• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوٹ لکھپت جیل کی دیواروں سے گونجتی وہ آوازیں، جو ظاہراً خاموش لگتی ہیں، دراصل وقت کی سب سے بلند صدا ئیںبن کر ابھری ہیں۔ایک ایسا خط، جس پر ڈاکٹر یاسمین راشد، شاہ محمود قریشی، سینیٹر اعجاز چوہدری، عمر سرفراز چیمہ اور میاں محمود الرشید کے دستخط ثبت ہیں، گویا وہ محض سیاہی نہیں، بلکہ ایک عہد کا آئینہ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قید کے کرب میں بھی ملک کی سیاسی نبض کو تھامے کھڑے ہیں، اور جنہوں نے ایک مشترکہ قرارداد کی شکل میں یہ اعلان کیا ہے کہ وہ فوری، بےشرط اور بامعنیٰ مذاکرات کے علمبردار ہیں۔ وہ جو پس دیوارِ زنداں بھی سنجیدگی اور تدبر کے ساتھ سیاست کو نئی جہت دینا چاہتے ہیں، انہوں نے مکالمے کا دروازہ وا کرنے کی بات کی ہے۔نہ کسی سودے بازی کی صورت میں، نہ کسی جھکی گردن کے ساتھ، بلکہ ایک ایسے وقار کے ساتھ جس میں جمہوریت کے خواب ابھی تک روشن ہیں۔میرے نزدیک، یہ تحریر کسی بےبسی کی علامت نہیں، بلکہ وہ طغیانی ہے جو معاشرے میں سرایت کرتے ہوئے غیرجمہوری رویوں کو للکارتی ہے۔ یہ خط ہتھیار ڈالنے کی نہیں، قلم اٹھانے کی علامت ہے۔ایسا قلم جو زنجیروں کی زنگ آلود دیوار پر نئی تاریخ رقم کرتا ہے۔ یہ اس عزم کی بازگشت ہے جو قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود قومی مکالمے کو نفرت سے نہیں، تدبر سے لکھنا چاہتا ہے۔ گویا وہ کہہ رہے ہوں: اگر کوئی راستہ بچا ہے، تو وہ صرف بات چیت کا ہے، اور اگر کوئی سچ بچا ہے، تو وہ صرف جمہوریت کا ہے۔ کچھ لوگ اس خط کو یوں بھی دیکھتے ہیں کہ کمرہ سیاہ تھا، جیسے وقت کے جسم پر تاریخ نے کوئی داغ چھوڑ رکھا ہو۔ باہر گرمی نے اینٹوں کو دہکا رکھا تھا اور اندر، کوٹ لکھپت جیل کی دیواروں میں ایک ایسی بازگشت گونج رہی تھی جو صرف سیاسی قیدیوں کو سنائی دیتی ہے۔ وہ پانچ افراد، جنہیں ایک زمانے میں ریلیوں کے ہجوم اٹھائے پھرتے تھے، آج اپنی خواہش کو سادہ کاغذ پر منتقل کر رہے تھے: مذاکرات۔ مکالمہ۔ مداخلت۔یہ صرف ایک خط نہیں —یہ ماضی کی شعلہ بیانی کے بجائے، حال کی خاموش التجا بھی ہے۔ اور اس خط پر وہ سب دستخط ثبت ہیںجنکے ناموں کے ساتھ ’رہنما‘ کا لاحقہ آتا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ ، اب صرف ’قیدی‘ لکھا جاتا ہے ۔ بے شک کہانی رُخ بدل سکتی ہے مگر سب سے غور طلب بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی میں بات صرف ایک شخص کی ہے، صرف اسی کے لفظ پی ٹی آئی کا بیانیہ ہیں ۔ وہ شخص جو جیل کی دیواروں کے بیچ بھی، ایک ایسا مرکز ہے جس کے گرد پی ٹی آئی کی سیاست کے تمام سیارے گردش کرتے ہیں۔