آج کل نیویارک میئر کیلئے ڈیموکریٹ پارٹی کے امیدوار ظہران ممدانی کا امریکہ بھر میں خوب شہرہ اور چرچا ہے۔ وہ اپنی کامیابی کےقریب ترین ہیں اور ادھر انکی صدر ٹرمپ سےنوک جھونک بھی مسلسل جاری ہے۔ ممدانی نے انسٹاگرام پوسٹ میں امریکی صدر کی دھمکی کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ امریکی صدر نے مجھے گرفتار کرنے، میری شہریت چھیننے، قید میں ڈالنے اور ملک بدر کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ’صدرٹرمپ نے مجھے یہ دھمکی اسلئے نہیں دی کہ میں نے کوئی قانون توڑا ہے بلکہ اسلئے کہ میں دہشت زدہ کرنے والے (آئی سی ای) امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ کیخلاف ہوں‘۔ جبکہ امریکی صدر نے بیان میں کہا تھا کہ ظہران ممدانی امریکیوں کیلئے ایک بری خبر ہے، وہ ایک خوفناک کمیونسٹ ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ’’اگر نیو یارک کے لوگ ممدانی کو منتخب کرتے ہیں تو وہ پاگل ہیں۔ موجودہ صورتحال کےمطابق ممدانی ڈیموکریٹک پرائمری کا پہلا راؤنڈ بھاری اکثریت سے جیت چکے ہیں۔ اُنہوں نے سابق گورنر نیویارک اینڈریو کومو پر غیرمعمولی سبقت حاصل کی، ظہران ممدانی کو سوا 4 لاکھ سے زائد ووٹ مل چکے ہیں۔ بلاشبہ ظہران ممدانی نے نیو یارک کے مئیر کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی کے اندرونی انتخابات بڑے مارجن سے جیت کر امریکی سیاست میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ وہ ابھی نیویارک کے مئیر نہیں بنے لیکن روایت یہی چلی آرہی ہےکہ جو بھی ڈیموکریٹک پارٹی کا امیدوار ہوتا ہے وہ یہاں جنرل الیکشن بآسانی جیت جاتا ہے۔ یعنی امید کی جاسکتی ہے ظہران ممدانی نیویارک کے پہلے مسلمان میئر ہونے کیساتھ ساتھ پہلے سوشلسٹ میئر بھی ہونگے۔ اس الیکشن کا تجزیہ دو حوالوں سے کیا جانا چاہئے۔ اول یہ کہ نیویارک ڈیڑھ سو برس سے عالمی سرمایہ داری کا گڑھ ہے جہاں پر دنیا کے امیر ترین لوگوں کا غلبہ ہے۔ ان حالات میں سوشلزم یا وسائل کی تقسیم کی بات کرنا بہت حد تک ناممکن تصور کیا جاتا تھا جسے باکمال نوجوان ممدانی نے بہرحال ممکن بنادیا۔ دوئم یہ الیکشن اسرائیل کے مشرق وسطیٰ میں جاری ظلم و جبر کے دنوں میں ہوا۔ نیویارک تیل ابیب کے بعد دنیا میں یہودیوں کا سب سے بڑا شہر ہے اور اسرائیل کیلئے اسکے حلقوں میں بہت حمایت پائی جاتی ہے۔ ظہران ممدانی کی جانب سے فلسطین اور ایران کے حق میں بیانات نے اسکو ایک بہت بڑے طبقے کیلئے ناقابل قبول بنا دیا جس کے نتیجےمیں اس کے مخالف Andrew Cumou، کو بھاری امداد ملنا شروع ہوگئی۔ امریکی الیکشن میں پیسے کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے اسلئے اکثر لوگوں کا خیال تھا ممدانی ایک اچھا مقابلہ تو کر لے گا لیکن جیت کبھی اس کا مقدر نہیں بن سکتی۔