پاکستان اور ایران کا جینا مرنا جُڑ چکا ہے۔ بقا، استحکام، خودمختاری، جغرافیہ، نظریہ، سیکورٹی کو لاحق خطرات باہمی پیوست ہیں ۔ 10مئی، 24جون نے یہی کچھ اَزبر کرایا، 10مئی اور 24جون دونوں ممالک کو نیا جہان دے گئے ۔ یقینا ً! بھارت کا 6 مئی کو پاکستان پر وار ، اَدھ موا رکھنے کا مواد تھا ۔ بعداز واقعہ ادراک آسان ، ایران پر اسرائیلی حملہ کی تیاری کا حصہ تھا ۔ کم و بیش 30سال سے اسرائیل براہِ راست ایران پر حملہ کرنے کی تیاری میں ، اسرائیلی منصوبہ سازوں نے پاکستان کو بھارت کے ہاتھوں زدوکوب کروانے کے بعد ، تسلی سے ایران کو دبوچنا تھا۔ بھارت’’گھر میں گھس کر ماریں گے‘‘ کی غلط فہمی میں تھا ، کسی شاطر دوست نے پھنسا دیا۔ اولین مقصد پاکستان کو ہلکان کرنا اور چین کے عسکری اوزاروں کو ناپ تول کے اعشاری نظام پر پرکھنا تھا۔ یقینا ًبھارتی مہم جوئی اسرائیل کی ایران پر حملے کی مد میں تھی۔ اگرچہ بھارت نے منہ کی کھائی، اسرائیل نے ایران پر حملےکا ارادہ نہ بدلا کہ12جون آپریشن ’’ RISING LION ‘‘دو دہائیوں سے طے تھا ، شیر کیا اُٹھتا ، محو استراحت ایرانی شیر جگا دیا ، 24گھنٹے اندر اسرائیل پر ایران نے سینکڑوں میزائلوں کی ایسی بارش برسائی کہ 16جون تک اسرائیل گھٹنے ٹیک چکا تھا ۔ پاکستان ایران جنگیں جنوب مشرقی ایشیا میں کئی رہنمااصول متعین کر گئیں ۔ جہاں بھارت پسپا اور ڈھیر نظر آیا وہاں اسرائیل کا ناقابل تسخیر بھرم پاش پاش ہو گیا ۔ دورائے نہیں ، بھارت اور اسرائیل بغیر کسی رسمی افہام و تفہیم ایک بندھن میں یک جان دو قلب ہیں ۔ فوجی ، سائنسدان ماہرین ایک دوسرے کے گھر عرصہ سے براجمان ہیں ۔ سینکڑوں کی تعداد میں بھارتی ڈرونز کا پاکستان پر حملہ، یقیناً اسرائیلی آپریٹرز ہی KEYBOARD's پر موجود تھے ۔ منالی ( ہماچل ) جیسے کئی اہم مقامات اسرائیلی فوج کے حوالے کر رکھے ہیں ، مشرقی لداخ میں چین جبکہ سیاچن سے پاکستان کے کئی دوسرے مقامات کی تاک میں ہیں ۔ دونوں محاذوں پر ایک قدر مشترک ، اللہ تعالیٰ اور چین کی مدد کے بغیر فتوحات آسان نہ تھیں ۔ واقعاتی تفصیل میں جائے بغیر عرض ہے ، اس پس منظر کی موجودگی میں چین ، پاکستان اور ایران براہِ راست ساؤتھ ایشیادفاعی معاہدہ تشکیل دیں ۔امریکی گلوبل نارتھ کے مقابلہ میں چین کی قیادت میں گلوبل ساؤتھ کی ایک نئی دنیا بسانی ہے ۔ BRICS بہت جلد UN کے مقابلے میں سارے گلوبل ساؤتھ کی آماجگاہ بننے کو ہے جبکہ برکس بینک نے عالمی بینک کو ٹکے ٹوکری کرنا ہے ۔ نئی دنیا میں تنازعات جنگوں کی بجائے انصاف اور بات چیت سے طے ہونگے کہ مشترکہ سیکورٹی رہنما اصول بننا ہے ۔ نئی دنیا کے مشترکہ اسٹرٹیجک مفادات نے مغربی عسکریت پسندی و مداخلت کے خلاف ایک مضبوط توازن مہیا کرنا ہے ۔ پاکستان اور ایران کو علیحدہ سے معاہدہ کرنا ہوگا کہ پاکستان یا ایران کیخلاف کسی بھی دوسرے ملک کی جارحیت ، دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائیگا ۔’’مولے نوں مولا نہ مارے تے مولانئیںمردا‘‘! خُوگر شکایت کی ایک بات گرہ سے باندھ لیں ، PTI کا اپنا فائدہ ہے۔ خدا کے واسطہ !عمران خان، لواحقین،پارٹی قیادت اپنی استطاعت ، سیاسی بالیدگی کو سامنے رکھ کر اپنی ناقص حکمت عملی کا جائزہ لیں ۔ شرح صدر کیساتھ،پی ٹی آئی مملکت خداداد کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے ، نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔ مملکت کا درخشاں مستقبل ، وطنی سیاسی استحکام سے جُڑا ہے ، جسکا حصول پی ٹی آئی کو آن بورڈ کئے بغیر ناممکن ہے۔