بے شک ان پانچ رہنماؤں کی جانب سے جاری کیا گیا خط، جمہوریت کے دھاگے کو جوڑنے کی ایک کوشش ضرور ہے، مگر یہ دھاگہ، جب تک عمران خان کی مہر سے نہ بندھا ہو، تب تک سیاست کی پوشاک نہیں بن سکتا۔نون لیگ کے کچھ سینئر رہنمابھی یہی سمجھتے ہیں کہ مذاکرات ناگزیر ہیں۔سیاسی جماعتوں کی بات چیت کے بغیر جمہوریت، صرف ریت پر لکھی ہوئی تحریر ہے۔خواجہ سعد رفیق بھی اس خط کو’’دانشمندانہ اقدام‘‘ کہتے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر دشمن ممالک سےبات چیت ہو سکتی ہے تو ملک کی سیاسی قوتوں سے کیوں نہیں ۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ کی طرح افہام و تفہیم کے پل پر کھڑی ہے، مگر نہ دریا پرسکون ہے، نہ فضا میں اعتماد کا رنگ۔ حکومت چاہتی ہے کہ بات چیت ہو، اور اس میں صرف سیاست کی نہیں، اصول کی بات ہو۔ ایسا جمہوری ضابطۂ اخلاق طے کیا جائے جو بار بار کی اس کھنڈت کو روکے، اس خستہ نظام کو تھامے۔لیکن سوال پھر وہی ہے ۔کیا یہ سب کچھ عمران خان کی رہائی کے بغیر ممکن ہے۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ ایک قیدی اگر بات کرے تو کس سے کرے ،پھر کس زبان سے کرے ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان ماضی سے نہیں سیکھتا۔لیکن اس وقت ہمارا یہ مسئلہ نہیں کہ وہ سیکھتا ہے یا سکھاتا ہے ۔ مسئلہ یہ ہےکہ بات اس کے لبوں کی حرکت پر رُکی ہوئی ہے۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیاقوم اُس کے اشارے کی منتظر ہے۔ کیا سات سو دنوں سے جیل میں پڑے ہوئے شخص کی خاموشی کسی بڑے طوفان کی تمہید بن سکتی ہے۔لوگ پوچھتے ہیں کہ عمران خان رہا ہوا تو وہ کیاکرے گا ،کیا کوئی تحریک چلائے گا۔عوام کو گھروں سے باہر نکال لائے گا۔حکومت کو کام کرنے سے روک دے گا ۔میرے خیال میں وہ غلط سوچتے ہیں ۔وہ جمہوریت اور انصاف پر یقین رکھتا ہے ۔اس نے تو اپنی پارٹی کا نام تحریک انصاف رکھا ہوا ہے اگر اسے رہا کیا جاتا ہے تو وہ خود مذاکرات کی طرف قدم اٹھانے والا پہلا آدمی ہوگا۔بے شک مذاکرات بہت ضروری ہیں ، ان کی ضرورت پی ٹی آئی کے لوگوں سے زیادہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو ہے ۔کیونکہ ان دونوں کا وجود بھی جمہوریت کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ خدا نخواستہ یہ ڈری سہمی ہوئی جمہوریت بھی ختم ہو گئی تو پھر کیا ہوگا۔پی ٹی آئی اور اس کی لیڈر شپ کے ساتھ تو جو کچھ ہونا تھا وہ ہوچکا مگرصاحبانِ اقتدار بھی جمہوریت کے ہی نام لیوا ہیں ۔پیپلز پارٹی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر جمہوریت کو سب سے بڑا انتقام قرار دیا تھااور نون لیگ ووٹ کی عزت کےلئے ہمیشہ کوشاں رہی ہے۔ ان دونوں پارٹیوں کی زندگی صرف اور صرف پی ٹی آئی کےساتھ مذاکرات میں ہے۔

تازہ ترین