برادرم عطاء الحق قاسمی نے ’’بیتے دنوں کی یادوں‘‘ کے عنوان سے ایک منفرد اور خیال افروز اور اتنی ہی دلچسپ تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں بہت سے نامور لوگوں نے اپنی ’’یادگار یادوں‘‘ کو دوہرایا۔ ان نامور لوگوں میں ہمارے قانون دان دوست اور سابق صوبائی اور وفاقی وزیر بیرسٹر اعتزاز احسن بھی شامل تھے، میرے جیسے لوگوں کے دلوں میں جتنی محبت چودھری اعتزاز احسن کی ہے اس سے کہیں زیادہ احترام اور عزت اُن کے والدین محمد احسن علیگ اور والدہ محترمہ رشیدہ احسن کی ہے جن کی معاشرتی شعبہ کی قابل فخر خدمات کا ذکر ہمارے گجرات سے تعلق رکھنے والے بزرگوں اور عزیزوں کی زبان پر رہتا ہے۔
’’بیتے دنوں کی یادوں‘‘ کی تقریب میں بیرسٹر اعتزاز احسن نے اپنے بچپن جوانی اور سیاست کے دور کی بیشتر یادیں خوبصورت اور دلچسپ زبان اور انداز میں بیان فرمائیں۔ ان سب یادوں کو اس کالم میں جگہ دینے کی خواہش پوری نہیں ہو سکتی مگر ان کے کیمرج یونیورسٹی سے وطن واپسی کے دور کی یادیں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔ بیرسٹر اعتزاز احسن کہتے ہیں:
’’کیمرج سے ڈگری حاصل کرنے اور لندن سے بار کا امتحان مختصر عرصے میں پاس کرنے کے بعد 1967ء میں پاکستان واپس آیا تو CSPبنا بیٹھا تھا۔ CSP کا امتحان دینے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہ تھا لیکن میں LEFT کا اور سوشلزم کا آدمی تھا۔ امتحان تو دیا متحدہ پاکستان میں اول پوزیشن بھی حاصل کی اب دشوار مرحلہ پیش آیا کہ نوکری کروں یا نہ کروں۔ لوگ کہتے تھے بھئی نوکری کہاں۔ بادشاہت ہے دل کہتا تھا کہ کارکنوں اور مزدوروں کی وکالت کرتے کرتے کہاں جبر کرنے والے قبیلے میں شامل ہو جائو گے؟ احسن علیگ اور رشیدہ احسن نے اپنی مرضی کا فیصلہ کرنے کے لئے آزاد کیا ہوا تھا۔ بہنوں اور بھائی کے دل میں تھا کہ CSPافسر بن جائے مگر کوئی بھی مجبور کرنے کو تیار نہ تھا۔ احسن علیگ کے خاندان میں مکمل جمہوریت تھی بالآخر اوکاڑہ میں انگریزی کے پروفیسر اور میرے بہت قریبی ماموں (مرحوم) پروفیسر سعید احمد کو میرے ساتھ بات کرنے پر مامور کیا گیا۔ ستمبر کا آخری ہفتہ تھا ماموں سعید نے پوچھا رزلٹ کب انائونس ہوا تھا؟ میں نے بتایا چودہ جولائی کو۔ کہنے لگے ذرا یہ سوچو کہ ان دس ہفتوں میں تمہارے سو سے زیادہ رشتے آئے ہیں۔ میں ہنس دیا اور کہا مجھ سرخے کے ساتھ کس لڑکی کا مستقبل خراب کرنا چاہتے ہو؟ CSPسے میرے انکار کے بعد جس لڑکی نے میرے ساتھ مل کر اپنا مستقبل دائو پر لگانے کا ارادہ کر لیا وہ بشریٰ سیف اللہ ہے۔ نورین بشریٰ کی بہترین سہیلی ہے۔ فرید حسن میرا بہترین دوست ان دونوں کی شادی پر ہماری ملاقاتیں ہوئیں۔ اب میرے لئے رشتوں کی پیشکش شاذو نادر ہی رہ گئی تھی یہ بشریٰ اور اس کے ماں باپ کیپٹن سیف اللہ اور آنٹی نذیر بیگم مان گئے آئندہ کی جدوجہد اور آزمائشوں کے لئے ایک خوبصورت اور مضبوط ہم سفر نے ہاتھ تھام لیا۔ یہ ہاتھ کتنا دلکش اور مضبوط تھا اس کا احساس 70کی دہائی کے اس زمانے میں ہوا جب ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران مجھے بار بار جیل جانا پڑا وکالت بند ہوئی آمدن صفر رہ گئی اور بشریٰ تھیں کہ بچوں کی تربیت اور تعلیم میں کوئی فرق نہ آنے دیتی اور نہ ہی جیل کی محدود ملاقاتوں کے دوران ماتھے پر کوئی بل ڈالتی۔ ہاں بیان کی روانی میں تو بات بشریٰ تک ہی پہنچنی چاہئے تھی لیکن 1950 تا 1980کا قصہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر کئے بغیر پورا نہ ہو گا۔ 6؍ اکتوبر 1976ء کے دن میں نے CSP کا عہدہ لینے سے انکار کیا 8؍ اکتوبر کو فلیٹیز ہوٹل لاہور میں بھٹو صاحب سے جا ملا۔ اب میں سیاست کے لئے آزاد تھا۔ وہ بھی بہت حیران ہوئے کہ میں نے اتنا بڑا قدم کس زعم میں اٹھا لیا لیکن میں اپنی گفتگو میں ان کو اس قدر متاثر ضرور کر پایا کہ جب چار سال بعد گجرات میں ایک ضمنی انتخاب کا مرحلہ آیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے خود مجھے ہی ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا اور انتخاب جیتنے کے پہلے ہی روز صوبائی وزیر مقرر کر دیا بھٹو صاحب کے ساتھ بیتے ہوئے دنوں کی کئی یادیں ہیں اور ان کا تفصیلاً ذکر ضروری مگر آج کی داستان تو ویسے ہی طویل ہو گئی ہو گی۔ اس کو یہاں ہی ختم کرتا ہوں۔‘‘ بیرسٹر اعتزاز احسن سے گزارش ہو گی کہ انہوں نے بھٹو صاحب کے ساتھ بیتے ہوئے دنوں کی جن کئی باتوں کا حوالہ دیا ہے اور جن کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں ان کو ضبط تحریر میں لائیں۔