالے تباہ کن سیلابوں کی زد میں ہیں، جو نہ صرف مقامی آبادی بلکہ سیر و تفریح کی غرض سے آنیوالے سیاحوں کیلئے بھی جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ گزشتہ چند برس میں کئی ہولناک واقعات جنم لے چکے ہیں ۔ان خطرات سے نمٹنے کیلئے ایک مربوط، منظم اور کثیر الجہتی حکمتِ عملی اختیار کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
(1)سب سے پہلا قدم ایک موثر اور قابلِ اعتماد پیشگی انتباہی نظام (Early Warning System) کا قیام ہے۔ اسکے تحت جدید موسمیاتی اسٹیشنز، دریائوں پر پیمائش کے آلہ جات اور مستحکم مواصلاتی نظام نصب کئے جائیں تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال کی پیشگی اطلاع بروقت عوام و سیاحوں تک پہنچ سکے۔ اس مقصد کیلئے مقامی انتظامیہ، ہوٹلز، ریڈیو اور موبائل الرٹس کا استعمال ناگزیر ہے۔ (2)سیلابی ریلوں کا رخ موڑنے اور انکے اثرات کو کم کرنے کیلئے چند بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر از حد ضروری ہے۔ اس میں پہاڑی علاقوں میں چھوٹےآبی ذخائرپانی کی نکاسی کیلئےانحرافی راستے (Diversion Channels) اور مضبوط پشتوں کی تعمیر شامل ہے۔ علاوہ ازیں، سیاحتی مراکز اور شہری بستیوں میں نکاسیِ آب کے نظام کو بہتر بنا کر پانی کے جمع ہونے کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔عمارتوں کو سیلابی اثرات سے محفوظ بنانےکیلئے ان کی اونچائی اور ڈیزائن میں تکنیکی تبدیلیاں بھی ضروری ہیں۔ (3)سیاحوں کو سیلاب سے محفوظ رکھنےکیلئےانکی تربیت اور آگاہی بے حد اہم ہے۔ بروشرز، سائن بورڈز اورسوشل میڈیا کے ذریعے خطرات کی نشاندہی، احتیاطی تدابیر اور ہنگامی اقدامات کے بارے میں رہنمائی کی جائے۔ اسکے ساتھ ساتھ سیاحتی علاقوں میں محفوظ راستے اور پناہ گاہیں واضح اور نمایاں انداز میں نشان زد ہونی چاہئیں۔ مقامی ہوٹلز اور گیسٹ ہائوسز کو ہنگامی صورتحال کیلئے ابتدائی طبی امداد، ٹارچز اور مواصلاتی آلات سے لیس کرنا بھی ضروری ہے۔ (4)اس تمام تر منصوبہ بندی کو کامیاب بنانے کیلئےمختلف حکومتی اداروں، مثلاً نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(NDMA)محکمہ شاہرات، محکمہ موسمیات، صوبائی سیاحت و بلدیاتی محکموں اور مقامی حکومتوں کے درمیان قریبی رابطہ اور تعاون ناگزیر ہے۔ اسکےعلاوہ مقامی آبادی کو اس عمل میں شامل کرنا، انکے تجربات اور علاقائی فہم و فراست کو بروئے کار لانا نہایت اہم ہے، کیونکہ وہ ان خطوں کی باریکیوں اور خطرات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ (5)سیاحت معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بن سکتی ہے، بشرطیکہ ہم اسکے خطرات کا ادراک کرتے ہوئے، تحفظات کا موثر بندوبست کریں۔ پہاڑی علاقوں میں سیلابی آفات کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر حکومت، متعلقہ ادارے، مقامی کمیونیٹز اور خود سیاح بھی اس چیلنج کا سامنا ایک متحد اور بیدار شعور کیساتھ کریں۔ اگر ہم آج سنجیدہ اقدامات نہ کرپائے، تو یہ خوبصورت وادیاں انسانی غفلت کا نوحہ بن جائیں گی۔
سیاحوں کیلئے مندرجہ ذیل ہدایات ممد و معاون ہو سکتی ہیں۔1۔ موسمی حالات کی معلومات رکھیں: روانگی سے قبل اور دورانِ سفر موسم کی تازہ ترین پیشگوئی ضرور چیک کریں، خاص طور پر مون سون کے دوران۔2۔ندی نالوں سے دور قیام کریں:کسی بھی ہوٹل، کیمپ یا رہائش گاہ کا انتخاب کرتے وقت یہ دیکھیں کہ وہ کسی دریا، نالے یا برساتی گزرگاہ کے قریب تو نہیں۔3۔بلند اور محفوظ جگہ کا انتخاب کریں:پہاڑی علاقوں میں ہمیشہ ایسی جگہ پر قیام کریں جہاں زمین بلند ہو تاکہ سیلابی پانی کا خطر ہ کم ہو۔4۔ہنگامی راستوں سے واقفیت حاصل کریں:مقامی افراد یا ہوٹل انتظامیہ سے ممکنہ ایمرجنسی راستوں، محفوظ مقامات اور قریبی ریسکیو مراکز کی معلومات حاصل کریں۔5۔سیلاب کی وارننگ پر فوری عمل کریں:کسی بھی وارننگ یا الرٹ کو معمولی نہ سمجھیں۔ فوری طور پر محفوظ مقام کی طرف روانہ ہوں۔6۔رات کے وقت غیر ضروری سفر سے گریز کریں:سیلاب اکثر رات کی تاریکی میں خطرناک ثابت ہوتے ہیں، اس لئے رات کے وقت سفر یا دریا کے قریب جانے سے مکمل اجتناب کریں۔7۔اپنے ساتھ ایمرجنسی کِٹ رکھیں: فرسٹ ایڈ، ٹارچ، اضافی پاور بینک، پانی، خشک خوراک اور ایک سیٹی اپنے بیگ میں رکھیں تاکہ ایمرجنسی میں مدد مل سکے۔8۔سیاحت کے دوران اداروں اور افراد کی ہدایات کا احترام کریں:مقامی افرادکی دی گئی ہدایات یا تنبیہات کو سنجیدگی سے لیں، وہ زمین کے مزاج کو بہتر سمجھتے ہیں۔9۔سوشل میڈیا پر مقام کی معلومات شیئر کریں:اپنی لوکیش اپنے عزیزوں یا دوستوں کو بھیجتے رہیں تاکہ بوقتِ ضرورت مدد پہنچ سکیں۔10۔ دیگر صوبوں سے شمالی علاقہ جات سفر کرنیوالے حضرات محتاط ڈرائیونگ کریں۔