• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چہرہ…مظہر برلاس

(گزشتہ سے پیوستہ)

ہاکی پہ کالم کیا شائع ہوا، بہت سے لوگوں کے دکھ بھرے پیغام ملے، شاید اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ پاکستان نے ہاکی پر راج کر رکھا ہے اور پاکستان کے قریباً ہرا سکول میں ہاکی کھیلی جایا کرتی تھی، سابق بیوروکریٹ ثمینہ وقار کہنے لگیں کہ’’میں اسکول، کالج، یونیورسٹی اور صوبائی سطح پر ہاکی کھیلتی رہی ہوں‘‘۔ مبشر علی شاہ، نوید وڑائچ اور یاور بخاری سمیت کئی دوستوں کے پیغامات موصول ہوئے جو کالج کے زمانے میں ہاکی کھیلتے تھے۔ کس کس کا تذکرہ کروں کہ قومی کھیل دلوں میں بستا تھا۔

پروفیسر ڈاکٹر طاہر رشید لاہور کی ایک بڑی یونیورسٹی میں سیاسیات اور بین الاقوامی امور پڑھاتے ہیں، انکی ہاکی میں دلچسپی حیران کن ہے، کہنے لگے ’’اگرچہ پاکستان میں ہاکی زوال کا شکار ہے مگر آج بھی ہاکی کی محبت لوگوں کے دلوں میں موجود ہے۔ آپ نے درست فرمایا کہ شہباز سینئر کے بعد ہمارے پاس کوئی کھلاڑی نہیں آ سکا، جس کا میدان میں جادو چلتا ہو، کھلاڑیوں کے اعلیٰ سطح پر نہ کھیلنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک کے سرکاری اسکولوں میں کھیل کے میدان نا پید ہو چکے ہیں، جو اسکول ایکڑوں میں ہوا کرتے تھے، وہ اب مرلوں میں ہیں، جب کھیل کے میدان ہی نہیں ہوں گے تو کس طرح بچوں کی نرسری اوپر آئے گی۔ سہولیات کی عدم فراہمی اور کھلاڑیوں پر عدم توجہی کے باعث ہم دنیائے ہاکی میں اپنا مقام کھو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں ہاکی لیگز کھیلی جاتی ہیں اور مختلف ممالک سے کھلاڑی شریک ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں بنیادی سہولیات نہ ہونے کے سبب کھلاڑی لیگز نہیں کھیل سکتے۔ ہاکی فیڈریشن کو مالی بحران کا سامنا ہے، کھلاڑیوں کو ٹورنامنٹ کیلئے ادائیگی نہیں کی جاتی اور نہ ہی ان کیلئے کسی قسم کی باقاعدہ تنخواہوں کا نظام ہے۔ پاکستانی فیلڈ ہاکی کے مایہ ناز کھلاڑی کلیم اللہ خان نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’میں پچھلے دنوں بیرون ملک کھلاڑیوں کے ساتھ ٹورنامنٹ کیلئے گیا تو ہمارے کھلاڑی کمروں سے باہر نہیں نکلتے تھے کیونکہ انکے پاس چائے کافی پینے کیلئے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔ میڈیا بھی سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتا ہے، ہاکی کے میچ نہیں دکھائے جاتے‘‘۔

پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم نے گزشتہ ماہ کوالالمپور میں ہونے والے ایف آئی ایچ نیشنز کپ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا، فائنل میں اعلیٰ رینکنگ کی نیوزی لینڈ ٹیم کے ہاتھوں شکست کے بعد رنرز اپ فائنل میں پہنچا۔ شکست کے باوجود، گرین شرٹس کے فائنل تک پہنچنے کے سفر نے حکمت عملی کی مہارت کا مظاہرہ کیا، نچلی سطح سے ترقی پر نئے سرے سے زور دینے اور نئی نسل کے کھلاڑیوں کے ابھرنے کے ساتھ کھلاڑیوں کی ڈرامائی انداز میں سیمی فائنل میں واپسی قابلِ تحسین ہے، FIH پرو لیگ، ٹاپ 10 کی عالمی درجہ بندی کی ٹیموں کیلئے ممکنہ قابلیت کے ذریعے بین الاقوامی ہاکی کے ایلیٹ رینک میں دوبارہ شامل ہونے کی امیدوں کو جگاتی ہے۔پاکستان ہاکی کی حالیہ بحالی سے بین الاقوامی سطح پر قابل تعریف کارکردگی دکھائی دی ہے، رواں سال FIH نیشن کپ ہاکی ٹورنامنٹ ملائیشیا میں قومی ٹیم نے چاندی کا تمغہ حاصل کیاہے۔ سال 2024ء میں چین کی ایشین چیمپیئنز ٹرافی میں کانسی کا میڈل اپنے نام کیا اور اسکے علاوہ 2024ء کے سلطان اذلان شاہ کپ ہاکی ٹورنامنٹ میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔ عمان میں منعقدہ جونیئر ایشیاکپ ہاکی ٹورنامنٹ میں بھی چاندی کا میڈل قومی ٹیم کے حصے میں آیا۔ کھیل کی طویل مدتی ترقی اور کھلاڑیوں کی مالی استعانت کیلئے منظم، پائیدار پالیسی کو تشکیل دینا اور اس پر عمل درآمد کرنا ناگزیر ہے۔ اس طرح کے اقدامات کو دائمی کم فنڈنگ، انتظامی خرابی اور نچلی سطح کے بنیادی ڈھانچے کے کٹاؤ کے گہرے چیلنجوں سے نمٹنا چاہیے، جس نے طویل عرصے سے اس شاندار قومی کھیل کی بحالی میں رکاوٹ ڈال رکھی ہے۔ قومی ہاکی ٹیم کی بحالی اور کھلاڑیوں کی بھرپور کارکردگی کے تناظر میں چند اہم سفارشات ضروری ہیں۔ قومی کھیل ہاکی کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنا کر ڈیپارٹمنٹ ہاکی ٹیموں کو تشکیل دیا جائے، محکمانہ ٹیموں کی بحالی کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں، ڈیپارٹمنٹ کے تحت کھلاڑیوں کیلئے باقاعدہ نوکریوں کا بندوست کیا جائے۔ نیشنل سطح پر ہر سال پروفیشنل پاکستان ہاکی لیگ کا انعقاد کیا جائے، جس طرح کرکٹ کیلئے پی ایس ایل کا ماڈل موجود ہے، لیگ کے انعقاد سے پاکستان بھر سے نچلی سطح کے ٹیلنٹ کو اوپر آنے کا موقع ملے گا، جس سے قومی ہاکی ٹیم مضبوط بنے گی۔ اسکے علاوہ کھلاڑیوں اور اہل عہدیداروں کو سینٹرل کنٹریکٹ دیا جائے۔

ہمیں کرکٹ کے علاوہ باقی کھیلوں پر بھی توجہ دینی چاہیے، سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں کو پابند کیا جائے کہ انکے پاس ہاکی، کرکٹ اور دوسرے کھیلوں کے گراؤنڈز لازمی ہوں، ہر سال تحصیل، ڈسٹرکٹ، صوبے اور قومی سطح پر مقابلے ہوں، کھیل ویسے بھی صحت مند نسل کیلئے ضروری ہیں، جہاں کرکٹ کیلئے اسی نوے ارب کی بات ہوتی ہے تو وہاں قومی کھیل ہاکی کیلئے آٹھ دس ارب کیوں نہیں رکھے جا سکتے؟ اگر میڈیا ساتھ دے تو کرکٹ کے علاوہ باقی کھیلوں میں بھی دلچسپی پیدا کی جا سکتی ہے مگر یہاں حیرت انگیز طور پر سوائے کرکٹ میچوں کے اور کچھ دکھایا نہیں جاتا ورنہ لوگ تو کبڈی کا میچ بھی شوق سے دیکھیں، فٹبال دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے مگر ہمارے ہاں سازشوں کا شکار ہے۔ فیفا ورلڈ کپ میں سیالکوٹ کے بنے ہوئے فٹبال سے دنیا کے بڑے بڑے کھلاڑی کھیلتے ہیں مگر جس ملک میں سیالکوٹ ہے اس ملک کی ٹیم فیفا ورلڈ کپ میں نہیں ہوتی۔ جاتے جاتے قومی شاعر کا شعر بھی سنتے جائیں کہ

آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

تازہ ترین