ایسی تمام ترقیاس آرائیوں کے باوجود ظہران ممدانی نے نہایت مؤثر اور بھرپور طریقے سے بہترین منصوبہ بندی کیساتھ ایک شاندار مہم چلائی جس میں غیر ضروری دعووں یا محض زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے اس نے بنیادی ایشوز کو اٹھایا۔ نیو یارک میں محنت کش طبقے کیلئے مکان کا کرایہ دینا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ ممدانی نے کہا کہ میری حکومت پورے نیویارک میں کرایہ بڑھانے پر پابندی لگائے گی۔ کھانے کی اشیا سے لیکر ٹرانسپورٹ پر شہریوں کو ریلیف دبگی۔ تب ہرطرف سے یہ باتیں ہونے لگیں کہ اس طرح کے ریلیف عوام کو دینے کیلئے فنڈز کا انتظام کیسے ممکن ہو پائے گا؟ تو اس نے درجنوں بہترین معیشت دانوں کی ٹیم کا اعلان کر کے اپنا وژن اور منصوبہ سامنے رکھ دیا۔ جس میں نیو یارک میں دنیا کے امیر ترین باشندوں پر ٹیکس بڑھا کر اس خرچے کو پورا کرنے کا لائحہ عمل دیا گیا۔ فلسطین کے معاملے پر کھل کر اسرائیلی بمباری کی مخالفت کی جسکی وجہ سے میڈیا میں مخالفت ضرور ہوئی لیکن عام لوگوں اورخاص طور پر نوجوانوں میں اس موقف کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ممدانی ایک سلجھا ہوا اور سنجیدہ نوجوان سیاسی کارکن ہے اس نے ان تمام چیزوں کیساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کا عمدگی کیساتھ استعمال کیا اور گراس روٹ لیول پر ہر علاقے میں ووٹروں تک رسائی حاصل کی، وہ ان محنت کش لوگوں تک کو سیاسی عمل میں واپس لانے میں کامیاب رہا جنہوں نے ایک مدت قبل مایوس ہوکر الیکشن کے عمل سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ گویہ الیکشن راتوں رات سب کچھ بدل نہیں دے گا۔ ممدانی کو مئیر بننے کے بعد یقینی طور پر شدید دباؤ ٫گہری سازشوں اور پروپیگنڈا کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ہر مقام پر کچھ قوتیں اسکی راہ مسدود کرنے کی سعی کریں گی۔ لیکن تمام ترکٹھن مراحل سے مستعدی، اپنی محنت اور اپنے ٹیم ورک کیساتھ کامیابی سے نمٹنا ہوگا۔ اسے ہر قیمت پر لوگوں کے اعتماد پر پورا اترنا ہوگا اور محنت کشوں کیلئے ریلیف کو ممکن بنانا ہوگا۔ ممدانی کو امریکہ میں بڑے پیمانے پر مخالفت کی بنا پر اگر مئیر بننے کے بعد اپنے مقاصد میں بالفرض ناکامی سے دوچار ہونا بھی پڑتا ہے تب بھی اسکی ناکامی کو اس زاویہ نگاہ سے دیکھا جائیگا کہ انقلابی جدوجہد کبھی کامیابی سےخالی نہیں ہوتی وہ ضرور آج نہیں توکل رنگ لے آتی ہے۔ اس مہم کی بنیاد طلبا، ٹریڈ یونین اور معاشرے کی دیگر منظم تنظیمیں تھیں جنہوں نے پیسے کی طاقت کو شکست دی۔ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں ان تنظیموں پر پابندی کے ساتھ ساتھ بلدیاتی الیکشن بھی عرصۂ دراز سے اسلئے منعقد نہیں کرائے جا رہے کہ مبادا بہتر سوچ رکھنے والی نوجوان سیاسی قیادت سیاسی منظرنامے پر نمودار ہوجائے اور ایک موروثی سیاسی نظام کا دھڑن تختہ ہی کردے۔