بدقسمتی آجکل PTI اپنوں کے ہاتھوں رفتہ رفتہ گھائل ہو رہی ہے ، برباد اور بیدردی سے خرچ ہو رہی ہے ۔مخالفین کا PTI پر طاقت یا وسائل لگانا تضیع اوقات ہے۔ اس وقت پارٹی کی قیادت کس کے پاس ، ایک طوفان بدتمیزی مچا ہے ۔خودنمائی، سیلف پروجیکشن ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ، اندرونی اختلافات ، باہمی سازش کینسر کی طرح سرایت کر چکے ہیں۔ لواحقین سیاسی حکمت سے عاری ، سیاسی سمجھ بوجھ میں نابلد، ناتجربہ کار ، حرصِ عہدہ اور سیاسی وراثت کے جھگڑوں میں غرقاب ، عمران خان کو شعوری لاشعوری جیل میں رکھ کر ہر بندہ فیصلے صادر فرما رہا ہے ۔ عمران خان کی قائم حقی سچی جائز قیادت، گھس بیٹھیے ، نئے نویلوں کے ہاتھوں رسوا ہو رہی ہے ۔ دوسری طرف سوشل میڈیا اپنے تئیں عمران خان کو بھیانک انجام تک جلد پہچانے کیلئے بیتاب ہے ، PTI کے موثر لیڈروں کی پگڑیاں بیچ چوراہے اُتارنا ترجیح بنا چکا ہے کہ اس میں انکا ڈالر روزگار پنپ رہا ہے ۔نام نہاد نئی نویلی تنظیم ، منظم انداز میں تنظیم ہی کو کمزور کر رہی ہے ۔ بظاہر عمران خان کے جیل سے جاری مبینہ پیغامات کو عام کر کے کئی خواتین و حضرات اپنی Relevance مستحکم کر رہے ہیں عملاً'پارٹی کو بھیانک انجام ، گڑھے میں دھکیلنے میں موثر اور مستعد ہیں ۔ تحریک انصاف کے حقی سچی لیڈر اور PTIحکومتی عہد یداران اور رتبے رکھنے والے سب عمران خان کے اپنے تعینات کردہ ہی تو ہیں۔ ان تعیناتیوں کے پیچھے یقینا'ًعمران خان کا مقصد اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات ، مفاہمت پروان چڑھانا ، Engagementپالیسی تھی ۔ عمران خان کے احکامات کے مطابق ہی تو ان لوگوں نے پچھلے ڈیڑھ سال سے مفاہمتی بیانیہ کو آگے بڑھایاکہ انکی ذمہ داری مفاہمت کے راستے ڈھونڈنا تھا۔ فیملی ممبران مع سوشل میڈیاگینگ کا PTI کے ایسے افراد کو نشانہ بنانا خود عمران خان کی مفاہمتی حکمت عملی کوبے آبرواور رُسوا کر گیا ، دوغلی سیاست سامنے آئی ۔ دوبارہ دُہراتا ہوں ، ان شخصیات کو تنقید کا نشانہ بناکر عملاً عمران خان کو بند گلی میں دھکیل چکے ہیں۔ ہر بار یہ گروپ میڈیا پر آ کر جب بھی پریس ٹاک کرتے ہیں ، پارٹی کو گہری دلدل میں دھکیل جاتے ہیں۔ اندرونی خلفشار کو ہوا ملتی ہے ، عمران خان کی مشکلات بڑھاتے ہیں کہ اندر کھاتے مفاداتی ایجنڈے نے گرفت میں لے رکھا ہے ۔اندرونی فسادات و انتشار ہر گزرتے دن کیساتھ سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں۔ عمران خان کی مشکلات لامتناہی ہو چکیں ۔ اب جبکہ 7جون کو 20ویں مرتبہ احتجاجی تحریک کی کال دینی ہے ، پوچھنا بنتا ہے کہ منطق کیا ہے احتجاج کیونکر کامیاب ہوگا؟ پچھلے تین سال سے عمران خان احتجاجی سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا چکے ہیں ۔ اگست 2022ء سے ایک ذات نشانہ پر، تب سے احتجاجی سیاست کا محور وہی ذات ہے، باقی سب زیب داستاں ہے ۔ درجنوں بار انواع واقسام کے گُر آزمائے، ناکامی نے منہ چڑایا ۔ ایک وقت جب عسکری قیادت قدم جما نہیں پائی تھی ، رائے عامہ کو عمران خان نے عسکری قیادت کیخلاف اُکسا، بھڑکا رکھا تھا ، تو ناکامی نے منہ چڑایا تھا۔ اب جبکہ عسکری قیادت عالمی شہرت ، عزت کما چکی ، عوام کے دلوں میں تاریخی جگہ بنا لی ہے۔ ایسے میں گھسا پٹا ہنر آزمانا کہاں کی عقلمندی ہے۔ عمران خان کی نااہل سیاست، ناقص حکمت عملی نے عمران خان کو گھائل رکھنا ہے۔ مجھے افسوس ہوگا، اگر عمران خان کی سیاست بغیر کسی وجہ کے تحلیل ہو جائے، کمزور پڑ جائے۔ ’’مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا !‘‘